سعودی عرب کی زیرقیادت 34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد

آصف زیدی  اتوار 27 دسمبر 2015
مقاصد کیا ہیں اور دہشت گردی کے خلاف کتنا مفید ثابت ہوگا؟ ۔  فوٹو : فائل

مقاصد کیا ہیں اور دہشت گردی کے خلاف کتنا مفید ثابت ہوگا؟ ۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے اور اس کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے 34  اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے، جس میں مصر، قطر اور عرب امارت جیسے کئی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، ملائیشیا اور افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے ان ممالک کی فہرست جاری کی ہے اور کہا ہے کہ ان ملکوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملٹری آپریشن کی غرض سے اور باہمی روابط کو مزید موثر اور فعال بنانے کے لیے اس کا مشترکہ آپریشن سینٹر ریاض میں ہوگا۔

اتحاد میں سعودی عرب کے علاوہ اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، بنگلادیش، لبنان، ترکی، چاڈ، توگو، تیونس، جیبوتی، سینیگال، سوڈان، سرالیون، صومالیہ، گابون، گینیا، فلسطین، قطر، کویت، دارفر، لیبیا، مالدیپ، مالی، ملائیشیا، مصر، مراکش موریطانیہ، نائیجیریا، یمن اور یوگنڈا شامل ہیں۔

جمہوریہ انڈونیشیا سمیت 10 دوسرے ممالک نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اسلامی ممالک کے اتحاد کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے اس میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی حکام کے مطابق اسلامی ممالک کے لیے شدت پسندی میں ملوث ہر اس تنظیم اور گروہ، چاہے اس کا کوئی بھی نام ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو، کی تخریب کاری سے تحفظ کو فرض قرار دیا گیا ہے جو زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں اور جن کا مقصد معصوم افراد میں دہشت پھیلانا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے وزیردفاع 30  سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔ تاہم انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں بتائی جس سے یہ معلوم ہوسکتا کہ یہ فوجی مہم کس طرح عمل میں لائی جائے گی۔

بقول سعودی حکام کے شام اور عراق میں آپریشن کے لیے اہم طاقتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ عالمی سطح کے روابط استوار کیے جائیں گے، ہم قانونی جواز کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ روابط کے بغیر یہ آپریشن انجام نہیں دے سکتے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ نیا فوجی اتحاد صرف داعش کے خلاف ہوگا تو محمد بن سلمان نے کہا نہ صرف یہ گروپ بل کہ ہمارے سامنے جو بھی دہشت گرد تنظیم ابھرے گی ہم اس کا سامنا کریں گے۔

دوسری جانب امریکی وزیردفاع ایشٹن کارٹر نے اتحاد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے، جس کے تحت شدت پسند تنظیم داعش کے مقابلے کے لیے مختلف ملکوں کے کردار کو وسعت دینا ہے، جب کہ پاکستانی وزارت دفاع کی ترجمان نے کسی بھی تبصرہ سے گریز کیا ہے۔ خارجہ نے کہا کہ ہم اس پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس پر مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اس اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے کافی کنفیوژن رہی، پہلے دفتر خارجہ نے اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے اعلان پر اظہار حیرت کیا، بعدازاں

دفتر خارجہ نے 34 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں اپنی باضابطہ شمولیت کی تصدیق کردی۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان اس فوجی اتحاد کا باقاعدہ رکن ہے۔ تاہم سعودی حکومت سے اتحاد میں پاکستان کے ممکنہ کردار سے متعلق مزید تفصیلات طلب کی ہیں جن کا انتظار ہے، ان کی روشنی میں دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی شمولیت کس نوعیت کی ہے۔ پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

٭رکن ملکوں کا مختصر جائزہ:
اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ملکوں میں سعودی عرب کپتان کی حیثیت سے ڈرائیونگ سیٹ پر ہے ، اس کے علاوہ بحرین، بنگلا دیش، بینین، چاڈ، کوموروز، کوٹ ڈی آئیوری، جیبوتی، مصر، گیبون، گنی، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، مالدیپ، مالی، ماریطانیہ، مراکش، نائیجر، نائیجیریا، پاکستان، فلسطین، قطر، سینیگال، سری الیون، صومالیہ، سوڈان ، ٹوگو، تیونس، ترکی، متحدہ عرب امارات اور یمن اس اتحاد میں شامل ہیں۔

ان ملکوں میں سے بعض نے اس اتحاد میں فوری شمولیت کے لیے ہاں کردی ہے جب کہ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنھوں نے رضامندی کا اظہار کیا ہے، لیکن ابھی وہ اس اتحاد میں شامل نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ آذر بائیجان اور انڈونیشیا بھی مستقبل قریب میں اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہوسکتے ہیں۔

دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے اس اتحاد میں ایران، عراق اور شام کو شامل نہ کیا جانا عالمی حلقوں کے لیے سوالیہ نشان ہے اور ابھی سے اس کی افادیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ ممالک خاص طور پر ایران داعش، القاعدہ جیسی انتہاپسند اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت رویہ رکھتا ہے اور عالمی سطح پر مختلف معاملات میں عالمی برادری کے ایک بڑے حصے کی مخالفت مول لینے کے باوجود ایک اہم ملک اور ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔

عالمی سیاست کے نشیب و فراز پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد بنانے والوں نے یا تو ایران کو شامل ہی نہیں کرنا چاہا یا ایران نے اُن کی شرائط پر اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ وجہ کچھ بھی ہو، دونوں صورتوں میں فائدہ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ہی ہوگا۔ حکومت پاکستان کو اس اتحاد میں ایران کی شمولیت کے حوالے سے بھی آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان اور ایران کی شمولیت سے اسلامی فوجی اتحاد کی طاقت، افادیت اور اثر ورسوخ میں کافی اضافہ ہوگا۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اتحاد بنانے والوں کے مقاصد اور اہداف کا تعین بھی واضح طور پر دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ صرف کسی کی مخالفت اور دشمنی یا کسی کو خوش کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد کبھی پائے دا ثابت نہیں ہوتے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا کا اس اتحاد کے حوالے سے کیا ردعمل ہوتا ہے، ابھی تو کچھ بیانات میں امریکی حکام نے اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن سرکاری طور پر خیر مقدمی بیانات کے باوجود آئندہ کی امریکی پالیسیاں اور اسلامی فوجی اتحاد کی ممکنہ کارروائیوں پر اس کا کیا ردعمل نکلتا ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔

34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک اور اس سے باہر ملکوں کے بھی اسرائیل کی پالیسیوں اور اقدامات پر نظر رکھنا ہوگی، کیوںکہ اسرائیل کو اسلام اور اس سے جڑی ہر چیز سے دشمنی ہے، اب اسلامی فوجی اتحاد کے سامنے آنے کے بعد صہیونی لابی یقینی طور پر اس کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈا کرے گی، بل کہ مختلف طریقوں سے اسلامی ممالک کو تنگ کرنے کا سلسلہ بھی مزید وسیع ہوگا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسرائیل سے کچھ بعید نہیں، وہ اسلامی فوجی اتحاد اور اسلامی ممالک کو کمزور کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

اس اسلامی فوجی اتحاد کو صرف فوجی کارروائیاں کرنے تک ہی خود کو محدود نہیں کرنا چاہیے بل کہ اسلامی دنیا کو درپیش مختلف مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے بھی مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ 34 اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد اگر یک زبان ہوکر کسی بھی معاملے پر کھڑا ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پیچھے نہیں ہٹاسکتی۔

عراق، شام اور یمن کے ابتر حالات میں اس اتحاد کو ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلم امہ کے اجتماعی فائدے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا پلیٹ فارم ہے اور اگر موثر انداز میں اس کو لیکر آگے چلاگیا تو صورتحال مختلف تنازعات میں گھرے اسلامی ملکوں کے عوام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صدق نیت کے ساتھ کام کیا جائے تاکہ یہ اسلامی فوجی اتحاد اسلامی دنیا کے اتحاد میں مددگار ثابت ہو۔

اس اتحاد کا بنیادی مقصد داعش اور دیگر انتہاپسند اور دہشت گرد تنظیموں کی سرکوبی ہے، فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی فوجی اتحاد کو انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کو بھی ختم کرنا ہوگا کیوںکہ اس کے بغیر اس اتحاد کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔

عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں طالبان، القاعدہ، بوکوحرام اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے پھلنے پھولنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں ان تنظیموں کے ہم درد، ہم خیال اور حامی موجود ہیں جو اس دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے میں آگے آگے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے ہر علاقے میں اپنے ہم خیالوں کو پناہ اور لاجسٹک سپورٹ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ ان کی برین واشنگ اور وہ سب کام کرتے ہیں جس سے دنیا میں افراتفری پھیلے۔ اس صورت حال کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد کو دہشت گردوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نرسریوں کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ دنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے میں یہ اتحاد بھی موثر کردار دا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔