حیات ِ جاوید ، ایک ورق

اصغر عبداللہ  منگل 17 نومبر 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

یہ دو سال پہلے اکتوبر کا کوئی دن تھا۔ میں ، ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی گلبرگ کی عالی شان رہایش گاہ کے بیرونی دارالمطالعہ میں بیٹھا تھا اور منتظر تھا کہ کب وہ تشریف لائیں اور ریکارڈنگ شروع کی جائے۔ ان کا یہ انٹرویو، یوم پیدایش اقبال کے پس منظر میں بنائی جانے والی ایکسپریس ڈاکیومنٹری ’ لب پہ آتی ہے دعا ‘ کے لیے ریکارڈ کیا جا رہا تھا ۔ کمیرہ مین عزیزم ندیم بھٹی اور انجم شہزاد لائٹس اورکیمرے لگا کے فریم سیٹ کرچکے تھے۔

دارالمطالعہ کی دیوار پر علامہ اقبال اور قائداعظم کی تصویریں آویزاں تھیں، مگر خاص بات یہ تھی کہ ان تصویروں کو اس طرح آویزاں کیا گیا تھا کہ قائداعظم کی تصویر، علامہ اقبال کی تصویر سے کچھ اوپر تھی ۔گویا یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ ’صاحب مکان‘ حفظ مراتب  سے آگاہ ہے۔

بہت سال پہلے یہ 6مئی 1936ء کی شام ہے۔  قائداعظم ، علامہ اقبال سے ملنے ان کے گھر’ جاوید منزل ‘ تشریف لا رہے ہیں ۔جاوید اقبال کی عمر اس وقت بمشکل 12، 13 برس ہے ۔ قائداعظم کی آمد سے پہلے علامہ اقبال ، جاوید اقبال کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ برخوردار، آج ایک خاص مہمان آ رہے ہیں۔ جب وہ آ کے بیٹھ جائیں تو تم نے بھی آکے ان کے پاس بیٹھنا ہے ، اور بہ صد ادب ان سے آٹو گراف کی صورت میں نصیحت کی درخواست کرنا ہے۔ چنانچہ جیسے ہی قائداعظم ’جاوید منزل‘ پہنچتے ہیں ، جاوید اقبال بھی حسب ہدایت کمرے میں آ جاتے ہیں۔

وہ دیکھتے ہیں، ان کے والد کے پاس ایک طویل قامت مگر دبلے پتلے اور خوش پوش شخص بیٹھے ہیں ۔ جاوید اقبال سلام کرنے کے بعد آٹو گراف کے لیے کاپی اور پن ان کی طرف بڑھادیتے ہیں ۔ قائداعظم پوچھتے ہیں،کیا تم بھی شعر کہتے ہو۔ جاوید اقبال جواب دیتے ہیں ،جی نہیں۔ قائداعظم کہتے ہیں، پھر تم بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ جاوید اقبال اب کی بار کچھ نہیں کہتے اور خاموش رہتے ہیں ۔ قائداعظم مسکراتے ہیں اور علامہ اقبال سے کہتے ہیں، یہ کوئی جواب کیوں نہیں دیتا۔

علامہ اقبال کہتے ہیں، وہ کوئی جواب نہیں دے گا ، کیوں کہ وہ اس دن کا منتظر ہے، جب آپ اسے بتائیں گے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔‘ اس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ ،جو آج علامہ اقبال اور قائداعظم کے حضور چپ چاپ بیٹھا ہے،کسی روز ان دونوں نادرہ ء روزگار شخصیات کے افکارونظریات کا انتہائی معتبر شارح اور ترجمان بنے گا ، اور تاریخ و نظریہ پاکستان کا کوئی طالب علم ان کی تشریحات کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ دارالمطالعہ کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کی عمر اس وقت لگ بھگ 88 برس تھی ، لیکن اس کے باوجود ان کے مزاج میں جھنجلاہٹ نام کو نہ تھی۔ مجھے یاد ہے، ابھی ان کا انٹرویو شروع ہوا تھا کہ بغیر شیڈول کے بجلی گئی، لیکن بجائے اس کے کہ وہ جھنجلا اٹھتے، ان کے چہرے پر شفقت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی، کہنے لگے ، لو بھائی، آپ کی محنت تو رائیگاں چلی گئی، اب کیا کریں ، کل پر رکھ لیں یا انتظار کر لیں، میں انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ، ندیم بھٹی نے تجویز پیش کی کہ آج موسم خوش گوار ہے اور روشنی بھی اچھی ہے، کیوں نہ باہر لان میں ریکارڈنگ کر لی جائے اور سامان سمیٹ کر لان کے پچھلے حصے کی طرف چلے گئے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے یہ میری کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی۔ حالات حاضرہ اور حالات گزشتہ پر ان کے کئی انٹرویو کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ ،جب کبھی خطبات اقبال کو سمجھنے میں کہیں دشواری پیش آئی، تو ہمیشہ انھی کی زبانی اور تحریری تشریحات کی طرف رجوع کیا ۔ خطبات اقبال میں میری دل چسپی سے وہ واقف تھے۔

پوچھنے لگے، آپ کے مطالعہ ء خطبات اقبال کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا ، سر ، جاری ہے اورآپ کی ہدایت کے بموجب آج کل ان شخصیات کو پڑھ رہا ہوں ، جن کے فلسفیانہ افکار کا خطبات اقبال میںتذکرہ ہے۔ بڑے خوش ہوئے اورکہنے لگے، ’ لوگ علامہ اقبال کا شعری کلام پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ بھئی، اگر آپ نے علامہ اقبال کو صرف پڑھنا نہیں ، سمجھنا بھی ہے تو ان کے ’خطبات‘ اور ’مکتوبات‘ پڑھو۔ ’خطبات اقبال‘  اور ’مکتوبات اقبال‘  پڑھے بغیر افکار اقبال کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن بھی ہے۔ میں نے اپنے طور پر اس کے لیے جو کوشش کی جا سکتی تھی، کی ہے۔ 1984ء میں ’خطبات اقبال‘ کی تفہیم کے لیے پی ٹی وی پر لیکچر دیے، جو اب کتابی صورت میں بھی موجود ہیں۔ پھر ان 7 خطبات کی خطبہ وار تشریح کی ۔ یہ تشریحات بھی کتابی صورت میں شایع ہو چکی ہیں۔‘‘

’خطبات اقبال‘ پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب پر سرشاری  طاری ہوجاتی تھی۔ اس بات کا مگر ان کو بے حد قلق تھا کہ عالم عرب نے، جس سے علامہ اقبال کو آنحضورؐ کی نسبت کے باعث بہت انس تھا ، خطبات اقبال کو سمجھا ہے نہ سمجھنے کی کوشش ہے ۔ کہنے لگے، ’ جن دنوں ، میں پی ٹی وی پر خطبات اقبال پر لیکچر دے رہا تھا ، مجھے عالم عرب میں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔

مجھے بڑا افسوس ہوا کہ میری موجودگی میں کسی عالم نے یہ قرارداد پیش کی کہ  علامہ اقبال کی تصنیف the reconstruction of religious thoughts  پر پابندی عائد کی جائے ۔ اس کی رپورٹ پاکستان کے کسی اخبار میں بھی شایع ہو گئی ۔ جنرل ضیاالحق کی نظر سے یہ رپورٹ گزری تو انھوں نے ا س کاتراشہ مجھے بھجوایا اور پوچھا کہ عالم عرب کو اقبال سے روشناس کرانے کے لیے کیا تدبیر کی جائے۔ میں نے احباب سے صلاح مشورہ کرکے چند تجاویز بھجوا دیں۔ انھوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ میری تجاویز سے استفادہ کریں گے لیکن پھر وہ بھول بھال گئے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب ’خطبات اقبال‘ میں محو تھے کہ ندیم بھٹی نے آ کے اطلاع دی کہ پیچھے لان میں سیٹ لگ چکا ہے اور ریکارڈنگ شروع کی جا سکتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس روز سفید شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ ندیم بھٹی نے کہا کہ سر، اس کے اوپر اگر کلر ویسٹ کوٹ بھی پہن لیں تو ریکارڈنگ کے نقطہ ء نظر سے اچھا رہے گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ، اچھا بھی، وہ بھی پہن لیتے ہیں۔ وہ گھر کے اندر گئے اور تھوڑی دیر بعد جب سیٹ پر پہنچے تو انھوں نے کلرویسٹ کوٹ  پہن رکھی تھی ۔

یہ ڈاکیومنٹری ، علامہ اقبال کے زمانہ ٗ سیالکوٹ کے گرد گھومتی تھی اورجب میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ اس کے لیے ہم سیالکوٹ بھی گئے ہیں ، جہاں ان کے آبائی گھر کے علاوہ محلہ چوڑی گراں کے گلی کوچوں اور مشن اسکاچ اسکول کے کلاس روموں کو بھی فلم بند کرکے آئے ہیں، تو کہنے لگے ، یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا ، لیکن وہاں آپ کو خالد نظیر صوفی صاحب سے بھی ملنا چاہیے تھا ، انھوں نے علامہ اقبال کی ذاتی زندگی پر بہت کام کیا ہے۔

میں نے کہا ، سر، ان کا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا ہے، بلکہ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد صاحب کی قبر پر بھی حاضری دی ہے۔ کہنے لگے، ’ پھر آپ کی ڈاکیومنٹری زبردست ہوگی۔ میں نے بھی اپنے دادا شیخ نور محمد کو دیکھا ہے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا ، اور وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی بینائی کمزور ہو چکی تھیں اور ٹھیک طرح سے دیکھ نہیں پاتے تھے ۔ اس زمانے میں آنکھوں کے آپریشن کی وہ ٹیکنالوجی نہیں تھی ، جو آج ہے۔ میں جب کبھی ان کے کمرے میں جاتا تھا تو ماتھے پر اپنی آنکھوں کے اوپر دونوں ہاتھوں کا سایہ کر کے میری طرف دیکھتے اورکہتے، ’تم آفتاب ہو یا جاوید ہو۔ ان کے پاس برفی ہوتی تھی۔

یہ برفی بڑے مزے کی ہوتی تھی۔ سیالکوٹ کی برفی آج بھی بہت مشہور ہے۔ وہ اپنی اس  برفی میں سے مجھے بھی تھوڑی سی برفی دیتے تھے۔ ‘ یہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر کسی معصوم بچے کی سی بے داغ مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔ انٹرویو مکمل ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب کرسی سے اٹھے۔ پہلی بار میں اٹھا نہیں گیا۔ لیکن ان کے چہرے پر بشاشت برقرار تھی۔ میں سہارا دینے کے لیے آگے بڑھا۔ وہ مسکرائے اور کہا، برخوردار،  بڑھاپا جو ہوا ،کبھی کبھی اس طرح ہو جاتا ہے۔ یہ آخری انٹرویو تھا، جو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کیا۔

ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے علامہ اقبال کی جو لافانی سوانح عمری لکھی ہے، اس کو’ زندہ رود‘ کا نام دیا ہے۔  یہ وہ نام ہے، جو علامہ اقبال نے اپنے فارسی شعری مجموعہ ’جاوید نامہ ‘ میں اپنے لیے منتخب کیا ہے، اس کا مطلب ہے، مسلسل بہتی ہوئی حیات آفرین ندی۔ خطبات اقبال کی روشنی میں فکر اقبال  پرکلام کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب بھی کسی مسلسل بہتی ہوئی حیات آفرین ندی کی طرح ہو جاتے تھے اور خود ان پر بھی ’زندہ رود‘ ہونے کا گمان گزرتا تھا ۔ شاعر نے کہا تھا ،

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی روح کو مقامات بلند سے سرفرازکرے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔