صرف سکہ ہی نہیں ہمارا نرخ بھی گر چکا ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 14 نومبر 2012
barq@email.com

[email protected]

سارک کانفرنس فورم بھی وہی تھی اس کی مدار المہام اجیت کور بھی وہی تھی سب کچھ وہی تھا اگر نہیں تھا تو کانفرنس میں پاکستانیوں کا ’’نرخ‘‘ وہ نہیں تھا۔

بھوپال کانفرنس میں اگر یہ نرخ ایک روپے تھا تو اب ’’ٹکے سیر‘‘ تک آ گرا تھا، بیچ میں لکھنو کانفرنس میں یہ نرخ کیا تھا وہاں تو نہیں جا سکے تھے حالانکہ ویزہ وغیرہ لگ چکا تھا، ارادہ بھی وہی تھا لیکن ایک روز پہلے ہی کچھ اپنی وجوہات آڑے آ گئیں، لیکن آنے والوں سے یہ ضرور سنا کہ پاکستانیوں کے نرخ میں مندی کا رجحان تیز تھا لیکن اب امرتسر میں تو یوں لگا کہ

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
حتیٰ کہ بھارتی جو مختلف شہروں سے آئے تھے وہ
بھی وی آئی پی ٹریٹمنٹ ہو رہے تھے اور پاکستانی یہاں وہاں سرائے نما ہوٹلوں میں رُل رہے تھے

محرمِ رازِ دلِ شیدائے خود
کس نمی بینم زخاص و عام را

سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں تھا ممکن ہے اس میں کہیں نہ کہیں فنڈ کی کمی بھی باعث ہو لیکن سارک کے زیراہتمام دوسری کانفرنسوں میں تو ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اس قسم کی بین الاقوامی تقریبات میں تو مہمان باقاعدہ ہوائی جہازوں سے لائے لے جاتے ہیں اس میں بھی دوسرے ممالک کے لوگ ہوائی جہازوں ہی سے آئے تھے صرف پاکستانی ہی تھے جو ان تینوں کانفرنسوں میں واہگہ کے راستے ریلوں میں رُل گئے تھے حالانکہ ان میں ایسے بھی تھے جو کراچی سے اپنے پلے سے خرچ کر کے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچے تھے، کسی سفر خرچ معاوضے یا اعزازیئے کا بھی کوئی تکلف نہیں تھا خود ہی پتہ پوچھ پوچھ کر ہوٹل پہنچنے کا اور ہوٹل سے خود ہی سی آف ہونے کا بھرپور انتظام تھا۔

اگر کسی نے کمرے میں کچھ چائے وغیرہ منگوانے کی غلطی کی تھی تو اس کی باقاعدہ وصولی ہوئی، ایک مرتبہ پھر وہی سوال کہ آخر پاکستانیوں کی اس ناقدری بلکہ کسی حد تک تضحیک کی وجہ کیا ہے؟ پہلی نظر میں تو ہم اسے تعصب اور تعلقات کی ناہمواری کا نتیجہ قرار دیں گے لیکن اصل بات یہ نہیں ہے اگر ہوتی تو ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے یا اپنا قصور گردان کر چپ ہو جاتے کہ

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

لیکن اصل بات کھوجی تو یہ پتہ چلا کہ:

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا،
خود پاکستانیوں نے اپنے آپ کو اتنا زیادہ
’’دستیاب‘‘ بلکہ مفت کر لیا تھا کہ ’’بلاوے‘‘ کے بغیر بھی جانے کو تیار بیٹھے تھے ایک پشتو ٹپہ ہے کہ

’’میں خود ہی چل کر جاناں کے پاس چلی گئی اور وہ جو میرا قدر دان تھا اس کی نگاہوں میں اپنی قدر کھو بیٹھی۔‘‘

ہوا یوں کہ اس مرتبہ ایک نئی خاتون میدان میں اپنا علم لہرا کر کود پڑی تھی اور عائشہ زی خان کی کوآرڈینیشن کا تختہ الٹ کر یہ منصب حاصل کرنا چاہتی تھی۔ نام کو چھوڑیئے کام پر دھیان دیجیے ضرورت کے لیے ہم اسے ’’مفتن‘‘ کا نام دیتے ہیں جو ’’مفت‘‘ میں بھی سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھیں، یوں کہیے کہ اپنے وقت کی مرزا غالب ہیں کہ

سرمہ مفت نظر ہوں میری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پر احسان میرا

اس مفتی مفتن صاحبہ کو ہم نے دیکھا پوری کانفرنس میں اپنے تعلقات کو گہرا اور وسیع کرنے کے لیے چھلاوے کی طرح پھرتی تھیں اجیت کور کو پکڑ کر یہاں وہاں راز دارانہ کھسر پھسر اور باقی منتظمین و مندوبین کے ساتھ فوٹو سیشن اور اپنے آپ کو ہر جگہ حاضر و ناظر رکھنے کا عمل کچھ زیادہ گرم جوشی سے دکھا رہی تھیں، مفتوں کے خاندان مفت سے تعلق رکھنے والی اس مفتن نے کوآرڈینیٹر بننے کے چکر میں یہ دیکھا ہی نہیں کہ پاکستانیوں کا نرخ کتنا گر رہا ہے۔

پاکستان میں یوں بھی ایسے لوگ بے شمار ہیں جو یوں تو ترانوں، مِلّی نغموں اور مضامین وغیرہ میں اپنی تقریروں اور تحریروں میں اور بیانوں ایوانوں میں بھارت کی ایسی تیسی کرنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن عملاً بھارت یاترا کو دونوں جہانوں کی سعادت سمجھتے ہیں اور ایک عرصہ ہوا ہے اپنا قبلہ بدل کر ’’موم بائی‘‘ بنا چکے ہیں وہاں کی ہر ہر چیز سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ یہاں وہاں کوئی نہ ہو تو سر آنکھوں سے لگا کر دل کی لگی بجھا لیتے ہیں خصوصاً پاکستان پر حکومت کرنے والے طبقہ شرفا کی اولادیں تو اس معاملے میں اتنی اتاؤلی ہو رہی ہیں کہ اپنا سب کچھ تیاگ کر بھی وہاں کی ’’زیارتوں‘‘ کا شرف حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ہماری یہ محترمہ مفتن اسی طبقے کی نمایندہ ہیں چنانچہ وہ ہر قیمت پر اجیت کور اور منتظمین کا دل جیت کر اور کوآرڈینیشن کا تاج پہننا چاہتی تھیں جب کہ اس کے مقابلے میں عائشہ زی خان ایک سیدھی مخلص اور محنتی خاتون تھیں وہ کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جینوئن لوگوں کو ایسی کانفرنسوں میں لے جا سکیں۔

اب یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ کسی بھی فیلڈ کے اوریجنل اور جینوئن لوگ خود کو کسی قیمت پر ارزاں نہیں کرتے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو باعزت طریقے سے بلائیں اور قدر و منزلت دیں، جب کہ اندر سے خالی لوگ ایسے مواقعے پر مختلف لیبل لگا کر خود ہی کو چمکدار ٹیپوں سے سجا کر پیک کیے ہوئے رہتے ہیں اور جہاں کہیں ضرورت ہوتی ہے لیبل بدل کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں چنانچہ مشاعرہ ہو تو وہ شاعر ہوتے ہیں، صحافت کا سلسلہ ہو تو صحافی بن جاتے ہیں، صوفی کانفرنس ہو تو صوفی ہو جاتے ہیں۔

ترقی پسند اہل قلم کا سلسلہ ہو تو ترقی پسندی کا ٹھپہ اپنے اوپر لگا دیتے ہیں حتیٰ کہ مذہبی کانفرنسوں میں ’’علماء‘‘ اور اسکالر بھی بن جاتے ہیں، اور اب تو ایسے لوگوں بلکہ یوں کہئے کہ مفت کے امرت دھاروں کو مفتی مفتن صاحبہ کی سربراہی بھی میسر آ گئی ہے جو خود بھی لگ بھگ بارہ درجن علوم و فنون میں مہارت تامہ رکھتی ہیں، اجیت کور بڑی فیاض اور ذہین و فطین عورت ہے وہ سمجھ گئی ہے کہ پاکستانی ہر لحاظ سے دستیاب بلکہ مفت میں دستیاب لوگ ہیں ویسے بھی ایسی کانفرنسوں میں ہوتا ہی کیا ہے

پئے مشورہ مجلس آراستند
نشستند و گفتند و برخاستند

ایک کانفرنس ہال میں دو تین خال خال بیٹھے بلکہ اونگھتے ہوئے لوگوں کو کیا پتہ کہ کس نے اپنی زبان میں کیا کہا کیوں کہ سننے والے اور سنانے والے ایک ہی ہوتے ہیں بلکہ اس مرتبہ تو ہم نے دیکھا کہ کانفرنس ہال بلکہ ’’خال‘‘ میں وہ مندوبین بھی آدھے سے کم ہوتے تھے جو اپنے مقالے سنانے ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے تھے، بہرحال اس مرتبہ ہم جو تاثر لے کر آئے وہ یہ ہے کہ شاید آیندہ کانفرنس میں کوئی بھی اصل یا اوریجنل پاکستانی نہیں ہو گا، سارے کے سارے وہی امرت دھارے اور مفتی ہوں گے جو ہر قیمت پر بھارت یاترا کو جزوِ ایمان سمجھ کر کسی بھی حالت یا صورت میں جانا چاہتے ہیں۔ خلاصہ اس کلام کا یہ ہے کہ وہاں اگر پاکستانیوں کا نرخ گرتے گرتے ٹکے سیر تک آ گیا ہے تو اس میں ہم بھارتیوں کو الزام کیوں دیں کیوں کہ دوسرے ممالک کے مندوبین کو وہ وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ عرصہ پہلے تک دیتے رہے ہیں کوئی خود ہی اپنے آپ کو سستا کر لے تو اس کا کیا علاج۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔