’’مشرق کا غرناطہ ‘‘

اصغر عبداللہ  بدھ 2 دسمبر 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

’میں نے ابھی ابھی وائٹ جیسمین چائے کی ایک پیالی پی ہے اور امرتسر کے کمپنی باغ پر مضمون لکھنے بیٹھا ہوں۔ اس چینی چائے کی خوشبو میرے ہر سانس کے ساتھ کمرے میں پھیلنے لگی ہے۔

یہ چینی چائے میرا ایک دوست چین سے لایا تھا۔ جب میں نے پہلی بار لیمن ییلو کلر کے اس گول ڈبے کو کھول کر سونگھا تو میری آنکھیں اس کی خواب آلود خوشبو کے سحر سے خود بخود بند ہو گئیں اور مجھے یوں لگا جیسے میں صبح کی شبنمی ہوا بن کر کمپنی باغ کے درختوں میں سے گزر رہا ہوں۔کمپنی باغ کے ہر درخت میں وائٹ جیسمین چائے کی مہک تھی اور اس کی روشوں کی گھاس میں جنگلی گلاب اور بنقشے کے پھول کھلا کرتے تھے۔

میں نے آنکھیں کھول کرچینی چائے کی سیاہی مائل سبز خشک پتیوں کو دیکھا تو مجھے وہ خشک پتے یاد آ گئے جو شروع سردیوں کی ہلکی بارش میں کمپنی باغ کے درختوں پر سے گرا کرتے تھے…..‘ امرتسر کے کمپنی باغ پر اے حمید صاحب کے مضمون’ مشرق کا غرناطہ‘ کی یہ ابتدائی سطریں ہیں۔ یہ مضمون، جو لاہور کے معروف ڈائجسٹ میں آج سے 45 سال پہلے اکتوبر 1970میں شایع ہوا تھا، پچھلے دنوں پڑھا اور ابھی تک اس کے سحر میں گرفتار ہوں۔

اے حمیدصاحب اپنی یادوں کے ویران شہر ’ امرتسر‘ میں داخل ہونے سے پہلے’غرناطہ‘ کی بربادی کا نقشہ کھینچتے ہیں، اس طرح کہ روح کھنچ جاتی ہے، اداس اور غمگین چاند کی اداس روشنی میں مضمون نگار کو غرناطہ کے کھنڈر اوراس کے اجڑے باغوں میں امرتسر کمپنی باغ کے درخت سرجھکائے نظر آتے ہیں اور وہ انجمن پارک کے ساتھ ساتھ ریلوے پل کی چڑھائی چڑھ کر سب سے پہلے ہال دروازے کی طرف سے کمپنی باغ میں داخل ہوتا ہے۔

اگر رام باغ دروازے کی طرف سے کمپنی باغ کو جائیں تو بائیں ہاتھ شروع میں ہندو پان فروشوں کی دکانیں آتی ہیں۔ ریلوے پھاٹک کراس کرتے ہی بائیں ہاتھ پر وکٹوریہ جوبلی اسپتال کا مشرقی دروازہ ہے جس کے سامنے کمپنی باغ کا پرانا دروازہ ہے۔ ڈیوڑھی سے باہر نکلتے ہی کونے میں ٹھنڈے پانی سے بھری ہوئی باولی ہے۔ یہ کمپنی باغ کی طرف جانے والی سب سے پرانی سڑک ہے۔ سیدھے ہاتھ پر جامن کے پرانے درخت ہیں اور دوسری طرف آملے کے درختوں کی قطار چلی گئی ہے۔ سامنے پرانی مغلیہ طرز کی عمارت کھڑی ہے۔ کہتے ہیں، اس عمارت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ آکر آرام کیا کرتا تھا۔

اگر مسلم ہائی اسکول یعنی شریف پورے والے پھاٹک کی طرف سے کمپنی باغ میں داخل ہوں تو سامنے بھائیوں والی نہر کا چھوٹا پل آتا ہے۔ یہ نہر کمپنی باغ کو جاتی ہے۔ اس کی ایک جانب امرودوں کے وسیع باغ ہیں اور دوسری جانب کنارے کے ساتھ ساتھ کوٹھیوں کی قطار ہے۔ انھی کوٹھیوں میں ایک کوٹھی کے برآمدے میںستون کے ساتھ عشق پیچاں کی بیل چڑھی ہے،جس کے کاسنی پھولوں کے سایے میں ایک ہندو لڑکی کرسی پر بیٹھی کبھی کتاب پڑھ رہی ہوتی ہے اور کبھی سویٹر بننے لگتی ہے۔

اس طرح تحصیل پورکی طرف سے کمپنی باغ میں داخل ہوں تو دروازہ مہان سنگھ سے نکل کر جی ٹی روڈ عبور کرتے ہی ایک طرف تحصیل کا دفتر ہے اور سامنے کونے والی بیری تلے مائی کا کچا مکان ہے۔ایک کچی پگڈنڈی لوکاٹ کے باغوں کے بیچ میں سے ریلوے لائن کو جاتی ہے ، جس کے پار مقبول پورے کی مسجد کے سفید مینار صبح کی سنہری دھوپ میں چمک رہے ہیں۔کمپنی باغ کو جاتی نہر کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آنے لگی ہے۔ نہر کے پار چھوٹا سا گاوں ہے، جس کے کسی گھر میں شادی کی ڈھولک بج رہی ہے،

تینوں سفناں ہو جان گئیاں
بابل دیاں گلیاں نی

خدا جانے ان لڑکیوں کو پاکستان پہنچنا نصیب ہوا تھا یا نہیں، کیونکہ47 میں اس گاؤںکی بیشتر آبادی شہید کر دی گئی تھی۔ یہ نہر کمپنی باغ کے بیچ میں سے گزرتی ہے جس کے ایک کنارے پر آم کے درخت جھکے ہوئے ہیں اور دوسرے کنارے پر دورتک ناشپاتیوں کا باغ پھیلا ہوا ہے۔ قریب ہی ایک خوب صورت پلاٹ میں گلاب ،گیندے اور طرح طرح کے پھولوں کے تختے ہیں اور سنگ مرمر کے بنچ رکھے ہیں۔ انھی پھولوں کے تختوں کے درمیان اے حمید صاحب کی پہلی محبت پروان چڑھتی ہے۔ ’ منزل منزل ‘ ان کا پہلا افسانہ ، ان کی اس پہلی محبت کی یادگار ہے۔

اے حمید صاحب مرحوم کے مضمون’ مشرق کا غرناطہ‘ کو میں کس طرف سے لکھنا شروع کروں ، ان کی یادوں کے اس ویران شہر میں کس طرف سے قدم رکھوں، میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ ادھر کالم کی تنگی داماں آڑے آ رہی ہے ۔ لہٰذا مضمون کا یہ آخری پیراگراف نذر کرکے ختم کرتا ہوں،’ کمپنی باغ میں سورج آج بھی طلوع ہوتا ہو گا لیکن صبح کبھی نہیں ہوتی ہو گی۔

منہ اندھیرے شبنم پھولوں پر گرتی ہو گی مگر ان کا منہ نہیں چومتی ہو گی۔ باد سحر آہیں بھرتی ہمیں یاد کرتی درختوں پر ہماری محبتوں کے نشانوں کو بوسہ دیتی گزر جاتی ہو گی۔ ساون کی گھٹائیں باغ کے آسمان پر ہمیں آوازیں دے دے کر گرجتی ہوں گی۔ بارشیں اجڑی ہوئی مسجدوں کے شگاف زدہ گنبدوں اور خزاں نصیب پیٹروںپر روتے ہوئے برستی ہو گی۔ ٹھنڈا زرد چاند آم کے درختوں پر ٹھوڑی رکھ کر ویران باغ میں ہمیں تلاش کرتا ہو گا اور نہر کا پانی پچھلی شب کی نورانی روشنی میں کناروں کی گھاس پرے ہٹا کر اپنی آبی آنکھوں سے ہمیں دیکھنے کی بے سود کوشش کر تا ہو گا ۔ آخر وہ خوب صورت خوش پوش لوگ کہاں چلے گئے ، کمپنی باغ یہ ضرور سوچتا ہو گا ۔

اسے کیا معلوم کہ پت جھڑ میں سوکھے پتے جس ٹہنی سے ٹوٹتے ہیں، اس کے نیچے کبھی نہیں گرتے ۔ میں بھی تو ایک ہوں ،جانے کس شاخ سے ٹوٹا، کس سرزمین پر آکر بچھ گیا اور اب ہوائیں کس دیس کو اڑائے لیے پھر رہی ہیں۔کیا اب کبھی اپنی شاخ سے لگ کر پھول کھلتے دیکھنے نصیب نہ ہوں گے ؟‘ شاعر نے کہا تھا

ٹھٹھرے تاروں کے پھیلے جنگل میں
چاند تنہا اداس پھرتا ہے
یوکلپٹس کے پیٹر کے نیچے
خشک پتے ہوا میں اڑتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔