نواب بانو ۔۔۔ نمی

الفا خان  اتوار 17 مئ 2015
ایک مستانی اداکارہ،جس نے ہالی ووڈ کی دولت اور شہرت پر مقامی اسکرین کو ترجیح دی ۔  فوٹو : فائل

ایک مستانی اداکارہ،جس نے ہالی ووڈ کی دولت اور شہرت پر مقامی اسکرین کو ترجیح دی ۔ فوٹو : فائل

نمی!برصغیر کی فلمی صنعت کے معماروں میں ایک اہم نام ہے۔ جن لوگوں نے اس اداکارہ کو سکرین پر دیکھا ہے، وہ یہ بات لامحالہ تسلیم کریں گے کہ نمی نے بہت مختلف قسم کے کردار ادا کیے  لیکن جو بات ان سب کرداروں میں مشترک لگتی ہے، وہ اس کا مستانہ پن ہے۔

وہ کردار کو اس بے ساختگی کے ساتھ ادا کرتی تھیں کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔  نمی نے فلموں میں محض ہیروئن ہی کے کردار ادا نہیں کیے بل کہ وہ ثانوی درجے کے کردار ادا کرکے بھی داد وصول کرتی رہیں اور ان کی فلموں کے ناظرین ہیروئن سے زیادہ سکرین پر ان کے نمودار ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔

اپنی پہلی ہی فلم برسات میں انہوں نے اپنی اہمیت واضح کر دی تھی۔ اس فلم میں نرگس جیسی بڑی اداکارہ ہیروئن تھیں اور نمی کو ایک معصوم کشمیری لڑکی کا کردار ملا تھا لیکن اس فلم کے جو ناظرین موجود ہیں انہیں یاد ہوگا کہ نمی فلم کے اختتام تک فلم کی ہیروئن اور کہانی پر چھائی رہیں بل کہ فلم بین کھیل کے المیہ اختتام پر نمی ہی کا تاثر لے کر سینما گھر سے نکلتا تھا۔ اسی طرح اپنے وقت کی بہت ہی کام یاب فلم ’’آن‘‘ میں ہر چند فلم کی ہیروئن نادرہ نے اعلیٰ اداکاری کی مثال قائم کی لیکن نمی نے اپنے چھوٹے سے کردار میں اپنی برتری واضح کردی۔

اس فلم کی تاریخ یہ ہے کہ جب اس فلم کا شو ڈسٹری بیوٹرز نے دیکھا تو انہوں نے شور مچا دیا اور فلم سے نمی کے جلد رخصت ہونے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، مطالبہ کیا کہ نمی کو اس میں زندہ کیا جائے۔ اس معقول مطالبے پر فلم کے معروف ہدایت کار محبوب خان نے فلم کی  نمائش عارضی طور پر رکوا دی اور اس میں ایک طویل دورانیے کا خواب شامل کر دیا جو صرف نمی پر فلمایا گیا تھا۔ یہ فلم جب اس طور دوبارہ نمائش کے لیے پیش کی گئی تو پورے برصغیر میں ایک طویل عرصے تک اس فلم کا ڈنکا بجتا رہا۔

نمی کا اصل نام نواب بانو ہے۔ ان کے والد عبدالحکیم انگریزی فوج کے ٹھیکے دار تھے۔ والدہ ان کی وحیدن تھیں، جو اپنے وقت کی ایک جانی پہچانی گلوکارہ تھیں اور فلموں میں کام بھی کر لیتی تھیں۔ نمی (نواب بانو) ان کے ہاں 18 فروری 1933 کو آگرہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد عبدالحکیم ایبٹ آباد (پاکستان) کے رہنے والے تھے۔ وحیدن بمبئی کی فلم انڈسٹری میں خاصا اثر و رسوخ رکھتی تھیں، خاص طور پر اس خاندان کے تعلقات ہدایت کار اعظم محبوب خان کے ساتھ بہت اچھے تھے۔ نمی اپنے انٹرویوز میں بعض اوقات اپنی بمبئی یاترا کا ذکر کرتی ہیں کہ کیسے ان کی پذیرائی ہوئی۔

نمی ابھی 9 ہی برس کی تھیں کہ ان کی والدہ وحیدن کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد ان کے والد عبدالحکیم نے انہیں ان کی دادی کے پاس ایبٹ آباد بھیج دیا تھا۔ ایبٹ آباد میں وہ قیام پاکستان (1947) تک رہیں۔ بعد میں عبدالحکیم اپنی والدہ اور بیٹی کو بمبئی لے گئے، جہاں ان کے بھائی یعنی نمی کے چچا مستقل رہائش کرتے تھے۔ نمی کی چچی جیوتی بھی کسی دور میں اداکارہ رہ چکی تھیں۔

نمی کی والدہ وحیدن 1930 کی دہائی میں محبوب خان کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ اسی تعلق کی بناء پر محبوب صاحب  نواب (نمی) کے ساتھ خصوصی شفقت کرتے تھے۔ 1948 میں جب وہ اپنی بے مثال تخلیق ’’انداز‘‘ پر کام کر رہے تھے تو انہوں نے نمی سے کہا کہ وہ سٹوڈیوز میں آ کر دیکھے کہ فلم سازی کیا ہے اور فلم کیسے بنتی ہے۔ جس پر انہوں نے سٹوڈیوز آنا جانا شروع کر دیا۔ وہ ذہین تھیں اور مشاہدے کی بہت اعلیٰ صلاحیت رکھتی تھیں۔ انداز پر کام ابھی جاری تھا کہ معروف اداکار راج کپور اپنی ذاتی فلم ’’برسات‘‘ کے لیے اداکار چُن رہے تھے۔

مرکزی کردار کے لیے وہ نرگس کا انتخاب کر چکے تھے۔ کہانی کی طلب کے مطابق انہیں ثانوی نسوانی کردار کے لیے ایک معصوم صورت شرمیلی سی نوخیز لڑکی کی تلاش تھی، نمی انداز کے سیٹ پر محبوب خان کی مہمان ہوا کرتی تھیں، جس کے باعث انہیں خصوصی تکریم دی جاتی تھی۔ اسی سیٹ پر راج کپور کی نظر ان پر پڑی تو انہیں لگا جیسے وہ جس لڑکی کی تلاش میں ہیں وہ بہت قریب بھی ہے اور ان کی دست رس میں بھی۔ انہوں نے محبوب خان سے بات کی تو انہوں نے نمی کو کام کرنے پر راضی کرکے راج کپور صاحب کو گرین سگنل دے دیا۔

برسات کا یہ کردار خاص مشکل تھا۔ خاص طور پر ایک ایسی لڑکی کے لیے جس کی اداکاری کے میدان میں پہلے سے کوئی تربیت نہیں تھی لیکن وہ جو کہا گیا کہ ان کے مشاہدے کی قوت بہت زبردست تھی، اسی صلاحیت کے بل پر انہوں نے کیمرے کی جھجک پر بہت جلد قابو پا لیا۔ ان کے مقابل پریم ناتھ جیسے منجھے ہوئے اداکار تھے لیکن نمی نے پہلی فلم ہی میں ایسی بے مثال اور فطری اداکاری کی کہ نقادوں کی اکثریت کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ فلم راج کپور، نرگس اور پریم ناتھ جیسے اداکاروں کے بہ جائے نمی کی اداکاری کے باعث باکس آفس پر ہٹ رہی۔ اس فلم نے مقبولیت کے منفرد ریکارڈ قائم کیے۔

اس فلم میں ان کا کردار بھیڑیں چرانے والی ایک پہاڑی لڑکی کا ہے، جسے ایک ایسی شہری سے محبت ہو جاتی ہے جسے نازک جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں سو وہ شہر واپس جا کر چرواہی کے ساتھ اپنے عہد و پیمان بھول جاتا ہے۔

کہانی کا اختتام نمی کی فلمی موت پر ہوتا ہے۔ 1949 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو تاریخ ساز قرار دیا جاتا ہے۔ شنکر جے کشن  نے اس فلم کے لیے لاجواب دھنیں ترتیب دیں ’’برسات میں ہم سے ملے تم سجن، ’’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے‘‘ اور ’’ہوا میں اڑتا جائے مورا لال دوپٹا ململ کا‘‘ آج بھی سنے جائیں تو سرشار کر دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ فلم کا گانا ’’پتلی کمر ہے، ترچھی نظر ہے‘‘ اپنے وقت میں جدید موسیقی کی بڑی خوب صورت مثال ہے۔ یہ تمام گانے نمی پر فلمائے گئے ہیں۔ اس فلم نے راتوں رات نمی کو فلم بینوں کے دل کی دھڑکن بنا دیا۔

برسات ہی سے نواب بانو کا نام نمی پڑا۔ برسات کیا کام یاب ہوئی کہ نمی پر پیش کشوں کی بارش ہوگئی۔ نمی کی بھنوؤں کی کشادہ محراب نے ان کی آنکھوں کو ازحد مخمور اور مدھ ماتی بنا رکھا تھا۔ ان آنکھوں نے انہیں اداکاری میں ایک خاص اسلوب عطا کر دیا تھا۔ یقین کے ساتھ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ اپنی ان آنکھوں کے اثر سے آگاہ تھیں یا نہیں کیوں کہ ناقدین نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ان آنکھوں کی وجہ سے اپنے فن کے اظہار میں منفرد رہیں۔

برسات کے بعد انہیں برصغیر کے چوٹی کے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں اشوک کمار کے ساتھ بھائی بھائی راج کپور کے ساتھ انہوں نے باورا، دیوآنند کے ساتھ سزا اور آندھیاں، دلیپ کمار کے ساتھ دیدار (1951)، داغ (1952) اور آن (1952) میں کام کیا۔ خواتین میں نرگس کے علاوہ امر میں مدھوبالا، ’’شمع‘‘ میں ثریا، اوشا کرن ،گیتا بالی اور چار دل، چار راہیں(1959) میں مینا کماری کے ساتھ کام کیا اور ان تمام بڑے اداکاروں سے اپنی برتر صلاحیت تسلیم کرائی۔ ایک بات جو بہت کم لوگ جانتے ہیں  کہ نمی بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں تاہم انہوں نے اپنی اس صلاحیت کو فلم ’’بیدردی‘‘ (1951) کے ایک گانے کے سوا کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فلم ’’بیدردی‘‘ میں ان کا گایا ہوا گانا ان ہی پر فلمایا گیا ہے۔

’’آن‘‘ بھارت کی پہلی ٹیکنی کلر فلم تھی اور بہت بھاری بجٹ سے بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ بھارت کی پہلی فلم تھی جو دنیا بھر میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم کا انگریزی ورژن Savage princess کے نام سے بنایا گیا تھا۔ لندن میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو نمی بھی لندن گئیں۔ وہاں ان کی ملاقاتیں متعدد شہرۂ آفاق فلمی شخصیات سے ہوئیں، جن میں ایرل فلن Errol Flynn بھی شامل تھے۔ ایک موقع پر جب ایرل نے نمی کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کے ہاتھ پر احترامی بوسہ دینا چاہا تو نمی نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا اور ایرل کو جھاڑ دیا۔

“I am an indian girl, you can not do that.”

ان کا یہ جملہ اگلے روز میڈیا میں شہ سرخی کے ساتھ نمودار ہوا اور نمی کو Unkissed girl of india قرار دیا گیا۔ ان کی ہیروئن ہر چند نادرہ تھیں لیکن ’’منگلا‘‘ کے ثانوی رول میں فلم بین طبقہ نمی ہی سے متاثر ہوا بل کہ جب یہ فلم فرانسیسی زبان میں ڈب ہوئی تو ان کے اسی کردار کے گہرے تاثر کے باعث فلم کا نام تبدیل کرکے Mangala fille des india یعنی ’’منگلا۔ ہندوستان کی ایک لڑکی‘‘ رکھنا پڑا اور فلم کے تشہیری پوسٹر اور ٹریلرز بھی نئے سرے سے بنانے پڑے، جن میں نادرہ کے بہ جائے نمی کو زیادہ  نمایاں کیاگیا تھا۔

لندن میں فلم دیکھنے کے بعد ہالی ووڈ کے بہت بڑے ہدایت کار سیسل بی ڈیمل سمیت بڑے بڑے ہدایت کاروں اور نقادوں نے نمی ہی کو سراہا، صرف یہ ہی نہیں انہیں ہالی ووڈ کی متعدد فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پیش کشیں ہوئیں لیکن نمی نے اپنے ہندوستانی فلم بین کو زیادہ ترجیح دی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی فلموں میں بوسہ بازی سے انہیں سخت نفرت ہے۔ آن کی زبردست کام یابی کے بعد محبوب خان صاحب نے انہیں فلم امر میں موقع دیا۔ اس میں دلیپ کمار ہیرو تھے اور مدھوبالا ہیروئن تھیں۔ یہ ایک نوخیز گوالن کا کردار ہے، ہیرو (دلیپ کمار) ایک موقع پر اس کی بے حرمتی کر ڈالتا ہے۔ ہیروئن (مدھوبالا) اس کی منگیتر ہے۔

اس میں بے حرمتی (Rape) کا منظر خاصا متنازع بنا رہا۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم ابھی اپنے عہد سے بہت آگے نکل گئی ہے، بھارتی فلم میں ابھی ایسے سین فلمانے کا وقت نہیں آیا۔ یہ فلم ہرچند کمرشل لیول پر ناکام رہی لیکن سنجیدہ ناقدین نے اسے زبردست اور اپنے وقت کا منفرد موضوع قرار دیا اور نمی کی اداکاری پر تبصرے ایک عرصے تک ذرائع ابلاغ میں ہوتے رہے۔ اس فلم میں بھی وہ اپنی بے ساختہ اداکاری کے باعث ناہیدِ مشرق مدھو بالا پر بھاری رہیں۔ محبوب خان صاحب سے ان کی زندگی کے آخری دنوں میں جب پوچھا گیا کہ انہیں اپنی کون سی فلم سب سے زیادہ پسند ہے تو وہ برملا بولے ’’امر‘‘۔

نمی نے 1954 میں ’’ڈنکا‘‘ کے نام سے ایک فلم پروڈیوس بھی کی، یہ فلم بہت کام یاب رہی اور اس میں بھی ان کی پرفارمنس اعلیٰ قرار پائی۔ 1955 میں سہراب مووی نے ’’کندن‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی جو شہرۂ آفاق ناول La Miserable پر مبنی تھی۔ اس میں سہراب مووی نے ایک نئے اداکار سنیل دت کو متعارف کرایا۔ اس میں نمی نے دوہرا کردار ادا کیا، یعنی ماں اور بیٹی۔ یہاں بھی نمی نے اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔

1955 میں اڑن کھٹولا، محبوب خان کی ایک اور پروڈکشن تھی، جس نے باکس آفس پر وہ کام یابی حاصل کی جس کی اس وقت تک مثال نہیں ملتی۔ اس فلم میں نمی نے اپنے کردار کی باریکیاں جس طرح نباہیں، بہت کم اداکاراؤں کو یہ صلاحیت نصیب ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی موسیقار اعظم نوشاد علی خان صاحب نے دی۔ ان کے یہ گانے اپنی تاثیر میں آج بھی اپنے روز اول جیسے ہیں۔ اس کے بعد 1956 میں ان کی ’’بسنت پیار‘‘ اور ’’بھائی بھائی‘‘ نمائش ہوئیں۔

1957 میں جب ان کی عمر محض 24 سال تھی، انہیں بھائی بھائی میں ان کی کردار نگاری کے لیے Critic Award پیش کیا گیا۔ نمی ایسی فن کارہ تھیں کہ ہدایت کاروں کو فلموں کے بہترین گانے ان پر پکچرائز کرنا مرغوب رہتا تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ پروڈیوسروں کے لیے چلتا پھرتا چیک ہیں۔

بعد کے برسوں میں نمی بہت Selctive ہو گئیں۔ ان کے بعض فیصلے تو درست رہے تاہم بعض فیصلوں نے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ مثلاً 1963 میں ’’میرے محبوب‘‘ ہدایت کار اور رائٹر ہرمن سنگھ رویل نے بہت بڑے بجٹ کے ساتھ بنانے کا پروگرام بنایا۔ اس فلم کی کاسٹ سے اس کے منہگا ہونے کا اظہار ہوتا ہے، جس میں اشوک کمار، راجندر کمار وغیرہ جیسے اپنے وقت کے بھاری بھر کم نام شامل تھے۔

اس میں نمی کو مرکزی کردار کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے لیے ثانوی کردار طلب کیا۔ ان کے خیال میں اس کردار میں وہ زیادہ اچھی پرفارمنس دے پائیں گی۔ یہ مرکزی کردار بعد میں نسبتاً نئی اداکارہ سادھنا کو دیا گیا اور جس کردار کے لیے سادھنا تجویز کی گئی تھیں، وہ نمی نے کیا۔ ان کے خیال کے برعکس ان کا کردار وہ تاثر نہ پیدا کر سکا جس کے لیے نمی فلم بینوں کے دنوں پر راج کر رہی تھیں۔ ہر چند کے انہیں فلم فیئر کا ایوارڈ بہترین معاون اداکارہ کا ایوراڈ ملا لیکن اس کے بعد 1960 کی دہائی سادھنا ، نندا، آشا پاریکھ، مالا سنہا اور سائرہ بانو کے نام رہی۔ ان اداکاراؤں نے برصغیر کی ہندی فلموں کی ہیروئن کے تصور  کو تبدیل کر دیا۔ یہ فلم میں بے باک ہیروئنوں کا دور کا آغاز تھا۔

اس میں شک نہیں کہ نمی کا دور گزر رہا تھا لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی اداکاری میں گہرائی اور گیرائی کا عمل جاری رہا۔ انہوں نے 1964 میں پوجا کے پھول میں اندھی لڑکی اور آکاش دیپ میں اشوک کمار کی گونگی بیوی کے کردار کو حیرت انگیز حد تک حقیقت کے قریب تر کردیا تھا وہ ایک ذہین خاتون تھیں، وقار کے ساتھ آئی تھیں لہٰذا وقار کے ساتھ وقت سے بہت پہلے فلم لائین چھوڑ گئیں۔ ان کی آخری فلم اگر بن جاتی تو لیلیٰ مجنوں ہوتی، جس کو کے آصف بنانا چاہتے تھے۔ فلمی زبان میں یہ فلم غالباً 4 آنے بن بھی چکی تھی لیکن کے آصف صاحب مرحوم کے منصوبے برسوں پر پھیلے ہوتے تھے لہٰذا یہ منصوبہ بھی، جو ظاہر ہے ان کے روایت کے مطابق بہت بڑے بجٹ پر مبنی تھا، ان کے انتقال پر نامکمل ہی رہ گیا۔

دلیپ کمار کے ساتھ ان کی خاصی قربت رہی اور انڈسٹری میں یہ افواہیں خاصے عرصے گرم رہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے جیون ساتھی بن جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اپنے ایک انٹرویو میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’’ ۔۔۔ دلیپ صاحب، مدھو بالا کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے‘‘۔ بعد میں نمی کا سید علی رضا کے ساتھ رومانس چلا اوروہ دونوں نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔ دلیپ اور نمی دونوں نے اپنے بارے میں پھیلی گرما گرم خبروں کی ہمیشہ سختی سے تردید کی ہے۔ واضح رہے کہ علی رضا مرحوم نے برسات آن اور امر کے مکالمے تخلیق کیے تھے۔ اس جوڑے کے ہاں کوئی بچہ  پیدا نہ ہوا۔ نمی آج بیاسی سال کی عمر میں جوہو کے ساحل پر واقع اپنے فلیٹ میں رہتی ہیں اور اس عمر میں بھی زندگی سے بھرپور بے ساختہ قہقہہ لگانے پر قادرہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔