خاص آدمی

ندیم جاوید عثمانی  بدھ 3 جون 2015
اب تو ایک عادت سی ہوگئی تھی کہ کسی خاص آدمی کے گزرنے پر کیسے ایک عام آدمی کی راہیں بند کردی جاتی ہیں ۔ فوٹو:فائل

اب تو ایک عادت سی ہوگئی تھی کہ کسی خاص آدمی کے گزرنے پر کیسے ایک عام آدمی کی راہیں بند کردی جاتی ہیں ۔ فوٹو:فائل

میں نجانے کتنی دیر سے اس سڑک پر اپنی رُکی ہوئی ٹیکسی کے ہمراہ کھڑا تھا۔ چاروں طرف لگی ہوئی پولیس کی نفری دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کوئی وی آئی پی موومنٹ چل رہی ہے۔ گذشتہ 8 سالوں سے ٹیکسی چلانے کے پیشے کے باعث نجانے ایسی کتنی وی آئی پی موومنٹس دیکھ چکا تھا بلکہ اب تو ایک عادت سی ہوگئی تھی کہ کسی خاص آدمی کے گزرنے پر کیسے ایک عام آدمی کی راہیں بند کردی جاتی ہیں۔

میں نے اُکتا کر ارد گرد نظریں گھمانا شروع کردیں اور میں ہی نہیں سڑک پر اپنی اپنی گاڑیاں روکے کھڑا ہر شخص اسی اُکتاہٹ کا شکار نظر آیا اور میں سوچنے لگا کہ پتہ نہیں کون بیچارہ کتنی جلدی میں ہوگا، کسی کو کہیں کسی ضروری کام سے پہنچنا ہوگا مگر اب سب کھڑے رہیں گے جب تک صاحب بہادر نہ گزر جائیں ۔۔۔ لفظ صاحب بہادر ذہن میں آتے ہی مجھے اپنے اس خیال پر لعنت بھیجنا پڑی کہ کس بات کا صاحب بہادر جسے اپنی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے درجنوں گاڑیاں آگے اور درجنوں گاڑیاں پیچھے جبکہ ساتھ ساتھ سیکورٹی گارڈز کی ایک فوج ہمراہ لے کر چلنا پڑے، کس بات کا بہادر۔ چلنے پھرنے اُٹھنے بیٹھنے یہاں تک کے اپنے گھر کے اندر بھی حفاظتی گارڈز کا محتاج۔

حقیقی بہادر تو ہم ہیں جو اپنے حالات اور مشکلات کے ہمراہ چل رہے ہیں، زندگی سے لڑرہے ہیں اوراس لڑائی میں اپنا محافظ ماسوائے اپنے کوئی اور ہے بھی نہیں مگر ہم پر لگی ایک عام آدمی کی مہر ہمیشہ اس بہادری کے آڑے آجاتی ہے۔ ابھی نجانے میں اور کتنی دیر اپنی انہیں سوچوں میں ڈوبا رہتا کہ پولیس موبائلز کے سائرنوں کی آواز گونجنے لگی جو اس بات کی علامت تھی کہ بس اب کچھ دیر میں ہی خاص آدمی کی سواری گزرنے والی ہے اور اُس کے گزرجانے کے کچھ دیر بعد ہی ایک عام آدمی کو بھی آگے بڑھنے کی اجازت مل جائے گی ۔ حالانکہ اس شخص کے خاص بننے میں انہی عام افراد کا ایک بڑا ہاتھ ہوتا ہے مگر وزارتوں کی کرسیوں پر بیٹھنے والے الیکشن سے قبل خود کو انسانی ہمدردی رکھنے کا فرشتہ کہنے والوں میں منتخب ہوتے ہی نجانے کونسا شیطان ان کے جسموں میں گھس جاتا ہے کہ انسانی ہمدردی انسانی دوری میں بدل جاتی ہے!

اللہ اللہ کرکے یہ قافلہ گزرا اور اُس کے کچھ دیر بعد ہی کتنی دیر سے مرُدہ سڑک پر جیسے زندگی دوڑگئی۔ اب ہر شخص ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جلدی میں تھا اور یہ جلد بازی ظاہر کرتی تھی ابھی جو وقت یہاں برباد ہوا یہ اس جلدبازی سے اُس کا ازالہ چاہتے ہیں اور میں بھی اسی جلد بازی کے ہمراہ عام انسانوں کی اس بھیڑ میں آگے بڑھنے کی جدوجہد میں لگ گیا اور مجھے تو آج ویسے ہی جلدی تھی کہ آج میرے بڑے بیٹے کا انجینیرنگ کے آخری سال کا رزلٹ آیا تھا جس میں اُس نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ دوپہر میں جب اُس نے مجھے فون کرکے بتایا تھا تو اپنی کامیابی پر اُس کی آواز میں جو جوش اور خوشی تھی اُس سے کہیں زیادہ خوشی میں، میں مبتلا ہوگیا تھا۔

مٹھائی کے ہمراہ میں گھر پر پہنچا تو میری بیوی اور دونوں بیٹیوں کے چہروں پر بھی یہی خوشی نظر آرہی تھی۔ کچن سے اُٹھتی ہوئی بریانی کی خوشبو یہ بتارہی تھی کہ بیٹے کی کامیابی پر آج بیوی نے کھانے کا کچھ الگ ہی اہتمام کررکھا ہے۔ میری نظریں اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی تھیں کہ اُس کو گلے لگا کر اُس کا مُنہ میٹھا کراوں اور مبارکباد دے سکوں۔ پوچھنے پر بیوی نے بتایا کہ اُس کے کچھ دوست آگئے تھے ابھی آجائے گا۔ میں مُنہ ہاتھ دھوکر چائے پینے بیٹھ گیا۔ میری نظریں بار بار کبھی دیوار کی گھڑی پر جاتیں تو کبھی کلائی پر بندھی گھڑی پر میری بیوی نے میری پریشانی بھانپ کر کہا پتہ نہیں آج دوستوں میں اُسے کتنا وقت لگ جائے آپ کو بھوک لگ رہی ہو تو کھانا نکلوادوں؟ سبین نے فون کیا تھا اُس کے موبائل پر تو معلوم چلا ہے کہ وہ دوستوں کے ہمراہ کہیں بیٹھ گیا ہے آج شاید دوست بھی اُس کی کامیابی پر اُس کی جیب ہلکی کرارہے ہونگے ۔۔۔ نہیں جہاں اتنی دیر ہوئی ہے کچھ دیر اور صحیح اُس کی واپسی کا انتظار کرلیتے ہیں۔

ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز گونجی۔ میری بیوی یااللہ خیر کہتی ہوئی جلدی سے دروازے کی جانب بھاگی اُس کے پیچھے پیچھے میں بھی بھاگا کہ گلی میں نکل کر دیکھوں کیا ماجرا ہے۔ باہر دیکھا تو گلی لوگوں سے بھری ہوئی تھی، دھماکے کی آواز سُن کر سبھی صورتحال کا جائزہ لینے اپنے اپنے گھروں سے باہر آگئے تھے اور اب سب ایک دوسرے سے اس دھماکے کی آواز کی بابت پوچھنے میں مصروف تھے۔ اب مجھے اپنے بیٹے کامران کی زیادہ فکر ہونے لگی میں نے فوراَ اپنے موبائل سے اُس کا نمبر ڈائل کیا۔ مگر اُس کا موبائل بند آرہا تھا۔ میری بیوی نے تسلی دی کہ بچیاں بڑی دیر سے اُسے فون کرکر کے جلدی واپسی کے لئے تنگ کررہی تھیں تو اُس نے بھی تنگ آکر موبائل بند کردیا ہوگا۔

مگر مجھے تسلی نہیں ہوئی بھلے میری بیوی مجھے تسلی دے رہی تھی مگر اُس کے چہرے پر بکھری پریشانی سے اندازہ تھا کہ اندر سے وہ بھی اس وقت کس قدر پریشان ہے۔ میں جلدی سے اپنی ٹیکسی لے کر روڈ پر آگیا کہ گھر کے قریبی پارکوں یا ہوٹلوں پر دیکھوں ہوسکتا ہے اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں بیٹھا مل جائے۔ مین روڈ پر آیا تو وہاں ایمبولینسں تیزی سے بھاگتی پھررہی تھیں۔ گھر کے ارد گرد کے تمام پارکوں اور ہوٹلوں میں جاکر میں دیکھ چکا تھا اب نجانے کیوں میرا دل بیٹھے جارہا تھا۔ روڈ پر آنے کے بعد مجھے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ گھر سے کافی فاصلے پر دھماکہ کسی ہوٹل میں ہی ہوا تھا۔ کامران کو ڈھونڈ دھونڈ کر تھک ہار کر میں اس خیال کے ہمراہ واپس گھر کی راہ لی کہ ایسے کب تک اور کہاں ڈھونڈوں گا۔ واپس گھر چلتا ہوں ہوسکتا ہے اب تک وہ آچکا ہو۔ مگر میرا خیال فقط خیال ہی ثابت ہوا وہ ابتک گھر نہیں پہنچا تھا اور موبائل بھی ابھی تک بند آرہا تھا۔ کچھ دیر قبل تک بیوی کی جو پریشانی اُس کے چہرے پر دکھائی دے رہی تھی وہ اب اُس کی آواز میں بھی اُتر آئی تھی اور اُس کے خاموش تیزی سے ہلتے ہونٹ بتا رہے تھے کہ وہ کن کن دعاؤں کے ہمراہ اپنے بیٹے کی سلامتی سے واپسی کی دعا مانگ رہی تھی۔

رات گیارہ بجے تک ہم دونوں کے صبر کا پیمانہ چھلک چکا تھا اور دونوں بیٹیاں بھی رو رہی تھیں، تھک ہار کر اپنی ہی ٹیکسی میں بیوی کے ہمراہ ایک بار پھر کامران کو ڈھونڈنے کے لئے نکل آیا مگر اب ہم دونوں کا رُخ شہر کے ہسپتالوں کی جانب تھا۔ ابھی ہم سول ہسپتال کو چھان کر باہر ہی نکل آئے کہ میرے موبائل پر بڑی بیٹی کا فون آیا کہ بابا آپ کہاں ہیں؟ میرے بتانے پر وہ بولی آپ جلدی سے جناح ہسپتال چلے جائیں بھائی وہیں ہیں۔ میرے پوچھنے پر کہ اُسے کیسے پتہ چلا تو اُس نے بتایا کہ اُس کے موبائل پر کسی کی کال آئی تھی کہ جس ہوٹل میں دھماکہ ہوا بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ وہیں بیٹھے تھے اور اب وہ جناح ہسپتال میں ہیں۔ یہ خبر سُنتے ہی میرا دل اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا مانگنے لگا اور میں نے ٹیکسی کا رُخ جناح ہسپتال کی طرف موڑ دیا۔

ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ پرایک عجیب سی افراتفری کا سماع تھا۔ گیٹ پر کھڑے گارڈ نے ہمیں گیٹ پر ہی یہ کہہ کر روک دیا کہ ’عام آدمی‘ کا اندر جانا منع ہے۔ میں اُس پر برس پڑا کہ میرا بیٹا اندر ایمرجنسی میں آیا ہے یہ سُنتے ہی اُس نے مجھے یوں دروازہ کھول کر اندر جانے کا راستہ دیا جیسے میں عام آدمی سے ایک دم کوئی خاص آدمی بن گیا ہوں!

دو گھنٹے بعد ہی میں اور میری بیوی ایمبولینس میں کامران کو لیے اپنے گھر کی جانب جارہے تھے اور ٹیکسی مجھے وہیں ہسپتال میں کھڑی کرنا پڑ گئی تھی اور میری بیوی بیٹا ملنے پر کبھی اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی تو کبھی اُس کی پیشانی کو والہانہ انداز میں چومنے لگتی تھی!

کامران ہمیں کچھ بتا ہی نہیں سکا کہ ہوٹل پر ہوا کیا تھا وہ تو دوسرے دن اخبار کی خبروں سے پتہ چلا کہ بم ایک بائیک میں نصب تھا۔ اخبار میں اس دھماکے میں مرنے والوں کی تصاویر بھی تھیں جن میں کامران کی تصویر کو خصوصی جگہ دی گئی تھی۔ اُس خبر کے ساتھ کہ کل ہی اس نوجوان نے اپنے انجیئنرنگ کے امتحان نمایاں کامیابی حاصل کی تھی!

دوسرے روز جب میں تھکے تھکے قدموں کے ہمراہ کامران کے سوئم کا سامان لا رہا تھا تو اپنے گھر کے اطراف ایک عجیب سی گہماگہمی دیکھی، نجانے کتنے بھنگی بھنگنیں روڈ چمکانے میں مصروف تھے میں اُن کو نظر انداز کرتا ہوا گھر آگیا۔ سوئم ختم ہوچکا تھا، گھرکی خاموشی سے لگ رہا تھا کہ کامران کے ساتھ ہی اس گھر کے باقی مکین بھی مر چکے ہیں!

عصر کا وقت تھا جب کہیں دور سے بہت سی پولیس موبائلوں کے سائرنوں کی آوازیں آنے لگیں جو آہستہ آہستہ قریب ہوتی جارہیں تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ خیر کرے کہ اس عام محلے میں کون صاحب بہادر آگئے مگر مجھے زیادہ دیر سوچنا نہیں پڑا تھوڑی دیر بعد ہی میرا گھر کا دروازہ پیٹا جانے لگا باہر نکلا تو ایک صوبائی وزیر نجانے کتنے صحافیوں کے ہمراہ دروازہ کھلتے ہی اندر گھس آئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کامران کی موت پر رسمی جملے اور ہم اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرکے اور ہمارے ساتھ تصویریں بنواکر چلتے بنے۔ جانے سے قبل وزیر صاحب نے خصوصی طور پر کیمرے کی جانب اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے خاکی لفافے کو میرے ہاتھوں میں دے کر مختلف انداز سے تصویریں بنوائیں۔

میں اُن سب کے جانے پر اُن کے ہمراہ باہر گلی میں نکلا تو ہرشخص اپنے دروازے پر کھڑا ہمارے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا، تبھی محلے کے رمضان چاچا نے آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ پُتر آج تو تو محلے کا خاص آدمی ہوگیا، کتنے بڑے بڑے لوگ تیرے گھر پر آگئے۔ میں نے اپنے کاندھے سے اُن کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔ ہاں چاچا بہت خاص مگر اللہ پاک ہم جیسے تمام غریبوں کو ایسا خاص آدمی ہونے سے محفوظ رکھے!

دوسرے دن وہ لفافہ جو وزیر صاحب دے گئے تھے اور جسے اُن کے جانے کے بعد ہم نے کھول کر دیکھا تھا اُس میں ایک لاکھ روپے کے کرارے نوٹ تھے جس میں سے ہر ایک نوٹ ہمارے احساس کی خستگی کے راز کھکھول رہا تھا اب وہی لفافہ میں اپنے ہاتھ میں دبائے علاقے کی ایک زیرِ تعمیر مسجد کی جانب جارہا تھا اور جب وہ رقم مسجد کی تعمیر کے لیے رکھے گئے چندے کے ڈبے میں ڈال کر گھر کی جانب واپس جا رہا تھا تو ایک عجیب سا اطمینان میرے سارے وجود میں پھیلتا جارہا تھا اور مجھے لگا کہ اب میں واقعی ایک عام آدمی سے خاص آدمی بن گیا ہوں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔