کرکٹ ابھی باقی ہے

ایاز خان  پير 23 مارچ 2015
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

’’تم نے ورلڈ کپ ڈراپ کر دیا‘‘۔ میدان ہیڈنگلے لیڈز (انگلینڈ) ہے۔ 1999ء کا ورلڈ کپ ہے اور سپر سکس اسٹیج کا یہ آخری میچ ہے جس میں جیتنے والی ٹیم نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہے۔ ٹیمیں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ ہیں۔ یہ الفاظ اس وقت کے آسٹریلین کپتان اسٹیو وا سے منسوب ہیں۔ بہت سے پڑھنے والوں کو یہ واقعہ یاد ہو گا لیکن پھر بھی دہرا دیتا ہوں۔ اس اہم ترین میچ میں جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو 271 رنز کا بڑا ٹارگٹ دے دیا۔ اسٹیووا جب بیٹنگ کے لیے کریز پر آئے تو محض 48 رنز پر آسٹریلیا کے 3 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ ہرشل گبز نے جن کی سنچری کی بدولت جنوبی افریقہ 270 رنز بنانے میں کامیاب ہوا تھا اسٹیو وا کے کریز پر آتے ہی ایک جملہ کہا ’’دیکھتے ہیں یہ دباؤ کو اب کیسے برداشت کرتے ہیں‘‘۔

آسٹریلین کپتان نے اس جملے کو سیریس لیا اور تیز رفتاری سے ٹیم کو مشکل سے نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ 31 ویں اوور کی آخری گیند پر اسٹیو وا نے جب 53 گیندوں پر 56 رنز بنا لیے تو ان کی ایک شاٹ ہوا میں چلی گئی۔ ہرشل گبز نے کیچ تقریباً پکڑ لیا مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ جب خوشی سے اس کو ہوا میں اچھالنے کی کوشش کرنے لگے تو گیند ان کے ہاتھ سے گر گئی۔ کیچ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے یہ ڈراپ ہو گیا۔ گبز کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ اسٹیو وا نے جوابی جملہ کہا ’’تم نے ورلڈ کپ ڈراپ کر دیا‘‘اور اپنی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم فارغ ہو گئی۔ اسٹیو وا نے اس میچ میں 110 گیندوں پر 120 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

اسٹیو وا کا یہ جملہ مجھے میچ میں اس وقت یاد آیا جب راحت علی نے شین واٹسن کا ایک آسان کیچ گرایا۔ واٹسن نے اس وقت صرف 4 رنز بنائے تھے اور ان کے آؤٹ ہونے سے آسٹریلین بیٹنگ لائن مشکل سے دوچار ہو سکتی تھی۔ اس بات کا اعتراف میچ کے بعد کینگرو کیپٹن مائیکل کلارک نے بھی کیا۔ کینگروز نے جب پاکستان کو ہرایا تو شین واٹسن 65 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ تھے۔ سہیل خان نے بھی گلین میکسویل کا ایک کیچ چھوڑا تھا مگر میرے خیال میں اس کیچ کے گرنے سے میچ کی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ یہ دونوں کیچ وہاب ریاض کی بولنگ پر گرائے گئے۔

ہماری ٹیم ورلڈ کپ ہار کر واپس آ چکی ہے۔ ٹیم کی سلیکشن سمیت ہر چیز پر تنقید آپ پڑھ بھی چکے ہیں اور سن بھی لی ہے۔ قومی ٹیم اب جب دوبارہ غیر ملکی میدانوں میں اترے گی تو اس میں مصباح الحق اور شاہد آفریدی نہیں ہونگے۔ نوجوان کھلاڑی ان دونوں کی جگہ لیں گے۔ غیر ملکی میدانوں کا ذکر میں نے اس لیے کیا کہ ملکی میدان سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے ویران پڑے ہیں۔ مصباح الحق کی بد قسمتی ملاحظہ کریں کہ وہ بطور کپتان ایک بھی میچ اپنی ہوم گراؤنڈ پر نہیں کھیلے۔ آسٹریلیا کے خلاف کوارٹر فائنل کی طرف واپس چلتے ہیں۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر بیٹنگ شروع کی تو ٹیم میں اعتماد نظر آ رہا تھا۔ 250 سے زیادہ اسکور سامنے کی بات لگ رہا تھا مگر پہلے مصباح پھر عمر اکمل اور اس کے بعد شاہد آفریدی نے ایک ہی جگہ پر کیچ دے کر سفر کھوٹا کرلیا۔

ہمارے بیٹسمینوں کی مستقل مزاجی کے کیا کہنے‘ سارے کیچ آؤٹ ہو کر میدان بدر ہوئے۔ 214 رنز کا ہدف آسٹریلیا جیسی ٹیم کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ پاکستانی اننگز میں حارث سہیل 41 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر تھے۔ یعنی ایک نصف سنچری بھی نہ بن پائی۔ آئرلینڈ کے خلاف سرفراز احمد کی سنچری پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی طرف سے بنائی گئی واحد سنچری تھی۔ جس ٹورنامنٹ میں دو بار 400 کا ہندسہ عبور ہوا ہو‘ ہر دوسرے میچ میں تین سو سے زاید رنز کا ہدف دیا گیا یا حاصل کیا گیا ہو اس میں کوئی ٹیم ایک سے زیادہ سنچری نہ بنا پائی ہو تو اس کا کوارٹر فائنل تک پہنچ جانا معمولی بات نہیں۔

ٹورنامنٹ شروع ہوا تو ہماری بولنگ کو کمزور کہا جا رہا تھا۔ بلے بازوں سے امید تھی مگر وہ پوری نہ ہو سکی۔ ورلڈ کپ میں ہمارا سفر ختم ہونے تک اگر کسی شعبے نے ہماری امیدیں زندہ رکھیں تو وہ بولنگ ہی تھی۔ فیلڈنگ میں تو ہر میچ میں ہم نے ایک سے زیادہ کیچ گرائے۔فیلڈروںکے ہاتھوں سے گیند باؤنڈری لائن عبور کرتی رہی۔

بولنگ کا ذکر ہوا تو وہاب ریاض کا خطرناک ترین اسپیل کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ مصباح الحق نے کہا انھوں نے اپنے پورے کیرئیر میں ایسا بولنگ اسپیل نہیں دیکھا۔ مائیکل کلارک نے بھی ان کی بولنگ کو خطرناک قرار دیا۔ برائن لارا سمیت لا تعداد سابق کرکٹرز نے بھی اسے لاجواب کہا۔ یوں تو وہاب ریاض ورلڈ کپ میں ایک مختلف بولرکے روپ میں سامنے آئے مگر کوارٹر فائنل میں انھوں نے کمال کر دیا۔ یوں لگتا تھا کہ یہ میچ آسٹریلیا بمقابلہ وہاب ریاض ہے۔ 2011ء کے سیمی فائنل میں بھارت کے خلاف موہالی میں بھی وہاب ریاض نے 5 وکٹیں لے کر اپنا کردار ادا کر دیا تھا مگر ہماری بیٹنگ تب بھی فلاپ ہو گئی۔

وہاب نے جس طرح جان لڑائی اس نے مجھے بہت حوصلہ دیا ہے۔ سچی بات ہے میں وہاب ریاض میں مستقبل کا کپتان دیکھ رہا ہوں۔ میدان میں جارحانہ رویہ اپنانے والا کپتان۔ عمران خان کے بعد ہمیں کوئی ایسا کپتان نہیں ملا جو دلیرانہ فیصلے کر سکے۔ مصباح الحق روایتی کپتان ہیں۔ وہ ہمیشہ رسک لینے سے ڈرتے رہے۔ انھیں وقار یونس کی شکل میں کوچ بھی روایتی سوچ والا ملا۔ چیف سلیکٹر معین خان نجم سیٹھی کی کمزوری تھے۔ اس کی کوئی وجہ یقیناً ہو گی لیکن وہ میرے علم میں نہیں ہے۔

جانے والوں کو بہت برا بھلا کہہ دیا گیا۔ کرکٹ کا جنازہ تک نکالا گیا ہے۔ قوم جلد یہ سب کچھ بھول جائے گی۔ مصباح الحق نے مشکل وقت میں قیادت سنبھالی تھی۔ وہ 40 سال کی عمر میں ہماری ٹیم کے کئی نوجوان کھلاڑیوں سے زیادہ فٹ ہیں۔ وہ ابھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے۔ اور مجھے امید ہے کہ اپنی فٹنس برقرار رکھیں گے۔ سنچری اسکور کیے بغیر 5 ہزار ون ڈے رنز بنانے والے واحد کھلاڑی ہیں۔ شاہد آفریدی نے اپنے کیریئر میں 8 ہزار سے زیادہ رنز بنائے۔ ان کی بدقسمتی رہی کہ ورلڈ کپ میں 7 میچوں میں وہ صرف دو آؤٹ کر سکے۔ آفریدی فی میچ ایک وکٹ بھی لیتے تو ان کی وکٹوں کی تعداد 400 ہو جاتی۔ ان کے بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ جتنے بڑے اسٹار تھے اتنے بڑے کرکٹر نہیں تھے۔ آفریدی بھی ابھی ٹی 20 میں دکھائی دیں گے۔

ہمارا ورلڈ کپ ختم ہو چکا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کو موقع ملا ہے کہ وہ اب آزادانہ فیصلے کریں۔ اگر اب بھی کسی کے دباؤ میں فیصلے کیے تو پھر کرکٹ کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ نئی سلیکشن کمیٹی میں میرٹ پر فیصلے کرنے والے کرکٹرز کو شامل کرنا ہو گا۔ نئے ناموں میں بازید خان اور محمد وسیم اچھی چوائس ہو سکتے ہیں۔ پرانے کرکٹرز میں راشد لطیف‘ محسن خان اور عامر سہیل کے ناموں پر غور ہونا چاہیے۔ ایسے سلیکٹرز کو رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والوں کو جانتے تک نہ ہوں۔ آزمودہ کھلاڑیوں پر وقت ضایع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ وہاب ریاض کو کپتان اور سرفراز احمد کو نائب کپتان بنا دیاجائے؟ ہمارے لیے صرف ورلڈ کپ ختم ہوا ہے‘ کرکٹ ابھی باقی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔