- امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی روک دی
- فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،چیف جسٹس
- یقین ہے اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ساتھ لائیں گے؛ بابراعظم
- پاکستانی نوجوان سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار شروع کریں گے، وفاقی وزرا
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑا اضافہ
- جنوبی وزیرستان: نابینا شخص کو پانی میں پھینکنے کی ویڈیو وائرل، ٹک ٹاکرز گرفتار
- پنجاب پولیس نے 08 سالہ بچی کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا
- حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئرفورس کے قافلے پر حملہ؛ 1 ہلاک اور 4 زخمی
- پی ٹی آئی کا شیخ وقاص اکرم کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ
- گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے عہدے کا حلف اٹھالیا
- کراچی اور لاہور میں ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ
- پرویز الٰہی کو جیل سے اسپتال یا گھر منتقل کرنے کی درخواست منظور
- کراچی میں منشیات فروشوں کی فائرنگ سے 2 دوست جاں بحق
- سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
- پختونخوا حکومت کاشتکاروں سے 29 ارب روپے کی گندم خریدنے کیلیے تیار
- حماس کی اسرائیلی فورسز پر راکٹوں کی بوچھاڑ، 3 فوجی ہلاک، 11 زخمی
- گندم اسکینڈل؛ کون سی راکٹ سائنس ہے؟
- زہریلے کنکھجورے گردوں کی بیماری کے علاج میں معاون
- ناسا کا چاند پر جدید ریلوے سسٹم بنانے کا منصوبہ
پاک ۔ یوکرین تجارتی تعلقات
پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے اور اس کے بیشتر برادر مسلم ممالک کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی سطح پر دوستانہ مراسم قائم ہیں۔ یوکرین بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
یوکرین جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے مشرق اور شمال مشرق میں روس، جنوب مغرب میں بیلارس، مغرب میں پولینڈ، سلواکیہ اور ہنگری، جنوب مغرب میں رومانیہ، اور جنوب اور جنوب مشرق میں بحیرۂ سیاہ اور بحیرۂ آزوف ہیں۔ اس کا رقبہ 603628 مربع کلومیٹر ہے۔ یوکرین نے 1991ء میں روس سے آزادی حاصل کی اور 1992ء میں اس کے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ آزادی کے بعد یوکرین کی معیشت بحران کا شکار رہی لیکن پھر اس کی جی ڈی پی میں بہتری آنے لگی۔ 2010ء میں یوکرین کی جی ڈی پی کا حجم 305.2 ارب ڈالر تھا۔ جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے یوکرین دنیا کی 38 ویں بڑی معیشت تھا۔ بنیادی طور پر یوکرین ایک صنعتی ملک ہے جہاں ہر قسم کی ٹرانسپورٹیشن وہیکل بنائی جاتی ہیں جب کہ اس کی سب سے بڑی درآمدات تیل اور قدرتی گیس ہیں۔
پاکستان اور یوکرین کے دو طرفہ تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو بات سابقہ سوویت یونین تک چلی جاتی ہے جب 1960ء اور 70ء کی دہائی میں پاکستان میں صنعتوں کے قیام اور پاکستانی معیشت کو پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کے لیے روسی ماہرین یہاں آئے تھے ۔ ان میں اکثریت یوکرین سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل، تربیلا اور کالاباغ میں کئی ہائیڈرو اسٹیشن اس دور میں تعمیر کیے گئے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں زرعی مشینری، ٹرکوں وغیرہ کی تیاری کے لیے ایک بڑا صنعتی پارک بھی قائم کیا گیا تھا ۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرین نے پاکستان کے ساتھ ’’الخالد‘‘ ٹینکوں کی تیاری اور مرمت میں بھی تعاون شروع کردیا تھا۔ الخالد کلیدی جنگی ٹینک ہے اور اس کی برآمد کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں ۔ پاکستان اور یوکرین کے دو طرفہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتیں سیاسی، عسکری، اقتصادی، تجارتی سطح پر تعلقات کو مزید مضبوط تر کرنے میں گہری دل چسپی لے رہی ہیں۔ بالخصوص دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے فروغ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں یوکرین ، پاکستان کی معاشی ترقی میں ہر طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہے اور معیشت کے مختلف شعبوں میں اپنے تعاون کو وسعت دینے کا متمنی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان 2010ء میں دو طرفہ تجارتی حجم 160.2ملین ڈالر تھا۔ یوکرین کی پاکستان کو برآمدات 113ملین ڈالر جب کہ پاکستان سے درآمدات 55.260ملین ڈالر تھیں۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین تجارت کا توازن یوکرین کے حق میں تھا۔ 2011ء میں برادر اسلامی ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 251.9 ملین ڈالر رہا۔ اس برس پاکستان نے یوکرین سے 183.7ملین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں جب کہ یوکرین کو برآمد کی جانے والی اشیاء کا حجم68.2ملین ڈالر رہا، اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات وسیع ہو رہے ہیں تاہم پاکستان کو توازن تجارت متوازن یا اپنے حق میں کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔
پاکستان اور یوکرین کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات کو وسیع کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے ۔ اور دونوں ممالک کو اس گنجائش سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی و اقتصادی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی روابط کو مزید کیا جائے ، تجارت سرمایہ کاری، مالیات ، ٹرانسپورٹ اور صنعتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اقدام لیگل فریم ورک اور دو طرفہ تعاون کے لیے مکینزم کی تیاری ہوگا، مختلف معاہدوں کی منظوری اور کمیشنوں کے قیام سے بھی پاکستان اور یوکرین کے دوطرفہ تعلقات پر مثبت اثر پرے گا۔
ان کوششوں سے نہ صرف دونوں ممالک مزید قریب آئیں گے بلکہ ان کی معیشتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ جنوری 2011ء میں یوکرین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اسی برس جون میں دونوں ممالک کے درمیان دہرے ٹیکس سے بچاؤ کا معاہدہ بھی عمل میں آیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔