ہالی ووڈ کے عمرشریف کو اپنی فلم میں کام پر آمادہ کرلیا تھا لیکن۔۔۔

غلام محی الدین  اتوار 3 جولائی 2016
میکالے نے غزل کی تباہی کے لیے نیچرل ازم کی مہم چلوائی اِس میں حالی اور آزاد نے بھی زور لگایا  ۔  فوٹو : فائل

میکالے نے غزل کی تباہی کے لیے نیچرل ازم کی مہم چلوائی اِس میں حالی اور آزاد نے بھی زور لگایا ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  ایکسپریس: شاعری الہام ہوتی ہے یا کوئی سیچوائشن اسے جنم دیتی ہے؟
سرمد صہبائی: دونوں ہی شاعری کے ماخذ ہیں لیکن شاعری کا اصل ماخذ ایک ہی ہے، جس کو یوں بیان کیا گیا ہے ’’آتے ہیں غائب سے یہ مضامین خیال میں‘‘۔اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ شاعر بھی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے، وہ بھی عام آدمی کی طرح کھاتا پیتا، سوتا جاگتا اور دیگر کام کاج کرتا ہے لیکن اُس کی زندگی میں ان سب کاموں کے درمیان،کچھ جگہیں خالی ہوتی ہیں، جہاں وہ تخلیقی واردات سے ہم کنار ہوتا ہے، یہ ہی وہ لمحے ہوتے ہیں، جب وہ سوسائٹی سے کٹ جاتا ہے۔

اُس وقت وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو اپنے تخیل کے دائرے میں لا کر انہیں اپنے ارادے اور سوچ کے مطابق محسوس کرسکتا ہے، تخیل کے دائرے میں کسی بھی تخلیق کار کی سیر و سیاحت بہت وسیع ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس سیر کے دوران شاعر کو عدم یعنی Nothingness میں اُترنا پڑتا ہے۔ اس سیاحت کے بغیر تخلیق کی کوئی صورت سامنے نہیں آسکتی۔جو اس کے بغیر ہوگئی وہ تخلیق نہیں ہوگی۔ تخلیق کا عمل تو شروع ہی عدم سے ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو ہم غار اور روشنی سے بھی واضح کر سکتے ہیں مثلاً ہمارے سامنے غار میں جس طرح روشنی داخل ہوتی ہے، اسی طرح الہامی کیفیات داخل ہوتی ہیں۔ غار یہاں عدم کی شکل ہے، تو روشنی تخلیق؛ روشنی وہیں اترے گی، جہاں خلاء ہوگا،وہیں عدم ہوگا۔

ایکسپریس: شاعر ہونے کے لیے کتنے شعری مجموعے لازمی ہیں؟
سرمد صہبائی: دنیا میں بہت سے معروف شاعر ایسے ہیں، جنہوں نے صرف ایک شعر کہا اور وہ شاعر کہلائے ۔مجموعوں کی بات کریں تو عمرخیام اپنی رباعیوں کے ایک مجموعے سے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اسی طرح غالب کا صرف ایک مختصر سا دیوان ہے لیکن وہ اردو شاعری پر حکومت کررہا ہے۔ شاعری ٹنوں یا منوں کے حساب سے نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ میلوں یا کلومیٹروں میں ناپی جاتی ہے۔ بہت زیادہ مجموعے شائع ہو نے سے بھی کوئی شاعر نہیں بن جاتا۔ شاعری کے لیے تو شعر کا اچھا ہونا لازم ہے، اس کی مثال ہیر وارث شاہ کا کلام ہے، اُس کے ہر شعر میں ندرت ہے۔

ایکسپریس: تخلیقی عمل کے لیے آمد اورآورد کے بارے میںکیا کہیں گے؟
سرمد صہبائی: آمد، آورد کے بغیر ممکن نہیں؛گو کہ آورد کا تعلق شعوری سطح سے ہوتا ہے اورآمد اس سے بالکل الگ شے ہے۔ آمد، الہام کی ایک شکل ہے لیکن اس کو تخلیق کار اپنے حسب، نسب یا کسب سے پیدا نہیں کر سکتا جب کہ آورد ایک کرافٹ ہے، جو ریاضت کے ساتھ مزید نکھرتی ہے۔ اب جس کے پاس کرافٹ یعنی آورد نہیں، وہ اپنی آمد کو بیان کرنے سے قاصر ہوگا، اس لیے دونوں ہی ضروری ہیں۔

ایکسپریس: شاعری قادر الکلامی کانام ہے یا نادر الکلامی کا؟
سرمد صہبائی: سچ پوچھیں تو اصل شے نادرالکلامی ہی ہے، دنیا میں بہت سے قادرالکلام شاعراپنے عہد میں معروف ہوئے، مگربعد میں گم نامی کی غاروں میں کھو گئے۔ قادر الکلامی کا مطلب ،کلام پر قادر ہونا ہے، یہ عمل آمریت کی طرح ہے، اس میں ایک شاعر اپنے کلام پر سوار نظر آتا ہے لیکن اپنے لفظوں سے یا خیالات سے اُس کا عشق سامنے نہیں آتا، جب تک شاعر لفظوں سے عشق نہیں کرتا، بات نہیں بنتی۔

میرے خیال میں لفظوں پر شاعر کو حکم نہیں چلانا چاہیے، قادر الکلام شاعر کازبان و بیان پر بہت زور ہوتا ہے، جب کہ شعری واردات مکمل طور پر التوا کا شکار ہوتی ہے ۔یوں قلبی واردات دب جاتی ہے اور سامنے صرف الفاظ کا پُرشکوہ مینار رہ جاتا ہے۔ یہ شوکتِ الفاظ ہے، اس میں گھن گرج ہوتی ہے لیکن احساسات سے گزرنے کا تجربہ نہیں ہوتا ۔ مثلاًمیر تقی میر احساسات کا شاعر ہے، آپ اُس کی واردات کومحسوس کر سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، جب کہ غالب کے ہاں اِس طرح کا تجربہ ممکن نہیں،وہاںتخیل کی پرواز بہت بلند ہے۔ غالب اپنی پرواز سے پڑھنے والے کو حیران کر دیتا ہے، اکثر یہ پرواز انسان کے امیج سے ہی باہر ہوجاتی ہے۔ غالب انسانی رشتوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی دانش یعنی انٹلیکٹ کی پرواز پر قادر ہے۔

ایکسپریس: آپ کا مطلب ہے کہ غالب قادر الکلام شاعر ہے؟
سرمد صہبائی: غالب کے علاوہ بہت سے قادر الکلام شاعر گزرے ہیں۔ قادرالکلام اپنی شاعری میں اگرصرف قادر الکلامی پر زوردے تو یہ غلط ہے، مثلاً جوش قادرالکلام شاعر تھے، علامہ اقبال کے سامنے بھی لفظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ قادر الکلامی خوبی ہے لیکن نادر الکلامی دوسری شے ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک شاعر خود احساسات میں بھیگ کر نُچڑ نہیں جاتا، اُس کے کلام میں ندرت نہیں آتی۔

یہاں بھیگنے کا مطلب ہے کہ شاعر کے الفاظ پڑھنے والے اور شاعر کے درمیان کھڑے ہو جائیں اور الفاظ کہیں کہ آپ شاعر کو چھوڑدیں، مجھے محسوس کریں۔ ان بھیگے لفظوں کو کھولنے کا تردد نہیں کرنا پڑتا، یہ خود بخود کُھلتے اورکیفیات میں ڈھلتے ہیں۔ ان لفظوں کو جوں ہی ادا کیا جائے یہ فوراً سننے والے کو ایک کیفیت میں لے جاتے ہیں جب کہ قادرالکلام شاعرکے لفظ اپنی شان و شوکت کے ساتھ انسانی بصارت اورسماعت کو خیرہ کردیتے ہیں، آخر کار یہ ہی لفظ پڑھنے، سننے والے اور شاعر کے درمیان دیوار بن جاتے ہیں۔

ایکسپریس: دورانِ تخلیق سرور کی کیفیت تخلیق کو آگے بڑھاتی ہے یا ختم کر دیتی ہے؟
سرمد صہبائی: تخلیق پہاڑ میں چھپی ہوئی کوئی کان نہیں کہ اُس میں سے تمام معدنیات نکال لیں تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ تخلیق تو ایک ایسا عمل ہے، جو موت تک جاری رہتا ہے، یہ عمر کے کسی بھی حصے میں شروع ہو سکتا ہے۔ شاعری میں نشاطِ شعر کا نشہ وہ شے ہے، جوکبھی ختم نہیں ہوتا۔یہ وہ نشہ ہے جو پڑھنے یا سننے والے میں بھی منتقل ہوتا ہے۔

ہم یہاں اچھی شاعری کی بات کر رہے ہیں، اسی طرح بُری شاعری وقتی طور پر تو بہت سرور دے سکتی ہے لیکن جب وہ بجھ کر راکھ ہوتی ہے، تو ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے، مثلاً بہت بڑے شاعر اپنے عہد میں ممتاز اور معروف تھے لیکن چند سال بعد گم نامی کی وادیوں میں جا اترے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے عہد کی مارکیٹنگ کے حساب سے چل رہے تھے، وہ اپنے سننے اور پڑھنے والوں کو خوش کرتے کرتے، اپنی تخلیق کے ساتھ خود بھی مر مٹ گئے، جب کہ تخلیق مٹا نہیں کرتی۔ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ صرف پچاس سال بعد ان کی’’آڈیئنس‘‘ نے بدل جانا ہے اوراس کے ساتھ ہی اُن کی شاعری نے بھی مرجانا ہے۔ اُن کی شاعری نئی آڈیئنس کے لیے تھی ہی نہیں، اس لیے وہ آگے نہیں بڑھی۔ پاپولر شاعری کا یہ ہی المیہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس: کیا خود کلامی بھی تخلیق ہے؟
سرمد صہبائی: یہ تو طے ہے کہ شاعری ہے ہی خود کلامی۔ وسیع معنوں میں لیں تو تخلیقی ادب سارے کا سارا خود کلامی ہے۔ اعلیٰ ادب میں تخلیق کار کی خود کلامی کا مخاطب ایک زمانہ نہیں ہر زمانہ ہوتا ہے۔میر کی شاعری اس کی عمدہ مثال ہے، مثلاً اگر میں لوگوں کو مخاطب کرکے شعر لکھوں تو وہ شاعری نہیں،خطاب ہو گا، مثلاً اُٹھو! چل پڑو! جنگ لڑو! شاعری میں اس طرح کی سوچ، شعریت کے بجائے خطابت کا درجہ رکھتی ہے، بہت معذرت کے ساتھ علامہ صاحب نے جو یہ کہا ہے ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘‘ خطابت ہے۔

اگر شاعر نے اپنا مخاطب چن لیا تو جان لوکہ مخاطب کل بدل جائے گا، آج کسی کو میری شاعری پڑھ کر بہت سرور مل رہا ہے تو کل کو یہ سرورنہیں ہوگا؟ ایسے میں میری شاعری کہاں جائے گی؟ کس کے لیے ہوگی؟ اگر میری شاعری آنے والے زمانے کے انسان سے مخاطب ہونے کی اہل ہے، تو وہ زندہ رہے گی، ورنہ۔۔۔۔۔؟ زندہ شاعروں میں غالب اور میر اور دیگر شاعر اس کی بہترین مثال ہیں۔ ایسے شاعر کبھی بھی ’’تھے‘‘ نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ ’’ہیں‘‘ کے صیغے میں رہتے ہیں۔ میر اور غالب اسی لیے عہد حاضر میں بھی لوگوں سے ہم کلام ہیں۔

ایکسپریس: ایک طرف صوفی شاعر ہے تو دوسری طرف روایتی شاعر، صوفی شاعری کے اثرات روایتی شاعری سے کس طرح مختلف ہیں؟
سرمد صہبائی: یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ روایت اور کلاسیک میں فرق ہے۔ بے وقوفی میں بہت سے لوگ اِن دونوں کو ایک سمجھتے ہیں، روایت،کلاسیک کی دہرائی کا نام ہے، روایت، کلاسیک کی نقل یا کلاسیک کے تواتر کا حصہ یا تقلید ہوتی ہے۔

کلاسیک ہمیشہ رہنے والی چیز ہے جب کہ روایت بدلتی رہتی ہے۔ ہمارے صوفی شاعر کلاسیک میں شمار ہوتے ہیں، ان کا کلام بھی ایک زمانہ کے لیے نہیں۔آج بھی سلطان باہو، میاں محمد بخش، شاہ حسین، بلھے شاہ اور دیگر بڑے صوفی شاعروں کو تواتر سے پڑھا اور سنا جاتا ہے جب کہ آج سے چند دہائیاں پہلے تک کے پنجابی کے معروف شعراء کے کلام کی کوئی بات تک نہیں کرتا۔

ایکسپریس:آپ کی زندگی کے نشیب و فراز ایک عمدہ سوانح عمری کا میٹریل ہیں،کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ زندگی کو کتابی شکل میں سامنے لایا جائے؟
سرمد صہبائی: سوانح عمری لکھنا میرے لیے خاصا مشکل ہے، سوانح عمری لکھنا ایسا ہی ہے، جیسے روزِ محشر سوالوں کا جواب دینا،اس میںجھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مشکل یہ ہے کہ میرے ساتھ جن لوگوں نے وقت گزارا، اگر میں اُن کے متعلق اُسی طرح لکھ دوں، جو میں نے محسوس کیا، تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ بات تہذیب اور شائستگی کے بھی خلاف ہے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ جب میں دنیا سے چلا جاؤں تو وہ باتیں پہلے سے لکھ کر چھوڑ جاؤں، جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھیں اور محسوس کیں لیکن میں تو اس میں بھی گڑبڑ محسوس کرتا ہوں۔ اس لیے کہ جس بندے کے بارے میں، میں لکھوں وہ تصدیق یا تردید کے لیے زندہ ہی نہ ہو تو بات کیسے بنے گی؟

ایکسپریس: اگر مستقبل میں کسی محقق نے آپ پر تحقیق کرنی ہو تو اس کو تو بہت مشکل نہیں ہو گی؟
سرمد صہبائی: مشکل تو ہو گی لیکن تحقیق ہے ہی مشکل کا نام؛ میرے خیال میں مجھے اپنی زندگی کے متعلق بہت سی باتیں دوسروں پر چھوڑ دینی چاہیں، یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ میرے متعلق کیا کہتے ہیں، کس طرح سوچتے ہیں۔ ہاں اگر کبھی محسوس کیا کہ میں نے ایک عہد کو آنکھ بھر کے دیکھا ہے اور اُس میں سے، میں گزرا بھی ہوں تو میں اسے ضرور لکھوں گا۔ میں نے میڈیا اورادب کے شعبوں میں زندگی گزاری ہے اور میرے تجربات واقعی زبردست ہیں لیکن میں ان تجربات کو اِس طرح لکھوں گا کہ پڑھنے والے کو اصل کہانی بتا سکوں کہ جو کچھ سامنے ہے، یا سامنے تھا، وہ ہی حیقیقت نہیں، اس کے علاوہ بھی بات ہے۔

ایکسپریس: کیا مذہب ادب سے ماورا شے ہے؟
سرمد صہبائی: ادب اور مذاہب کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ہر مذہب کی ایک شریعت ہوتی ہے، جو مختلف شرائط پر مبنی ہوتی ہے، اگر اُس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے، تو مذہب پر چلنے کی اہلیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک چیز روحانی تجربہ ہے، یہ تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے اور ہر انسان کا یہ تجربہ اُس کا اپنا ہوتا ہے۔ یہ تجربہ لادین اور مذہب کو نہ ماننے والوں کو بھی ہوتا ہے، اگر وہ یہ کہیں کہ میں کسی روحانی واردات سے نہیں گزرا تو سمجھ لو، جھوٹ بول رہا ہے کیوں کہ انسان جبلی طور پر مجبور ہے کہ اپنی تلاش میں سرگرداں رہے، یہ تلاش کسی انسان میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں بہت کم؛ لیکن ہوتی ضرور ہے۔اِس کی مختلف شکلیں ہیں، مثلاً یہ کائنات کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ میں کہاں سے آیا ہوں ،کدھر جاؤں گا؟ میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں؟ مجھے کیا کام کرنا چاہیے اور کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ اس طرح کے سوالات انسان کو روحانی تجربے کی طرف لاتے ہیں۔

جب انسان خود جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تودوسری طرف مذاہب بھی ان سوالوں کے جواب پیش کرتے ہیں۔ عام انسان مذاہب کے جوابات سے تقویت حاصل کرلیتا ہے لیکن وہ لوگ جن کو مذاہب کے جوابات تقویت نہیں پہنچاتے، وہ ایک اور تجربے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اِس تجربے میں سوال در سوال ہو تے ہیں اور یوں اِس واردات کا سفر مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ روحانیت، مذاہب میں بھی ہے اور مذاہب کے علاوہ بھی ہے، یہ عالم گیر چیز ہے لیکن جب کوئی اِس روحانی تجربے کو ایک پراڈکٹ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ چاہے مذہبی شخصیت ہو یا ادبی، اپنی ہی پروڈکٹ کے ہاتھوں اُس روحانی تجربے کی اصلیت کو جاننے سے محروم ہوجاتاہے۔

ایکسپریس: شعر لکھنا جبلی عمل ہے یا اکتسابی؟
سرمد صہبائی: اِس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ شاعر بنایا نہیں جاتا، شاعر پیدا ہوتا ہے، جنگل میں ہزاروں جڑی بوٹیوں کوگلاب کا پودا نہیں بنایا جاسکتا، اگر آپ ان کو گلاب کہیں تو وہ ایک الگ سیاپا ہوگا۔ شاعر کے ساتھ اگر ہم دیگر تخلیق کاروں کو بھی شامل کر لیں تو یہ غلط نہیں ہوگا، جو لوگ پیدائشی تخلیق کار ہوتے ہیں، وہ عام آدمی سے ہٹ کر کائنات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ہاں اگر یہ لوگ ریاضت سے بھاگیں گے یا اس ِچِِلے سے نہ گزریں تو یہ بھی عام آدمی کی طرح وقت کے دھارے میں بہہ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ ریاضت تخلیق کار کے جوہر کے گرد ایک مضبوط فصیل ہوتی ہے، سچا تخلیق کار اس دیوار کی ہمیشہ عزت کرتا ہے، ریاضت بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس: غزل کے مقابلے میں نظم تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے، کیا غزل متروکیت کا سفر طے کر رہی ہے؟
سرمد صہبائی: یہ بحث بہت پرانی ہوچکی، یہ الطاف حسین حالی سے شروع ہوئی جو پروگریسو کے دور سے ہوتی ہوئی اب بھی جاری ہے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی کہا کہ غزل متروک ہو رہی ہے لیکن اس بات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے غور نہیں کیا جاتا، مثلاً ہمارے خطے میں تو نظم موجود ہی نہیں تھی، یہاں مثنوی، قطعہ اور رباعی تھی، اس کے علاوہ تو اور کوئی اہم چیز نہیں تھی لیکن غزل اس وقت بھی اہم صنف شمار ہوتی تھی۔ نظم حالی کے دور، یعنی نیچرل ازم کے دور سے شروع ہوئی اوریہ دور انگریز کے کہنے پر شروع ہوا کیوں کہ اُسے غزل کی سمجھ ہی نہیں تھی۔ تشبیہات تو دور کی بات، ردیف قافیہ تک گوروں کے سر سے گزر جاتے تھے، گورا غزل کو ایک ’’ایبسٹرکٹ‘‘ قسم کی شے سمجھتا تھا، یہ اُس کی نا اہلی تھی۔

جب اُسے ادراک ہوا تو لارڈ میکالے نے خط لکھا کہ برصغیر کے لوگوں کو اپنے کلچر سے نفرت سکھاؤ، ان پر ثابت کرو کہ انگریز کا کلچر مقامی کلچر سے بہت افضل ہے۔ مقامی شاعری کی مقبول اصناف کو بدل دو بل کہ تباہ و برباد کر دو۔ یہ باتیں لارڈ میکالے کے خط میں آج بھی موجود ہیں، اس خط کے بعد یہاں نیچرل ازم کی مہم چلی تو اس کو آگے بڑھانے میں حالی اورمولانا آزاد نے بھی زور لگایا۔بہت معذرت کے ساتھ علامہ اقبال نے بھی شروع میںاسی طرح کی نیچرل شاعری کی، مثلاً پہاڑ اور گلہری وغیرہ۔ انگریز کو تو اُس دور میں سمجھ ہی نہ تھی کہ غزل ہے کیا بلا۔ مزید غور کریں توجدید شاعری کی سب سے بڑی موومنٹ60 کی دہائی میں شروع ہوئی، اس سے پہلے اِس طرح کی شاعری یہاں موجود نہیں تھی۔

اس کے بعد نثری شاعری آئی، اس کے قدم جمانے کے لیے بھی توجیہات پیش ہوئیں لیکن اس کا بھی اس دھرتی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا۔آخر میں رہ گئی غزل، جو آج بھی تازگی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ہمیں غزل کو اِس طرح سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ متروک ہو رہی ہے، میرے خیال میں توغزل پوسٹ ماڈرن ہے، جو پوسٹ ماڈرن ازم سے پہلے پوسٹ ماڈرن ہے۔ میں نے یہ ہی بات اپنی فلم ماہ میر میں کہی ہے۔ نیچرل ازم کی ساری موومنٹ کو اگر کسی صنف نے مزاحمت دکھائی ہے تو وہ غزل ہی ہے، جو ابھی تک نئے تلازمے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور ابھی تک تازہ ہے۔

پہلے ہمیں انگریز نے کہا اورآج کارپوریٹ کلچر ہمارے دماغ میں یہ بات ڈال رہا ہے کہ ہماری قدریں، زبان، شاعری کی اصناف اور رہن سہن، جدیدکلچرسے کم تر ہے، ہم نے اس بات کو فوراً مان لیا، المیہ یہ ہوا کہ ہمارے شاعر نے بھی اس کو تسلیم کر لیا۔ اب اگر آپ دیکھیں، جن کو اوریئنٹلسٹ کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ کی تہذیب بہت خوب صورت ہے لیکن یہ وقت کے ساتھ چل نہیں سکتی، یہ جامد ہو چکی ہے، اس لیے آگے بڑھو، اس تہذیب کو عجائب گھر میں رکھ دوتو بہتر ہو گا۔ اگر میں نے میر پر فلم لکھی ہے تو اوریئنٹلسٹ طبقے کے مطابق مجھے چاہیے تھا کہ میں اسے کھانستا، روتا اورمرتا ہوا دکھاتا۔ داڑھی بڑھی ہوئی دکھاتا، ایک اسٹیریوٹائپ کردار میں پیش کرتا ، جب ہم رانجھے کو دکھاتے ہیں تو اس کے ہاتھ میں بانسری پکڑا دیتے ہیں، جیسے وہ ہر وقت بانسی بجا رہا ہو اور اُس کے پاس کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ۔

اسی طرح غالب کے کردارکو دکھانے کے لیے اس کے سر پر چائے دانی والی ٹکوزی رکھ دی جاتی ہے، میں پوچھتا ہوں کہ یہ کردار اِس شکل و صورت کے علاوہ بھی زندگی گزارتے ہوں گے، وہ کبھی رفع حاجت کے لیے غسل خانے میں بھی جاتے ہوں گے اور کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوں گے، کبھی وہ اچھا کھانا نہ ملنے پر ناراض بھی ہوتے ہوں گے۔ دراصل ہم اِن کرداروں کو اسی طرح دکھاتے ہیں، جس طرح ہم سوچتے ہیں، ہم حقیقت کی طرف نہیں آتے۔ ہماری سوچ ایک مخصوص طرح کی بندش میں جکڑی ہوئی کیوں ہے؟ مثلاً واجد علی شاہ کو جب ہم دکھاتے ہیں، تو اس کو خواجہ سرا بنا کر پیش کرتے ہیں، جب کہ وہ آج کے بالی ووڈ کا باپ تصورکیا جارہا ہے۔

یہ میں نہیں کہتا بھارت میں اِس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ واجد علی شاہ کا جو پری خانہ تھا، وہ بالی ووڈ کے ایک ماڈرن پروڈکشن ہاؤس سے زیادہ فعال تھا، آج بھارت والے اِس بات کو ماننے پر مجبور ہیں کہ بالی ووڈ کا موجد واجد علی شاہ ہے، ہمارا المیہ دیکھیے کہ ہم نے اُس کو ’’زنخا‘‘ بنا کر پیش کیا۔ ہم نے یہ تک نہیں سوچا کہ واجد علی شاہ کو سب سے پہلے زنخا کس نے کہا تھا، سب سے پہلے انگریز بہادر نے واجد علی شاہ کو خواجہ سرا کے روپ میں پیش کیا۔ وہ اسے ڈانسنگ کنگ جیسے القابات سے نوازتا رہا حالانکہ واجد رقص اور موسیقی کا موجد تھا، ٹھمری اُس نے ایجاد کی، اور ٹھمری سے ہی گیت نکلا، وہ ہر لحاظ سے بہت بڑا آدمی تھا۔

اسی طرح پاکستانی فلم میں شروع سے آج تک مرد نے رقص نہیں کیا، اگر اب کبھی کبھار مرد رقص کرتا بھی ہے، تو وہ خاتون جیسی پرفارمنس نہیں دکھا سکتا۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ مرد کو ڈرایا گیا ہے کہ کہیں تم پر خواجہ سرا کا لیبل نہ لگ جائے۔ جب انگریز نے ہماری قدروں کو تباہ کردیا تو اس نے ہماری ذات پات پر بھی توجہ دی کہ فلاں قوم کیا ہے، یہ کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی؟ اس کیٹگری میں بھانڈ، میراثی اور کنجر تینوں قوموں کو شامل کردیا گیا بل کہ گانے بجانے والوں کو یہ تینوں ٹائیٹل دے دیے گئے، جن کو ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنا لیا۔ اس لیے آج بھی ان لوگوں کے ساتھ جب معاشرے میں حقارت آمیز سلوک ہوگا تو پرفارمنگ آرٹ کیسے آگے بڑھے گا؟ جب کہ دوسری طرف بالی ووڈ اِس باریکی کو سمجھ کر انگریز کی بات کو بھول چکا ہے۔

ایکسپریس: سر آپ یہ بتائیں کہ آپ آج جو ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
سرمد صہبائی: (ہنستے ہوئے) ’’ ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘۔ دیکھیں تقدیر پر کچھ لوگ یقین کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے اور کچھ لوگ یقین اور بے یقینی کے درمیان رہتے ہیں۔ ہم ان سب میں الجھے بغیر اس بات کو یوں کہ سکتے ہیں کہ میری بچپن سے ہی پڑھائی لکھائی اور تربیت آفیسروں کے اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی۔ میں نے جس کالج سے تعلیم مکمل کی، وہاں سے پاکستان کی نوے فی صد بیوروکریسی فارغ التحصیل ہوتی تھی۔ اسی طرح اپنے زمانے کی سوشل اسکل، تعلیم ،زبان اور سوسائٹی کے وہ سارے معیار، میں نے سیکھے، اُن پرعبور حاصل کیا، میں چاہتا تو بیورو کریٹ بن کر لوگوں پر حکم چلانے کے لیے میدان میں اُترتا لیکن پھر وہی بات ’’پر طبیعت اِدھر نہیں آتی‘‘۔ میں نے اپنی زندگی میں جو پہلی نوکری کی، اُس میں مجھے اتنی تنخواہ مل رہی تھی کہ اگر میں نوٹوں کو آگ لگانا چاہتا تو بھی مہینے کے آخر میں میرے پاس پیسے بچ جایا کرتے لیکن یہ نوکری بھی میں نے صرف دس ماہ کی۔ میری کمپنی کے انگریز باس سے لڑائی ہو گئی۔

ہوا یوں کہ اس نے مجھے 14 اگست کی چھٹی والے دن کام پر بلا لیا ، جب مجھے ٹیلی گرام ملا تو میں نے جواباً ٹیلی گرام بھیجا کہ یہ1947 نہیں ، 1968 ہے۔ میرا تار پڑھ کر وہ گورا ایک دفعہ تو ڈر گیا، جب میں اس سے ملا تو میں نے صاف صاف کہ دیا کہ بھائی جان، اب ہم آزاد ہیں اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ اب بھی حکمران ہیں۔ کمپنی والوں نے مجھے منانے کی کوشش کی تو میں نے صاف جواب دے دیا کہ 14 اگست کو تو میں کام نہیں کروں گا۔ جب معاملہ حل نہ ہوا تو میں نے استعفیٰ لکھ کر کمپنی کے سی ای او کے سامنے رکھ دیا، میرا استعفیٰ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ اِس نوکری کے لیے تو وزیر اور مشیر سفارشیں لے کر آتے ہیں اور تم ہو کہ ایک منٹ میں اتنی بڑی نوکری کو لات مار کر جا رہے ہو؛ لیکن میں طے کر چکا تھا کہ اب ان کے ساتھ کام نہیں کرنا۔

ایکسپریس: آپ پر الزام ہے کہ آپ ’’لیزی جینئئس‘‘ ہیں، کیا یہ درست ہے؟
سرمد صہبائی: (بھرپور قہقہہ لگا کر) میرے متعلق میرے دوست اِس طرح کی اَنٹ شنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو وہ خود کون سے ایکٹو جینیئس ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں کوئی جینیئس نہیں ، میری عمر کا زیادہ حصہ پی ٹی وی میں گزرا، میں کام کرنا چاہتا تھا لیکن وہاں مجھے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ہر روز ایک تازہ انکوائری شروع ہو جاتی تھی، اگر میں نے تیس سال پی ٹی وی میں کام کیا تو اس میں آدھی سے زیادہ مدت انکوائریاں بھگتانے میں گزری لیکن اس کے باوجود میں نے لڑ لڑا کر تھوڑا بہت جو کام کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

میرے بہت سے آئیڈیاز کو اُس وقت کی پی ٹی وی بیوروکریسی نے تہس نہس کرکے رکھ دیا، مثلاً میں نے جب ہالی ووڈ کے اداکار عمر شریف کو منا لیا کہ وہ میری فلم میں کام کرے، تو مجھ پر پی ٹی وی نے یہ کہ کر پابندی لگا دی کہ تمہیں عمر شریف کو ملنے کے لیے مصر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ تم نے اگر ملنا ہی تھا تو کراچی میں جا کر مل لیتے، وہ ہالی ووڈ کے اداکار عمر شریف کو جانتے ہی نہیں تھے، وہ پاکستانی اسٹیج ایکٹر عمر شریف کو میری فلم کا ہیرو سمجھ رہے تھے، جب انکوائری کرنے والوں کا یہ لیول ہو تو وہاں بندہ خاک کام کر سکتا تھا۔

ایکسپریس: الیکٹرانک میڈیا میں آپ نے جتنا کام کیا وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے، آپ نے سنجیدہ تھیٹر کے لیے جو کچھ کیا، اُسے آپ کیسے بیان کریں گے؟
سرمد صہبائی: میرا تو آغاز ہی تھیٹر سے ہوا ، حال ہی میں میرا ایک تھیٹر ڈراما ’’اوس گلی نا جاویں‘‘ کراچی میں دوبارہ کھیلا گیا، مجھے جہاں بھی تھیٹر کا مناسب موقع ملتا ہے، میں اُسے ضرور ’’اویل‘‘ کرتا ہوں۔

فنانسر تو میں ہوں نہیں اور نہ ہی میرے پاس دولت کے انبار ہیں کہ خود ہی ڈرامے لکھوں اور پروڈیوس بھی کروں، مجھے تو جب کوئی کہے گا، تو میں کام کروں گا البتہ کام اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہوں۔ایک بارمجھے ناروے میں ایک تھیٹر ڈرامہ پروڈیوس کرنے کا موقع ملا تو وہاں پر ایک انگریز خاتون نے مجھے طعنے مارنے شروع کردیے’’اب یہ گوشت اور سبزیاں بیچنے والے پاکستانی بھی ڈرامے ڈائریکٹ کریں گے‘‘ اور بھی بہت سی توہین آمیز باتیں کیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اِس خاتون کو تو تھیٹر کی الف، بے کا بھی علم نہیں اور خواہ مخواہ یہ تھیٹر کی اتھارٹی بنی ہوئی ہے۔آخر کار جب مجھے غصہ آیا تو میں نے اُسے وہ سنائیں کہ وہ سکتے میں آ گئی، اس کے بعد مجھے انتظامیہ نے بہت روکا لیکن میں نے وہ تھیٹر چھوڑ دیا، جب کہ میں اُس خاتون کی خوشامد کرکے اُس بڑے بجٹ والے ڈرامے سے خوب مال بنا سکتا تھا کیوں کہ اُس ڈرامے کی تین سال سے تو صرف تیاریاں ہورہی تھیں۔

ایکسپریس: آپ نے ماہ میر میں میر تقی میر کی دیوانگی کو پینٹ کیا ہے کیا فلم کے ڈائریکٹر نے اُسے اُسی طرح پیش کیا ہے، جس طرح آپ نے لکھا تھا؟
سرمد صہبائی: اِس فلم کے ڈائریکٹر انجم شہزاد نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنے کام کو بہتر سے بہتر دکھائے۔اصل بات یہ ہے کہ جب فلم بنتی ہے تو اُس میں بہت سارے سقم رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ٹیم ورک ہوتا ہے، اس لیے اس میں جامعیت اور کاملیت اس طرح سے نہیں ہوتی، جس طرح ایک رائٹر لکھتا ہے۔ میں نے میر کی جس دیوانگی کو دکھایا ہے فلم دیکھنے والوں پر وہ سینما ہال کے دوران طاری ضرور ہوتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایک اسکرپٹ،فلم ڈائریکٹر ،کیمرہ مین اور سیٹ ڈیزائینر کے پاس جاتا ہے تو وہ اُس میں اپنی تخلیق کو شامل کرتے ہیں اور یوں رائٹر کی تخلیق میں غیر محسوس طریقے سے تبدیلی آ جاتی ہے۔

ایکسپریس: کیا ہم اِس فلم کو آرٹ مووی کہہ سکتے ہیں؟
سرمد صہبائی: ہم اِس کو آرٹ فلم تو نہیں کہ سکتے البتہ اس کو آرٹسٹک فلم ضرور کہ سکتے ہیں۔ اس فلم کو جس طرح ٹریٹ کیا گیا ہے، اس کا لیول آرٹسٹک ہے جب کہ آرٹ فلم میں فلم بنانے والے اس چیز کو مدنظر نہیں رکھتے کہ دیکھنے والے کیا سوچیں گے۔ وہ صرف اپنے ویژن کو ہی پردہ سکرین پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس فلم میں بھی دیکھنے والوں کو اُس طرح سے مدنظر نہیں رکھا گیا، جس طرح آرٹ فلم میں رکھا جاتا ہے، اس میں آپ کو آڈیئنس کی پسند اور ناپسند نظر آئے گی۔ اِس فلم کو بنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ میر کے متعلق ایک نئے انداز میں سوچیں۔ آڈیئنس میں ایک قسم پرائمری آڈیئنس کی ہوتی ہے، اِن کا لٹریچر کے ساتھ واسطہ رہتا ہے اور ان کی ایک بیک گراؤنڈ بھی ہوتی ہے، مثلاً اس میں شامل آڈیئنس کو میر تقی میر کا علم ہونا چاہیے۔

دوسری آڈیئنس میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں، جنہیں میر تقی میر کا علم ہی نہیں کہ وہ کون تھا، کیا تھا؟ اس طرح کے لوگوںکو سیکنڈری آڈیئنس کہیں گے۔ یہ فلم اصل میں سیکنڈری آڈیئنس کے لیے لکھی تھی، اگرایسے دس لوگوں میں سے دو یا تین بھی میر کو جاننے یا پڑھنے کی کوشش کردیں گے، تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دس میں سے تین کے بجائے آٹھ بندے ہمارے گروپ میں شامل ہو جائیں، لیکن ایسے ہوا۔ اس فلم کے کریکٹر مشکل تھے۔

ایکسپریس: کیا آپ فن کاروں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟
ایکسپریس: آپ نے جو لکھا، کیا وہ پردہ سکرین پر اسی طرح پیش کیا گیا؟
سرمد صہبائی: دیکھیں اس طرح کا اطمینان تو کبھی حاصل نہیں ہوتا، مثلاً اسی اسکرپٹ کو سو سال بعد کوئی اور ڈائریکٹر جب بنائے گا، تو وہ اپنے انداز میں بنائے گا، اس فلم میں نئی انٹرپٹیشن آئے گی، اسی طرح اگر اس فلم کو میں خود ڈائریکٹ کرتا، تو یہ موجودہ فلم سے بالکل مختلف ہوتی، اچھی یا بری ہوتی، یہ الگ بات ہے۔ اب میرے اطمینان کا مسئلہ نہیں بل کہ یہ آڈیئنس کے اطمینان کی بات ہے۔

ایکسپریس: آپ نے منٹو صاحب کے افسانے ’نیا قانون‘ کو پی ٹی وی کے لیے بنایا تھا، جو ماسٹر پیسز میں شامل ہے، اسی طرح کا کوئی اور افسانہ آپ کی نظر سے کیوں نہیں گزرا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے افسانے لکھے جانے بند ہو گئے ہیں؟
سرمد صہبائی: (قہقہہ لگاتے ہوئے) افسانے تو بہت ہیں لیکن فنانسر کوئی نہیں اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں خواہ مخواہ پنگا لوں، اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو میں نیا قانون جیسا ایک اور ماسٹر پیس بنانے کو تیار ہوں۔

ایکسپریس:آپ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں منیر نیازی کے ایک سوال اور اپنے جواب کو شیئرکیا تھا ’’جب منیر نیازی نے مجھ سے پوچھا کہ سرمد چلو! میں تو شاعر ہوں، یہ دوسرے لوگ کون ہیں‘‘؟ اُس کے جواب میں جو آپ نے کہا اُس پر منیر نیازی نے جو فقرہ چست کیا تھا، کیا اسی فقرے کے تناظر میں آپ خود کو بھی دیکھتے ہیں؟
سرمد صہبائی: (بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے) اس جواب کے لیے آپ کو میری لکھی ہوئی تازہ فلم ماہِ میر دیکھنا پڑے گی، اس سوال کا جواب آپ کو بہت اچھے طریقے سے مل جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔