ہماری قوم ہارنے کے باوجود خوش ہے

ساجد علی ساجد  جمعرات 24 مارچ 2016
sajid.ali@express.com.pk

[email protected]

حال ہی میں جاری رہنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جس میں دنیا میں خوش رہنے والے ملکوں کی درجہ بندی کی گئی ہے پاکستان کے لوگ کرکٹ میں ہارنے کے باوجود بھارت اور بنگلہ دیش دونوں سے زیادہ خوش ہیں، چنانچہ ایسے ملکوں میں پاکستان 92 ویں نمبر پر ہے جب کہ بھارت 118 ویں اور بنگلہ دیش 110 ویں نمبر پر ہے۔

اس چوتھی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا کے خوش ترین ملک کی حیثیت سے ڈنمارک نے اپنی پہلی پوزیشن سوئٹزرلینڈ کو پیچھے دھکیل کر پھر حاصل کرلی ہے جب کہ برونڈی دنیا کا سب سے غمزدہ ملک قرار پایا ہے۔ اس رپورٹ میں جو پچھلے بدھ کو جاری ہوئی ہے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عدم مساوات کا لوگوں کے ناخوش رہنے سے بڑا گہرا تعلق ہے اور یہ خرابی امریکا جیسے مالدار ملکوں میں سرائیت کرگئی ہے، جہاں آمدنی، دولت، صحت اور فلاح و بہبود کی بڑھتی ہوئی خلیج نے سیاسی بے چینی کو ہوا دی ہے۔

ادھر ڈنمارک نے 2012 کی پہلی رپورٹ میں بھی ٹاپ کیا تھا، 2013 میں بھی یہ پوزیشن برقرار رکھی مگر پھر پچھلے سال سوئٹزرلینڈ نے اس کی جگہ لے لی تھی، تاہم اس سال پھر ڈنمارک پہلی پوزیشن پر آگیا ہے، اس کے بعد آئس لینڈ، ناروے، فن لینڈ، کینیڈا، نیدر لینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور سوئیڈن کا نمبر آتا ہے، ان تمام ممالک میں سماجی تحفظ کا نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

ڈیڑھ سو سے زائد ملکوں کی اس فہرست میں برونڈی سب سے آخر میں آتا ہے، جو پچھلے سال ایک بڑے پرتشدد سیاسی بحران کا نشانہ بنا تھا۔ اس کے بعد شام، ٹوگو، افغانستان، بینن، روانڈا، گنی، لائبیریا، تنزانیہ اور مڈغاسکر آتے ہیں۔ یہ تمام قومیں غربت کی ماری ہوئی ہیں اور ان میں سے بہت سے ملکوں کو جنگ اور بیماریوں نے غیر مستحکم کر رکھا ہے۔

جہاں تک زیادہ آبادی والے ملکوں کا تعلق ہے سب سے زیادہ انسانی آبادی والا چین پرمسرت اقوام کی اس فہرست میں 83 ویں، بھارت 118 ویں، امریکا 13 ویں، انڈونیشیا79 ویں، برازیل 17ویں، پاکستان 92 ویں، نائیجیریا103 ویں، بنگلہ دیش 110 ویں، روس 56 ویں، جاپان53 ویں اور میکسیکو 21 ویں نمبر پر ہے امریکا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ 2013 میں 15 ویں نمبر پر تھا مگر اس سال وہ دو نمبر اوپر آگیا ہے۔

2005 سے 2015 کے دوران جس ملک نے سب سے زیادہ نیچے کی طرف غوطہ کھایا ہے وہ یونان ہے۔

خوشی کی یہ رینکنگ گیلپ کی طرف سے کیے جانے والے گلوبل پول یا سروے کے انفرادی رسپانس پر مبنی ہے۔ اس Poll میں ایک سوال شامل ہوتا ہے جو کینٹرل لیڈر Cantrial Ladder کہلاتا ہے۔ براہ کرم ایک سیڑھی کا تصور کیجیے جس کے اسٹیپ کو نیچے صفر سے لے کر ٹاپ پر دس تک کے نمبر دیے گئے ہیں۔ سیڑھی کا ٹاپ آپ کے لیے ممکنہ حد تک بہترین زندگی جب کہ سب سے نیچے کا اسٹیپ ممکنہ حد تک خراب زندگی کی نمایندگی کرتا ہے۔ ذرا بتائیے خود آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت آپ اس سیڑھی کے کون سے اسٹیپ پر ہیں۔

اسکالروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مختلف ملکوں کی تین چوتھائی کمی بیشی، خرابی اچھائی کی وضاحت چھ گھٹتی بڑھتی خوبیوں Variables کی مرہون منت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی بھی ملک کا فی کس جی ڈی پی (کسی قوم کی دولت ناپنے کا عام پیمانہ) کیا ہے، صحت مندانہ زندگی، عمر کی اوسط، سوشل سپورٹ (یعنی مصیبت کے وقت کوئی ہے جس سے آپ کچھ امید رکھ سکتے ہیں) بھروسہ اور اعتماد (جسے حکومت اور بزنس میں کرپشن کی عدم موجودگی سے ناپا جاتا ہے) اپنی پسند کی زندگی چوائس کرنے کی کتنی آزادی ہے اور فراخدلی کتنی ہے (جسے عطیات سے ناپا جاتا ہے)۔

یہ رپورٹ Sustainable Devolution Network کے ادارے نے تیار کی ہے، جو سماجی سائنسدانوں کا ایک ایسا بین الاقوامی پینل ہے جس میں اقتصادیات، نفسیات اور سوشل ہیلتھ کے ماہرین شامل ہیں جن کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یہ ذمے داری سونپی ہے، اگرچہ ان لوگوں کے گیلپ پول سے حاصل ہونے والے نتائج اقوام متحدہ کی باضابطہ رائے قرار نہیں دیے جاسکتے، مگر یہ ان ترقیاتی مقاصد کے قریب ترین جو مالی ادارے نے ستمبر میں اپنائے تھے جن کا من جملہ دوسری باتوں کے سب سے بڑا نصب العین 2030 تک بھوک اور غربت کا خاتمہ کرنا اور کرہ ارض کو موسم کی تبدیلی کے خوفناک اثرات سے بچانا ہے۔

حالیہ برسوں میں خوشی کے بارے میں ریسرچ کرنے کی فیلڈ خاصی وسیع ہوئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس بارے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے کہ خوشی کو کس طرح ناپا جائے، بعض اسکالروں کے نزدیک لوگوں کا اپنی بہبود اور ذہنی کیفیت کے بارے میں Subjective اسسمنٹ قابل بھروسہ نہیں وہ معروضی انڈیکیٹرز مثلاً اقتصادیات اور صحت کے اعداد و شمار کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ تیار کرنے والے اسکالروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے دونوں قسم کے اعداد و شمار سے استفادہ کیا ہے۔

رپورٹ کے ایک باب میں دنیا کے تین ماہرین اقتصادیات جون ایف ہیل ویل (برٹش کولمبیا یونیورسٹی) ہنیانگ ہوانگ (البرٹا یونیورسٹی) اور شون وانگ (کوریا ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ) نے دنیا بھر میں تسلیم کیے جانے والے اس تصور سے اختلاف کیا ہے کہ اپنی زندگیوں کی لوگ جو تشخیص کرتے ہیں ان میں تبدیلیاں عارضی ہوتی ہیں، تینوں کا یہ بھی خیال تھا کہ ایک ہی ملک میں لوگوں کا اپنی زندگیوں کا تشخیص و تجزیہ مختلف ہوسکتا ہے۔

پھر ان ملکوں میں ایسے سب گروپ بھی ہوسکتے ہیں جن کو اپنی اپنی زندگیوں سے خوشی کی سطح مختلف نظر آئے جس پر بے روزگاری اور بڑی معذوریاں بھی اثرانداز ہوتی ہیں، اسی طرح تارکین وطن کی خوشی کی بنیاد ان کے اصل ملک نہیں بلکہ بلکہ نئے ملک ہوتے ہیں جہاں وہ ہجرت کرکے آتے ہیں۔ تینوں ماہرین اقتصادیات کا یہ بھی خیال تھا کہ بحرانوں کے نتیجے میں خاص مختلف رسپانس سامنے آسکتے ہیں جو پس پردہ سماجی فیبرک پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً یونان میں جہاں معیشت 2007 میں روبہ زوال ہونا شروع ہوئی۔

جس سے یورو زون میں ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس کا نتیجہ تین مالی بیل آؤٹ، وسیع تر کرپشن اور بداعتمادی کی فضا کی صورت میں نکلا تھا، جس سے پچھلی پوری دہائی میں لوگوں کی خوشیاں بتدریج غارت ہوتی چلی گئیں، اس کے برعکس جاپان میں ٹرسٹ اور سوشل کیپٹل کی شرح اتنی بلند رہی ہے کہ جیساکہ اسکالروں کو پتا چلا کہ فوکوشیما میں جسے 2011 میں زلزلے اور سونامی نے تباہ کرکے رکھ دیا تھا کہ باہر سے کی جانے والی فراخدلانہ تعاون اور امداد نے خوشی کی سطح کو پہلے سے بھی بڑھادیا اور لوگوں کے سارے دکھ خوشیوں میں بدل گئے، جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے فراخدلانہ رویے سے لوگوں کے دکھوں کا کس حد تک مداوا کرسکتے ہیں۔

یہ رپورٹ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی چیلنج ہے کہ وہ جی ڈی پی بہتر بنائیں، افراط زر کم کریں، تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کریں اور ایک ایسی زندگی بھی جس پر عوام کی اکثریت اطمینان اور سکون محسوس کرسکے اس کے ساتھ ہی نجی اور سرکاری شعبوں میں کرپشن کم سے کم کیا جائے، تاکہ اگلی مرتبہ پاکستان دنیا کے خوش ملکوں کی فہرست میں بانوے سے ترقی کرکے کم ازکم نوے پر آجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔