ظالم وی آئی پی کلچر

شکیل فاروقی  منگل 5 جنوری 2016
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ظلِ الٰہی، عالم پناہ، بادشاہ سلامت کی شاہی سواری کے موقعے پر سیکیورٹی کے عملے کی صداؤں ’’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ کے قصے ہم نے تاریخ میں پڑھے تھے یا پھر اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے برٹش راج کے دوران اپنے بچپن کے ابتدائی ایام میں ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی میں دیکھی تھی۔

اس دور غلامی کی دھندلی دھندلی یادیں ہمارے ذہن کے مہمان خانہ میں ابھی تک تازہ ہیں۔ دلی کے لال قلعہ کے بعض حصے فرنگیوں کے لیے مخصوص تھے، جہاں عام آدمی تو کیا پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔ لہٰذا ان حصوں کو دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ جن بقایا حصوں کی سیرکی اجازت تھی اس کے لیے بھی چند روز اور اوقات مخصوص تھے، مگر اس کے باوجود جب کبھی فرنگی اہلکاروں کی سواری کا گزر ہوتا تھا تو وزیٹرز کے لیے سخت احکامات تھے کہ وہ جہاں بھی ہوں یک دم وہیں رک جائیں اور پیٹھ موڑکرکھڑے ہوجائیں تاکہ ان کے ناپسندیدہ چہرے فرنگی حکمرانوں کو نظر نہ آئیں۔

بادشاہوں کے دورکو ایک زمانہ گزرچکا اور فرنگی حکمران بھی کب کے جاچکے، سلطانی جمہورکا دورآچکا ہے لیکن نقوشِ کہن ہیں کہ مٹنے کے بجائے وی آئی پی کلچرکی صدارت میں روز بہ روز مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں، جمہوریت کے ٹھیکے داروں کا سب سے نمایاں طرۂ امتیاز شاید یہی ہے جس کا جان لیوا تازہ ترین مظاہرہ چند روز قبل عوام کا نمایندہ ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین سائیں بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں کراچی کے سول اسپتال میں ٹراما سینٹر کے افتتاح کے موقعے پر وی آئی پی پروٹوکول کے نتیجے میں دیکھنے میں آیا۔

10 ماہ کی شیر خوار بچی بسمہ نے اس وی آئی پی پروٹوکول کے باعث ہونے والی تاخیر کے نتیجے میں طبی امداد میسر نہ آنے کے نتیجے میں دم توڑدیا جب کہ اس کا بد نصیب باپ اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑتا رہا۔ اس اندوہ ناک واقعے کو نہ صرف چشم فلک نے دیکھا بلکہ ٹی وی کے بے شمار ناظرین نے بھی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ،حسب روایت اس المناک سانحے کی تفتیش کے لیے ایک کمیٹی مقرر کردی گئی ہے جس کے نتائج کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنا لاحاصل ہوگا۔

وی آئی پی کلچر کے نتیجے میں پیش آنے والا یہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنی جمہوریت پسندی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن تلخ حقیقت  یہ ہے کہ ان میں شہنشاہیت کی روح سمائی ہوئی ہے جو ان کے رہن سہن،ان کی شاہ خرچیوں اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے بالکل عیاں ہے وہ کہتے تو خود کو خادم عوام ہیں لیکن ان کا طرز عمل وہی بادشاہانہ ہے۔ چنانچہ محض حکمرانوں ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی وی آئی پی پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے جس کے لیے گھنٹوں پہلے سے ہی معمول کے ٹریفک کو بند کردیا جاتا ہے ان کی اس حرکت سے ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے جس سے عام شہریوں کو خوامخواہ شدید پریشانی اور تکلیف لاحق ہوجاتی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے قبل اسی طرح کا ایک واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف لاہورکے چلڈرنز ہاسپٹل کا دورہ فرمارہے تھے، مگر سانحہ نوزائیدہ بچے کی قبل از ولادت اور خرابی صحت کی وجہ سے پیش آیا تھا آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ چیف منسٹر سائیں کے ہیلی کاپٹرکے لینڈ کرنے کی وجہ سے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ بھی رکوا دیا  گیا  تھا۔ اس نوعیت کا ایک واقعہ کوئٹہ میں بھی پیش آیا تھا، جب وی آئی پی پروٹوکول کے باعث ٹریفک بند ہونے کے نتیجے میں ایک خاتون نے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی رکشے میں بیٹھے بیٹھے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔

جنرل مشرف کے دور کے ابتدائی ایام میں اس وقت کی حکومت نے وی آئی پی کلچر کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا مگر بالآخر سیکیورٹی کے نام پر وہ بھی اس کام کو انجام دینے سے قاصر رہی جس کے نتیجے میں 2006 میں جنرل صاحب کے کارواں کے گزرنے کے باعث ٹریفک جام ہونے کے نتیجے میں ایک یونیورسٹی طالب علم کی اپینڈکس پھٹ جانے کے نتیجے میں سرِ راہ موت واقع ہوئی تھی۔

سچ پوچھیے تو وطن عزیز میں رائج اس وی آئی پی کلچر نے عوام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی کے معمولات بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں، آپ اندازہ کیجیے کہ کسی مریض پر نزع کی کیفیت طاری ہے اور وی آئی پی پروٹوکول کے باعث ٹریفک جام پڑا ہوا ہے کسی کو فلائٹ پکڑنے کے لیے وقت پر ایئرپورٹ پہنچنا ہے مگر وی آئی پی کے گزرنے کے باعث راستہ بند ہے، کسی کو ملازمت کے لیے انٹرویو دینے کے سلسلے میں مقررہ وقت پر حاضر ہونا ضروری ہے لیکن راستے میں پروٹوکول کا پہاڑ حائل ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بے چارے عوام کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب اور کہاں اور کب تک انھیں وی آئی پی پروٹوکول کے مضمرات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایک اور مصیبت یہ ہے کہ راستے وی آئی پی کے گزرنے سے بہت پہلے سے بند کردیے جاتے ہیں اور جب وی آئی پی کے گزرنے کے بعد انھیں دوبارہ کھولا جاتا ہے تو اس کے بعد ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف ملحقہ راستوں کا ٹریفک بری طرح سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوتے ہیں۔

وی آئی پی کلچرکی یہ روایت نہ صرف عوام دشمن ہے بلکہ آئین کے تحت عوام کو دیے گئے بنیادی حقوق کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔  چیف جسٹس سے ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اس روایت کے خاتمے کے سلسلے میں از خود نوٹس لیں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ چیف جسٹس اپنے لیے وی آئی پی پروٹوکول نہ لینے کی پہلے ہی ہدایت جاری فرماچکے ہیں جو صرف لائق تحسین ہی نہیں لائق تقلید بھی ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا  میں ان کی پارٹی کی حکومت وی آئی پی پروٹوکول کے سلسلے میں ٹریفک بند کرنے کی ناپسندیدہ اور عوام مخالف روایت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے گی، کراچی میں 10 ماہ کی ننھی معصوم بچی بسمہ کی افسوسناک ہلاکت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں وی آئی پی پروٹوکول کی لعنت کے خاتمے کے لیے صوبے کے وزیراعلیٰ کے ساتھ خصوصی ملاقات کرکے اس بارے میں حکومتی فیصلے کو عملی جامہ پہنائیںگے۔

انھوں نے کہا کہ ’’وزیراعظم سمیت کسی بھی وی آئی پی کے لیے ٹریفک کو نہیں روکا جائے گا‘‘ ان کا کہناتھا کہ جس طرح آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے خلاف پوری قوم نے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اسی طرح اب ملک میں وی آئی پی پروٹوکول کلچرکے خاتمے کے سلسلے میں بھی معصوم بسمہ کی ہلاکت کے نتیجے میں مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

وی آئی پی سیکیورٹی کی روایت عوام کی پریشانی کا باعث ہونے کے علاوہ عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والی کمائی سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں کا بھی زیاں ہے، ایک اندازے کے مطابق کراچی کی پوری پولیس نفری کا ایک چوتھائی حصہ وی آئی پی سیکیورٹی کے کام پر مامور ہے جس کے باعث جرائم پر قابو پانے کے سلسلے میں پولیس کی مطلوبہ نفری کی شدید قلت محسوس کی جارہی ہے۔

وی آئی پی پروٹوکول کے معاملے میں محض ایک پارٹی کو مورد الزام ٹھہرانا  سراسر زیادتی اور نا انصافی ہوگی۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ یہ مرض تمام سیاسی جماعتوں کو لاحق ہے جو وعدے تو عوام دوست اور خادم عوام ہونے کے کرتی ہیں لیکن عملاً خود کو عوام کا حاکم اور عوام کو اپنی رعیت سمجھتی ہیں، درحقیقت وی آئی پی کلچر نے مدت دراز سے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس میں ہمارے میڈیا کا بھی قصور ہے کہ وہ ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اس کی زیادہ سے زیادہ کوریج کی دوڑ میں شامل رہتا ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ وی آئی پی کلچر کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنی جانب سے موثرکردار ادا کرے جوکہ اس کی قومی اور اخلاقی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔