عید الفطر کے مسرت بھرے لمحات میں دوسروں کو بھی شریک کیجیے

فرحان احمد خان  اتوار 3 جولائی 2016
معاشرے میں موجود سفید پوش اور خوددار لوگوں کی آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہیے ۔  فوٹو : فائل

معاشرے میں موجود سفید پوش اور خوددار لوگوں کی آگے بڑھ کر مدد کرنی چاہیے ۔ فوٹو : فائل

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پوری اسلامی دنیا میں ایک روحانی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ایک طرف مسلمان اس ماہ مقدس میں عبادات کے اندر غیر معمولی سرگرمی دکھاتے ہیں جبکہ دوسری جانب سحر و افطار کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔

روزہ بظاہر تو ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر مسلم گھرانے کے بڑے اور بچے اسلام کے اس اہم رکن کی بجاآوری میں کسی قسم کی کوتاہی سے گریز کرتے ہیں ۔ روزہ رکھنے والوں میں ایسے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جن پر ابھی روزے فرض نہیں ہوتے ۔ وہ بچے اپنے والدین سے شدید اصرار کرنے کے بعد روزہ رکھتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں روزے کے فلسفہ کے مطابق یہ بدنی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح و فلاح کے لیے بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ روزہ دار شخص جب بھوک اور پیاس کے تجربات سے گزرتا ہے تو اس کے دل میں معاشرے میں موجود نادار اور مفلوک الحال لوگوں کا احساس اور ان کی مدد کا داعیہ پیدا ہوتا ہے ۔وہ دن بھر اپنے مالک کے حکم کی اطاعت میں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں اپنی ذات پر قابوکی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔روزہ کی صورت میں مالک کائنات کی اطاعت گزاری سے ایک مسلمان سماج کا ایک بہتر رکن بھی بن سکتا ہے ۔

ہمارے ملک میں رمضان المبارک میں باہمی مودت، انسان دوستی اور رواداری کی جو مثالیں رمضان المبارک میں دیکھنے کو ملتی ہیں اگر سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ایسا ہی طرز عمل اپنایا جائے تو معاشرے میں کافی حد تک سدھار لایا جا سکتا ۔ رمضان المبارک میں ہمارے ملک کے سبھی شہروں میں صاحب حیثیت لوگ مستحقین اور کم آمدنی والے افراد کے لیے سحر وافطار کا بندوبست کرتے ہیں ۔

شام کو افطار کے وقت کھلی شاہراہوں کے کناروں پر وقفے وقفے سے راہ گیروں کے لیے کھجور، ٹھنڈے شربت اور دیگر لوازمات کا اہتمام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض دفعہ ٹریفک کے اشاروں پر رکیں تو چند لوگ لفافے لے کر آپ کی جانب بڑھتے ہیں جن میں افطاری کا سامان ہوتا ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر افطار کی دعوتیں بھی ہمارے کلچر کا لازمی جزو بن چکی ہیں ۔یہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن پہلو ہے ۔

ہمارے ملک میں رمضان المبارک میں خیر کے کاموں میں مالی اعتبار سے معاونت کا رجحان بھی معمول سے زیادہ ہوتا ہے ۔ لوگ تعلیمی اداروں، یتیم خانوں ، ہسپتالوں اور دیگر رفاع عامہ کے اداروں کے لیے اپنی کمائی میں سے خاص حصہ مختص کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ اسی مہینے میں اپنے مال سے زکوۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ غریبوں اور مستحق لوگوں کی کفالت کرنے والے ادارے ایسی تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں، جن کا مقصد فنڈز اکٹھے کرنا ہوتا ہے ۔ بڑے شہروں میں ہونے والی یہ تقاریب یا افطار پارٹیاں کافی حد تک کامیاب ثابت ہوتی ہیں اور اس طرح رفاعی اداروں کے سال بھر کے بجٹ کا انتظام ہوجاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں ’انفاق فی سبیل اللّٰہ‘ (اللہ کے راستے میں خرچ کرنے) کی اہمیت خصوصی طور پر بیان کی گئی ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد خداوندی ہے ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے مال) کو چاہتا ہے، زیادہ کرتا ہے، وہ بڑی کشائش والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ اس آیت میں مسلمانوں کو اپنے مال میں سے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس پر دنیا و آخرت کے اجر وثواب کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔

ایک اور جگہ ا رشاد باری تعالیٰ ہے ’’ (مومنو) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں (بے حد) عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) صرف نہ کرو گے، کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے اللہ اس کو (خوب) جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ آل عمران)۔ اسی مضمون کی ایک اور آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے ( اللہ تعالیٰ نے) تم کو (اپنا) نائب بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ (الحدید )

ا س کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی ’انفاق فی سبیل اللّٰہ‘ کی کثرت سے ترغیب دی گئی ہے ۔چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ رمضان میں تیز آندھیوں سے بھی بڑھ کر صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔مطلب یہ کہ صدقہ خیرات میں معمول سے کافی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آتا تھا۔ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو بُجھاتا ہے اور بری حالت کی موت سے بچاتا ہے۔‘‘ (احمد)

ایک اور حدیث مبارکہ میں صدقہ دینے والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ ’’ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا، تو صدقہ مومن پر سایہ بن جائے گا۔‘‘(احمد)۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں ’’ صدقہ کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ بلائیں صدقے سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں بلکہ صدقے سے رک جاتی ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ) حدیث قدسی میں ہے ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان! تو میری راہ میں خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘ (بخاری)

ان تمام ارشادت عالیہ کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اپنی ذات اور اہل وعیال کے علاوہ معاشرے میں بسنے والے دوسرے لوگوں پر بھی خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔اب چونکہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ رواں ہے اور اہل اسلام رمضان کی ان گھڑیوں میں نیکیاں سمیٹنے میں ذوق وشوق سے مگن ہیں۔ دنیا بھر کی مساجد میں لاکھوں مسلمان معتکف بھی ہو چکے ہیں۔جوں جوں رمضان المبارک کی آخری ساعات قریب آرہی ہیں مسلمانوں میں بدنی و مالی عبادات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔عید الفطر کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔

بازاروں میں رش بڑھ رہا ہے ۔خواتین اور بچے اس اسلامی تہوار کو بھرپور بنانے کے لیے خریداری میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آس پاس بسنے والے لوگوں کے حال احوال پر بھی نگاہ رکھی جائے۔ ہمارے اردگرد رہنے والے کئی خاندان ایسے ہوتے ہی جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرتے ۔ہمیں ایسے خاندانوں کی خبر رکھنی چاہئے اور ایسے طریقے سے ان کی مدد کرنی چاہئے کہ ان کی انا اور خودداری کو ٹھیس نہ پہنچے ۔

اسلامی تعلیمات میں صدقہ وخیرات مخفی انداز میں اداکرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ اگر دائیں ہاتھ سے کسی کی مدد کریں تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونی چاہئے۔ نام ونمود اور فوٹو سیشن کی خاطر کی گئی امداد سے ممکن ہے کسی کا بھلا تو ہو جاتا ہو گا مگر اس کے نتیجے میں ناصرف مستحقین کا معاشرتی وقار اور بھرم مجروح ہوتا ہے بلکہ دینے والا اجر وثواب سے بھی محروم رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاکاری کے گناہ کا اضافی بوجھ بھی اس کے سر جاتا ہے ۔

صدقہ فطر کو مخصوص مالی حالت کے حامل لوگوں پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ صدقہ ٔ فطر کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی خوشی کے بڑے تہوار عید الفطر میں معاشرے میں بسنے والے غریب افراد بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔ صدقۂ فطر کی تفاصیل سے متعلق آگاہی اپنے اردگرد موجود اسلامی علوم کے ماہر علماء سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ نقد رقم کی صورت میں صدقۂ فطر ادا کیا جائے ۔

چونکہ ہر شخص کی ضروریات اور ترجیحات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ،اس لیے اگر اسے نقد رقم دی جائے گی تو وہ سہولت کے ساتھ اپنی ضرورت پوری کر لے گا۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ عید گاہ میں پہنچنے کے بعد صدقۂ فطر ادا کرتے ہیں لیکن علمائے دین کا کہنا ہے کہ عید سے جتنا پہلے ہوسکے صدقۂ فطر ادا کر دینا چاہئے تاکہ مستحق لوگ بروقت عید کی تیاریاں کر سکیں ۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہمیں صرف واجب مقدار کے انفاق(خرچ) پر اکتفاء نہیں کرناچاہئے بلکہ اپنے مالی حالات کے مطابق بڑھ چڑھ کر خیر کے اس کام میں حصہ ڈالنا چاہئے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے معاملے میں سب سے پہلے اپنے قرابت داروں اور پڑوسیوں کو ترجیح دی جانی چاہئے کیونکہ وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ طور زیادہ مستحق شمار ہوتے ہیں۔

ہمارے شہروں میں بہت سے ایسے ادارے بھی قائم ہیں جو غریب اور یتیم طلبہ کی تعلیم اور کفالت کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں۔اگر ہم ہر سال رمضان میں اپنی جمع پونجی سے مناسب حصہ ان اداروں کے نام کریں توان کے سال بھر کے خرچ کا انتظام ہوسکتا ہے۔ایسے ہسپتال اور ڈسپنسریاں جو لوگوں کا مفت علاج کرتی ہیں ان کی مالی اعانت بھی معاشرے کے افراد کی ذمہ داری ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے باشندے خیر کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔ ہمیں اس عیدالفطر پر بھی اپنی اسی روایت کو برقرار رکھنا چاہئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔