گاڑی چلانے کے پاکستانی آداب

سید معظم حئی  جمعـء 17 جون 2016
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

آپ کے دائیں جانب والی سڑک کی لین پہ ہوکا عالم ہے۔ ایک گاڑی نظر توآرہی ہے مگرکہیں دور پیچھے۔ اب آپ دنیا سے نرالی ایک عجیب حرکت کر بیٹھتے ہیں یعنی آپ اپنی دائیں جانب والی لین پہ آنے کے لیے انڈیکیٹر دے ڈالتے ہیں۔ لین بدلتے ہوئے انڈیکیٹر دے دینا ! ارے! ارے! یہ آپ جانے انجانے میں کیا کر بیٹھے۔ دائیں والی لین پرکہیں دور آرام آرام سے خراماں خراماں آتے شخص کی آپ کے اس کی ’’آبائی ملکیت‘‘ دائیں جانب والی لین پرآنے کا ارادہ دیکھ کر جان پہ بن گئی ہے، یوں سمجھیے کہ جیسے آپ نے اچانک ہی اسے زندگی و موت کی سنگین کشمکش میں مبتلا کردیا۔

آہ! آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایک غیور پاکستانی بھلاکسی انسان کواس کے راستے کا حکم کیسے دے سکتا ہے؟ کیسے کسی کو ٹھنڈے پیٹوں خود سے آگے نکلتا دیکھ سکتا ہے؟ ذرا دیکھیے یہ کیسا بے چین ہوگیا ہے،گاڑی کی رفتاراس نے اچانک تقریباً دگنی کردی ہے، ہیڈ لائٹس مسلسل بلنک یعنی جلا بجھا رہا ہے اور ہارن مسلسل بجا رہا ہے۔ کسی انسان کو اس کے راستے کا حق مل جائے یہ ناقابل تلافی نقصان یہ ناقابل برداشت صدمہ یہ کیسے جھیل پائے گا۔ یہ تو آپ نے سیدھا سیدھا اس کی آتش گیر غیرت کو بھڑکا دیا ہے۔

اب اس کی جان توڑ کوشش ہے کہ آپ کو اس خالی دائیں لین پہ آنے سے کسی بھی طرح روک ڈالے۔ پاکستانی عوامی غیرت ڈکشنری میں کسی کو راستے کا حکم دینا، ایک قابل مذمت ناقابل تصور گناہ ہے۔ موٹرسائیکل، اسکوٹر، چنگ چی، سی این جی رکشہ، ٹیکسی، کار، ٹرک، پک اپ، بس، منی بس، گاڑی کوئی بھی ہو، امیر،غریب، پڑھے لکھے جاہل، ان پڑھ جاہل، سرکاری، غیر سرکاری، ڈرائیورکوئی بھی کیوں نہ ہوں، ماریں گے، مرجائیں گے مگر کسی دوسرے کو راستہ نہ دیں گے۔  مجال ہے کہ وہ آپ کو راستے کا حق دے جائیں لہٰذا آپ دم دبا کے اور سر جھکا کے ہر حال میں انھیں پہلے نکل جانے دیں کیونکہ ہر حال میں حق پہ ہونے کے ان کے چٹانی یقین کا مقابلہ کرنا آپ توکیا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔

مگر جناب! بات یہاں ختم نہیں ہوتی، پاکستان میں گاڑی چلانے کے آداب میں ’’غیرت‘‘ کے علاوہ ’شان‘‘ کا بھی ڈرائیونگ رول ہے۔ مثلاً آپ کسی اندرونی سڑک یا گلی میں گاڑی چلارہے ہیں اور سامنے سے یعنی آپ کی دوسری سمت سے ایک اورگاڑی چلی آرہی ہے۔ اب چاہے اس گاڑی کے بائیں جانب کتنی جگہ ہی خالی کیوں نہ ہو اس گاڑی کا غیور ڈرائیور اپنی پوری جان سے کوشش کرے گا کہ آپ کی گاڑی پہ اپنی گاڑی چڑھا ہی ڈالے تاکہ آپ کو آپ کی جگہ سے ہٹا کر زیادہ سے زیادہ سڑک گھیر سکے یہ اس کی ’’شان‘‘ کا تقاضا ہے۔

ویسے بھی زیادہ سے زیادہ گھیرنا تابندہ پاکستانی روایات کا درخشندہ حصہ ہے چاہے یہ سرکاری مال ہو،کسی کمزور کا پلاٹ یا سڑک و گلیاں۔ بالکل اسی طرح انڈیکیٹر یعنی اشارہ دے کر مڑنا ایک سچے پاکستانی کی شان کے خلاف ہے۔ اشارہ دے کر مڑنے کا مطلب ہے کہ آپ نے دوسرے کا خیال کردیا اور دوسروں کا خیال کرنا توبہ توبہ یہ کیسی بے سروپا بات ہے، لیکن یاد رکھیے یہ شان تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک آپ اکثر و بیشتر گاڑی قانون کے خلاف یعنی غلط سمت پہ نہیں چلاتے۔ بلکہ یہ کرنے سے آپ کی شان ڈبل ہوجاتی ہے، نمبر ایک قانون توڑنا جوکہ ایک خالص پاکستانی VVIP ادا ہے، نمبر دو آپ کی طاقت و ہیبت ورعب و دبدبے کی زندہ وجاوید علامت۔ اگر ٹریفک پولیس والا کہیں غلطی سے آپ کو روکنے کی کوشش کر بیٹھے تو بے شک بے دھڑک بھڑجائیں۔ سڑک روک کے احتجاج کریں ٹی وی نیوزچینل آپ کے ساتھ ہیں۔ سامنے صحیح سمت سے آنے والوں سے پورے دھڑلے سے الجھ جائیں۔

اپنی غلطی نہ ماننا اور الٹا آنکھیں دکھانا ہی دراصل ایک اصلی پاکستانی کی اصلی نشانی ہے اور اگر آپ سڑکوں پہ دندناتے کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر توکوئی حد آپ کے لیے حد نہیں۔ مثلاً آپ موٹرسائیکل چلانے والے ہیں، بس جہاں چاہیں، جیسے چاہیں، الٹی سیدھی، یہاں، وہاں موٹر سائیکل دوڑائیں،گاڑیوں سے رگڑ لگائیں، انھیں ٹکریں ماریں،گاڑی والا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ سیکنڈوں میں ہی آپ کے درجنوں موٹرسائیکل بھائی جمع ہوجائیں گے اورآپ کی کتنی ہی بڑی اورکھلی غلطی کیوں نہ ہو یہ سارے جوشیلے موٹرسائیکل برادران ساتھ آپ ہی کا دیں گے۔

ادھر ہمیں بچپن سے سکھایا گیا کہ سڑک پارکرتے وقت دونوں جانب خصوصاً جس طرف سے ٹریفک آرہا ہے اس طرف دیکھیں مگر اب ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ سڑک پار کرنے والا آنے والے ٹریفک کے بجائے اس کے دوسری طرف دیکھتے ہوئے مٹک مٹک کر سڑک کراس کرتا ہے۔ غورکیا تو سمجھ میں آیا کہ دراصل سارا معاملہ شان کا ہے۔ چھوٹے آدمیوں کی شان چیزوں اور چھوٹی باتوں میں ہوتی ہے تو پھر بس یہ قدرتی امر ہے کہ ہمارے ہاں کئی کئی درجن گاڑیوں کے قافلے میں چلنے والا میگا کرپٹ VVIP سے لے کر منہ دوسری طرف کیے سڑک پار کرنے والوں تک شان کی طغیانی و فراوانی نظر آتی ہے۔

شان و شوکت وغیرہ وغیرہ کے ساتھ آپ کو پاکستان میں گاڑی چلانے کے دوسرے کم و بیش لاتعداد آداب کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ آپ بھری سڑک پہ نکو بن جائیں گے۔ مثلاً ایمبولینس کو ہرگز راستہ نہ دیں ہاں اگرکوئی ایمبولینس آگے جا رہی ہو تو اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا کر جلدی نکلنے کی کوشش ضرورکریں۔ سڑک کے بیچ گاڑی خراب ہوجائے تو اسے دھکا لگا کر سائیڈ پہ کرنے کی غیر ضروری غلطی ہرگز نہ کریں، اسے وہیں بیچ سڑک کھڑا رکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ تکلیف اٹھائیں اورکتنا مزا آئے، ہے ناں۔ ٹریفک سگنل توڑنے کے لیے بنے ہیں تاہم اگرکبھی آگے والے ڈرائیور کی بے جا حماقت سے آپ کو سرخ سگنل پہ رکنا بھی پڑے تو سگنل سبز ہونے سے پہلے ہی ہارن بجا بجا کرآسمان سر پہ اٹھالیں،آپے سے باہر ہوجائیں اوراگر سب سے آگے کھڑے ہیں تو سگنل کھلنے سے پہلے ہی رینگتے رینگتے چوراہے کے بیچوں بیچ پہنچ جائیں۔ یہ دو تین سیکنڈ کا انتظارآپ کے اور آپ کے دوسرے باشعور پاکستانی بھائی بہنوں کے لیے سوہان روح ہے۔

شہرکی سڑکوں پر ریس لگانا ہمارا قومی کھیل ہے،کوئی آگے نکلنے کی جرأت جوکرے تو آؤ دیکھیں نہ تاؤ ریس لگا دیں زیادہ سے زیادہ کوئی آپ کی گاڑی کے نیچے ہی آجائے گا ناں، آپ کے پاس بس مال پانی ہونا چاہیے۔

گاڑی چلانے کے پاکستانی آداب بے شمار ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دوسروں کا خیال کرنا گناہ ہے، کسی بھی معاشرے کی اخلاقی حالت آپ کو ایک نظر میں پتا لگانی ہو تو ایک نگاہ وہاں کی سڑکوں پہ ڈال دیں، اپنی سڑکوں کو تو دیکھا نہیں جاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔