فنون سے بیاض تک۔ خالد احمد

امجد اسلام امجد  جمعرات 2 جون 2016
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کچھ عرصے سے مرحومین کی برسی کے بجائے سال گرہ کا دن منانے کا جو رواج عام ہوا ہے وہ اس اعتبار سے بھی بہت بامعنی ہے کہ اس کے ذریعے سے اس کے ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں میں ایک طرح سے اس کی موجودگی کا احساس زندہ ہو جاتا ہے اور اقبال کے اس شعر کے معنی مزید واضح ہو جاتے ہیں کہ

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

تین جون 2016 کو خالد احمد 73 برس کا ہو جائے گا، کہنے کو اسے اس عالم فانی سے پردہ کیے تیسرا برس ہے لیکن اپنے لکھے ہوئے خوب صورت اور دیرپا لفظوں کی بدولت وہ آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ نقادوں اور ادبی حلقوں کی درجہ بندیوں میں کون کس مقام کا حامل ہے؟

یہ بحثیں عام طور پر لاحاصل اور بے مقصد ٹھہرتی ہیں کہ اصل منصف تو وہ بے رحم اور منصف مزاج وقت ہے جو کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور یوں بھی وقتی‘ موضوعی‘ حادثاتی‘ طبقاتی یا میڈیاتی شہرت کے معیار بدلتے رہتے ہیں اور ان کی بنیاد پر کسی اہل ہنر کے مرتبے کو متعین کرنا خاصا مشکل کام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام اچھے اور عمدہ تخلیقی فن کار ملا جلا کر فرسٹ ڈویژن کی حد ضرور کراس کر جاتے ہیں، استثنائی صورتوں میں کبھی کبھار کسی کی ڈگری (اصلی اور تصدیق شدہ) جاری ہونے میں ضرورت سے کچھ زیادہ وقت لگ جاتا ہے مثال کے طور پر نظیر اکبر آبادی اور مجید امجد کا نام لیا جا سکتا ہے۔

خالد احمد کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا وہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ایک خوش گو اور فنی اعتبار سے غیرمعمولی دسترس کے حامل شاعر کے طور پر ابھرا اور پھر اپنی وفات تک اپنے عہد کے ادبی منظر کا ایک نمایاں حصہ اور کردار رہا اس کی پیدائش لکھنؤ کی تھی لیکن اس کی عمر کا بیشتر حصہ نسبت روڈ لاہور کے اس مکان میں گزرا جہاں وہ اپنی دو نامور قلم کار بہنوں خدیجہ مستور اور حاجرہ مسرور کے سائے میں پل کر بڑھا ہوا۔ ایک عرصے تک اسے اس گھر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی صحبت بھی میسر رہی جس کا سلسلہ دونوں کے مرتے دم تک جاری رہا۔ اس کا ادبی سفر بھی قاسمی صاحب کے ’’فنون‘‘ کے ساتھ شروع ہوا کوئی بیس برس قبل اس نے اپنے برادر نسبتی عمران منظور کے ساتھ مل کر ماہنامہ ’’بیاض‘‘ کا اجرا کیا جو قاسمی صاحب کی تربیت اور خالد احمد کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایسا بین اظہار ہے کہ نہ صرف اس کی زندگی میں بلکہ آج تک بھی اس کے ہر صفحے پر اس کی مہر ثبت دکھائی دیتی ہے۔

خالد احمد ایک مجلسی اور ڈیرے دار آدمی تھا یہ اور بات ہے کہ اس کے معاشی وسائل کبھی بھی ڈیرہ داروں جیسے نہیں رہے لیکن اس کا دل بہت بڑا تھا اس کی شخصیت کی ترتیب کا سارا حسن اس کی بے ترتیبی میں تھا اس کا لباس‘ نوکری‘ ادبی محفلیں‘ تنظیمیں اور اٹھنے بیٹھنے کی جگہیں سب کی سب اسی مخصوص نوع کی بے ترتیبی کا مظہر تھیں لیکن اپنی گھریلو زندگی اور رشتوں کو نبھانے کے معاملے میں وہ ایک بہت نفیس‘ محبتی اور ذمے دار انسان تھا محفلوں میں ہمہ دم چہکنے اور ہر بات کو چٹکیوں اور قہقہوں میں اڑا دینے والا خالد احمد اپنے دوستوں اور پیاروں کے معاملات میں انتہائی جذباتی اور سنجیدہ تھا جن احباب کو وہ اپنے مخصوص جارحانہ اور غیرمرتب انداز میں پریشان کر رہا ہوتا تھا انھی کے بچوں کے ساتھ ایسی محبت سے پیش آتا تھا کہ شفقت پدری کا زندہ اور مثالی نمونہ بن جاتا تھا۔

میرا اس کا تعارف 1965 میں اس وقت ہوا جب میرا زیادہ وقت دیال سنگھ کالج کی گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے اور اس کی شامیں اسی کالج کے نواح میں واقع ایک عوامی ڈھابے المعروف ترک ہوٹل میں کٹا کرتی تھیں ہم دونوں اور ہمارے بیشتر رفقا لڑکپن سے جوانی کے دور میں داخل ہو رہے تھے ’’فنون‘‘ تک تو ابھی ہماری رسائی نہیں ہوتی تھی لیکن ادبی محفلوں‘ شخصیتوں اور چند ادب دوست سینئرز سے ملنا جلنا شروع ہو گیا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے حفیظ تائب‘ بشیر منذر‘ گوہر ہوشیار پوری‘ اختر حسین جعفری‘ شہزاد احمد‘ عدم صاحب اور ظہیر کاشمیری سے اولین تعارف اسی زمانے میں ہوا تھا۔ نجیب احمد ان دنوں بھی خالد احمد کا دست راست تھا۔ خالد کی پنجابی زبان پر گرفت ایسی تھی کہ اس پر اہل زبان بھی رشک کریں جب کہ عشق رسولؐ ‘ تصوف اور فلسفے سے رغبت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ وہ سائنس کا طالب علم بھی تھا یعنی وہ اس زمانے میں بھی یگانہ کے اس شعر کا قائل نہیں تھا کہ

کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا

قاسمی صاحب کی شفقت اور رہنمائی اسے فنون کے صفحات تک لے آئی اور پھر قاسمی صاحب کی وفات تک خالد اور فنون لازم و ملزوم کی طرح جیے اور بڑھے اسی دوران میں وہ واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ میں ملازم ہوا اور پھر وہیں سے ریٹائرمنٹ بھی لی۔ یہ تسلسل اس کی بے چین فطرت اور مزاج کے طبعی تلون کے باعث آج بھی میرے لیے باعث حیرت ہے۔ فنون کی برادری میں ہم نے تقریباً نصف صدی ایک ساتھ گزاری ہے اور یہ تعلق ہماری ذاتی‘مجلسی اور گھریلو زندگیوں تک پھیلا ہوا تھا کہ ہم خونی رشتہ داروں کی طرح ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے پھر یہ ہوا کہ میں فلیمنگ روڈ لاہور سے پہلے گڑھی شاہو اور پھر جی او آر تھری سے ہوتا ہوا ڈیفنس میں آ گیا اور خالد احمد نے جوہر ٹاؤن میں گھر بنا لیا لیکن یہ مکانی فاصلے کبھی بھی ہماری محبت اور دوستی میں حائل نہ ہو سکے خالد کی پہلی کتاب نعتیہ عقائد پر مشتمل ایک مجموعہ ’’تشبیب‘‘ تھی جب کہ آخری مجموعہ نظموں اور غزلوں کی کتاب ’’نم گرفتہ‘‘ تھی۔

اس سارے سفر میں اس کا گراف ہمیشہ ترقی اور استقامت کا نمونہ رہا وہ محبتیں بانٹنے والا شخص تھا ہم نے بہت سے ملکی اور غیر ملکی سفر بھی اکٹھے کیے ہیں جن کی روداد ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہے۔ ماہنامہ بیاض اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور مزاج کی تنوع پسندی کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جسے عزیزان گرامی عمران منظور‘ نعمان منظور‘ نجیب احمد‘ اسد احسان‘ اعجاز رضوی اور اس کا بیٹا اور ہمارا بھتیجا جاہد احمد اسی اہتمام سے جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ہر سال اس کی سالگرہ کے موقع پر ’’بیاض ایوارڈز‘‘ کے ساتھ ساتھ کسی ادبی شخصیت کو ایک لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی پیش کرتے ہیں۔ اب تک یہ اس کے تین قریبی دوستوں یعنی روحی کنجاہی‘ عطاء الحق قاسمی اور مجھے دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں اس بہت خوب صورت ’’اقربا پروری‘‘ کو جاری رہنا چاہیے کہ اپنے کسی مرحوم اور عزیز دوست سے منسوب یہ تحفہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ وہ آج بھی ہم کو اسی طرح سے Ownکررہا ہے جیسے اپنی زندگی میں کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔