پاک ۔ یوکرین تجارتی تعلقات

محمد عمران  منگل 13 نومبر 2012
آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین نے پاکستان کے ساتھ ’’الخالد‘‘ ٹینکوں کی تیاری اور مرمت میں بھی تعاون شروع کردیا تھا۔   فوٹو : فائل

آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین نے پاکستان کے ساتھ ’’الخالد‘‘ ٹینکوں کی تیاری اور مرمت میں بھی تعاون شروع کردیا تھا۔ فوٹو : فائل

پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے اور اس کے بیشتر برادر مسلم ممالک کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی سطح پر دوستانہ مراسم قائم ہیں۔ یوکرین بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔

یوکرین جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے مشرق اور شمال مشرق میں روس، جنوب مغرب میں بیلارس، مغرب میں پولینڈ، سلواکیہ اور ہنگری، جنوب مغرب میں رومانیہ، اور جنوب اور جنوب مشرق میں بحیرۂ سیاہ اور بحیرۂ آزوف ہیں۔ اس کا رقبہ 603628 مربع کلومیٹر ہے۔ یوکرین نے 1991ء میں روس سے آزادی حاصل کی اور 1992ء میں اس کے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ آزادی کے بعد یوکرین کی معیشت بحران کا شکار رہی لیکن پھر اس کی جی ڈی پی میں بہتری آنے لگی۔ 2010ء میں یوکرین کی جی ڈی پی کا حجم 305.2 ارب ڈالر تھا۔ جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے یوکرین دنیا کی 38 ویں بڑی معیشت تھا۔ بنیادی طور پر یوکرین ایک صنعتی ملک ہے جہاں ہر قسم کی ٹرانسپورٹیشن وہیکل بنائی جاتی ہیں جب کہ اس کی سب سے بڑی درآمدات تیل اور قدرتی گیس ہیں۔

پاکستان اور یوکرین کے دو طرفہ تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو بات سابقہ سوویت یونین تک چلی جاتی ہے جب 1960ء اور 70ء کی دہائی میں پاکستان میں صنعتوں کے قیام اور پاکستانی معیشت کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کے لیے روسی ماہرین یہاں آئے تھے ۔ ان میں اکثریت یوکرین سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل، تربیلا اور کالاباغ میں کئی ہائیڈرو اسٹیشن اس دور میں تعمیر کیے گئے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں زرعی مشینری، ٹرکوں وغیرہ کی تیاری کے لیے ایک بڑا صنعتی پارک بھی قائم کیا گیا تھا ۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین نے پاکستان کے ساتھ ’’الخالد‘‘ ٹینکوں کی تیاری اور مرمت میں بھی تعاون شروع کردیا تھا۔ الخالد کلیدی جنگی ٹینک ہے اور اس کی برآمد کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں ۔ پاکستان اور یوکرین کے دو طرفہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتیں سیاسی، عسکری، اقتصادی، تجارتی سطح پر تعلقات کو مزید مضبوط تر کرنے میں گہری دل چسپی لے رہی ہیں۔ بالخصوص دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے فروغ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں یوکرین ، پاکستان کی معاشی ترقی میں ہر طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہے اور معیشت کے مختلف شعبوں میں اپنے تعاون کو وسعت دینے کا متمنی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان 2010ء میں دو طرفہ تجارتی حجم 160.2ملین ڈالر تھا۔ یوکرین کی پاکستان کو برآمدات 113ملین ڈالر جب کہ پاکستان سے درآمدات 55.260ملین ڈالر تھیں۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین تجارت کا توازن یوکرین کے حق میں تھا۔ 2011ء میں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 251.9 ملین ڈالر رہا۔ اس برس پاکستان نے یوکرین سے 183.7ملین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں جب کہ یوکرین کو برآمد کی جانے والی اشیاء کا حجم68.2ملین ڈالر رہا، اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات وسیع ہو رہے ہیں تاہم پاکستان کو توازن تجارت متوازن یا اپنے حق میں کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔

پاکستان اور یوکرین کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات کو وسیع کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے ۔ اور دونوں ممالک کو اس گنجائش سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی و اقتصادی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی روابط کو مزید کیا جائے ، تجارت سرمایہ کاری، مالیات ، ٹرانسپورٹ اور صنعتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اقدام لیگل فریم ورک اور دو طرفہ تعاون کے لیے مکینزم کی تیاری ہوگا، مختلف معاہدوں کی منظوری اور کمیشنوں کے قیام سے بھی پاکستان اور یوکرین کے دوطرفہ تعلقات پر مثبت اثر پرے گا۔

ان کوششوں سے نہ صرف دونوں ممالک مزید قریب آئیں گے بلکہ ان کی معیشتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ جنوری 2011ء میں یوکرین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اسی برس جون میں دونوں ممالک کے درمیان دہرے ٹیکس سے بچاؤ کا معاہدہ بھی عمل میں آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔