صحت کی بہتر سہولتیں ناپید کیوں؟

عینی نیازی  اتوار 31 جنوری 2016

اسپتال کے لیبر روم میں اسٹریچر پر وہ درد سے بے حال تھی، جونئیرز ڈاکٹر اور نرس اس کے قریب کھڑی پریشان تھیں کہ ابھی تک سینئر گائنالوجسٹ نہیں پہنچی تھی، وہ بار بار مریضہ کو تسلی دے رہی تھیں کہ بی بی ابھی تھوڑا صبرکرو، بڑی ڈاکٹر آنے والی ہیں، وہ ناراض ہوں گی، بس راستے میں ہیں۔

یہ انتظار اس لیے تھا کہ مریضہ کی یہ پہلی ڈلیوری تھی، گھر والوں نے ایک بڑے پرائیوٹ اسپتال کا انتخاب کیا تھا اور ساتھ وہاں کی سب سے بڑی گائنی ڈاکٹرکی بکنگ بھی کروا رکھی تھی تاکہ کسی قسم کی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ گائنالوجسٹ کی بھاری فیس اسپتال کے چارجز سے علیحدہ ادا کی جانی تھی، ساتھ میں نو ماہ چیک اپ کے لیے آنے پر ان کی فیس کے ساتھ مہنگے ٹیسٹ بھی رقم وصولنے کا ذریعہ بنے رہے، ادھر مریضہ کے گھر والے لیبر روم سے باہر ڈاکٹرکے منتظر تھے اور اندر مریضہ کوکہا جاتا ہے، بی بی ابھی کوشش مت کرو، ڈاکٹر کو تو آنے دو۔ ایک حاملہ عورت نو مہینے تک دنیا میں نئی زندگی لانے میں جو دکھ ومصیبیتں جھیلتی ہے، اسی دردکی شدت وتکلیف کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ماں کا رتبہ باپ سے ایک درجہ افضل کردیا لیکن افسوس کہ ہم نے اسے بھی مذا ق بنادیا ہے۔

ہمارے شہروں میں اب یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے اور اس جانب کوئی توجہ نہیں کہ اکثر پرائیوٹ اسپتالوں میں نو ماہ چیک اپ اور ٹیسٹ کی صورت میں فیس وصول کی جاتی ہے اور ڈلیوری کے وقت بچے کی سانس رک رہی ہے، دھڑکن کم ہورہی ہے، بچے اور ماں کی جان کوخطرہ ہے، مریضہ کے گھر والوں سے کہا جاتا ہے کہ مر یضہ کا کیس نارمل نہیں ہے، اس لیے آپریشن کی ضرورت پڑے گی، اگر آپ کو ان کی زندگی عزیز ہے تو آپ خون کی بوتل اور رقم کا انتظام کریں، جیسے جملوں کے بعدکوشش کی جاتی ہے کہ نارمل ڈلیوری کے بجائے آپریشن کو ترجیح دی جائے۔

جس سے خاصی موٹی رقم بل کی صورت میں وصول کی جاتی ہے، اسپتال کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور ایک فارم جس پر اگر خدانخواستہ کیس خراب ہوجائے تو قانونی طور پر ساری ذمے داری آپ کی ہے، پیشگی دستخط کروالیے جاتے ہیں، مریضہ کے لواحقین کا اس طریقہ کار  پر عمل کرنے کے سوا اورکوئی چارہ نہیں ہوتا، بے چارے میر کی شاعری کے سادہ لوح انسان اسی عطارکے لونڈے سے شفا طلب کررہے ہوتے ہیں۔ یہاں میں ایک بات کہتی چلوں کہ سارے ڈاکٹرز ایسے نہیں ہیں ۔ اعجاز مسیحائی کی کئی شاندار مثالیں موجود ہیں، ادیب رضوی اور ان کے رفقا جیسے مسیحا ہیں۔ سیکڑوں ڈاکٹرز اور اسپیشلسٹس غریب پرور بھی ہیں۔

لیکن یہ منادی شہر ہے، اب آپ کو شاذونادر ہی کوئی نارمل کیس ڈلیوری کا سننے کو ملتا ہے۔ تو کیا اب ذہن میں خیال نہیں آئے گا کہ نارمل ڈلیوری بند ہوگئی ہے۔ ہمارے گاؤں دیہاتوں میں ماؤں کی اکثریت نارمل ڈلیوری سے زندگیاں جنم دے رہی ہیں، شہری ماؤں کے مستقبل لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ مریضہ آپریشن کے بعد مزید کتنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔

وہ مائیں جنھیں نئی نسل کو پروان چڑھانا ہے، جنھیں آگے مزید نئی زندگیاں جنم دینی ہیں، ایک لمبی زندگی گزارنی ہوتی ہے، پورے گھر کی دیکھ بھال، صحت کی ذمے داری ماؤں کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شادی سے پہلے اور بعد میں اکثریتی لڑکیوں کو خوراک کے معاملے میں کس قدر بدقسمتی کا سامنا رہتا ہے، اس پر آپریشن سے ڈلیوری ہونا ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنتا ہے، وہ بعد میں اپنا خیال نہیں رکھ پاتیں، وقت سے پہلے اپنی صحت کھودیتی ہیں۔

یہ ایسی فیلڈ ہے کہ جس کے بارے میں عام آدمی کچھ نہیں جانتا، بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے قابل آدمی بھی اسپتال میں بے بس نظر آتے ہیں، ہونق بنے ڈاکٹر کی ہر بات پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم سب کی انسانی جسم کی کیمسٹری سے ناواقفیت ڈاکٹروں کے حق میں جاتی ہے، ڈاکٹر کو مریض سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی، بعض اوقات خود علاج سے اپنے تجربے میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ مریض اور اہل خانہ اکثر شاکی رہتے ہیں کہ مسیحا نے مرض کو سمجھنے میں کافی مدت لگادی، ہزاروں روپے کے مختلف ٹیسٹ کروا کر بھی ڈاکٹرز مطمن نہیں ہوتے، مزید ٹیسٹ لکھ دیے جاتے ہیں، احتجاج کرنے پر وہی بلیک میلنگ کا حربہ، مریض کی زندگی پیاری ہے تو اس کے لیے ٹیسٹ ضروری ہے۔ مریض کے اہل خانہ کے پاس ڈاکٹروں کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

ایک پرانا لطیفہ ہے کہ وکیل اپنی غلطی سے لٹکادیتا ہے، استاد کی غلطی آنے والی نسلوں کی تربیت میں جھلکتی ہے اور ڈاکٹرز کی غلطی کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔ مسیحائی کا رتبہ تو بہت افضل ہے، میری گزارش ہے کہ اسے خدارا لا لچ وہوس کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں، چند روپوں کے اس لالچ سے وہ کتنی خوشیاں سمیٹ سکیں گے۔ ہمارے معاشرے میں تو ویسے بھی ہر طرف لاقانونیت، غربت، مہنگائی اور جہالت کا بسیرا ہے، عام لوگ صحت کی جانب کم توجہ دے پاتے ہیں۔

بیماری کی آخری شدت پر آئے بنا ڈاکٹروں کے پاس جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر ان مسیحاؤں کی لوٹ مار نے حالات کو مزید بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، غریب اور لاچار طبقہ تو بے چارہ سسک سسک کر دم توڑ دیتا ہے، صحت کی سہولت بہم پہنچانا، پاکستانی آئین کیمطابق حکومت کی ذمے داری ہے۔

گورنمنٹ اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور سرجنز لا کھوں کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر سینئر ڈاکٹرز وارڈ کو ٹرینی ڈاکٹرز اور نرسز کے رحم وکرم پر چھوڑ کر پرائیوٹ اسپتالوں میں پریکٹس بھی جاری رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مریض کے رشتے داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ پرائیوٹ علاج کروایا جائے، اگر گورنمنٹ اسپتالوں میں صحت کی بہتر سہولتیں مہیا ہوں تو عوام کی زندگی آسان ہوجائے، پرائیوٹ اسپتالوں میں مہنگے علاج اور مسیحاؤں کی بلیک میلنگ سے بھی بچ سکیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے مسائل پر باقاعدہ پروگرامز اور ورکشاپس کی جاتی ہیں، اس کے سدباب پر غور کیا جاتا ہے، عمل کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس گمبھیر مسئلے کو جاننے کے باوجود کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔