گھر کے بڑے بوڑھوں کا قابلِ تعریف فیصلہ

ساجد علی ساجد  منگل 27 نومبر 2012

ہمارے شہر کراچی کے سینئر اور بزرگ شہریوں کا یہ عزم اور ارادہ قابلِ تعریف ہے کہ وہ اپنے گھر کے نوجوانوں اور لڑکوں کو گھر کی حدود میں رکھیں گے اور گھر سے باہر کے تمام کام مثلاً سودا سلف لانا، یوٹیلیٹیز کے بلز وغیرہ جمع کرانا وغیرہ خود انجام دیں گے، جس طرح ہر دور کے کچھ تقاضے اور ڈیمانڈز ہوتی ہیں، موجودہ دور کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نوجوان گھروں پر رہیں اور باہر کے کام بزرگ انجام دیں۔

امید ہے ہمارے شہر کے نوجوان اسے وقتی اور عارضی سمجھ کر قید و بند کی اس صعوبت کو برداشت کر لیں گے جس میں انھیں خود ان کے عظیم تر مفاد میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ہاں انتہائی ضروری کام سے انھیں گھر سے نکلنے کی اجازت ہو گی، ظاہر ہے وہ ملازمت چھوڑ کر تو گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ ہاں اس کے علاوہ انھیں اپنی تمام تر مصروفیات عارضی طور پر ترک اور محدود کرنی ہوں گی۔

ہمیں پورا احساس ہے کہ ہم اپنے کالم میں اپنے تئیں طنز و مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر آج ایک انتہائی سنجیدہ موضوع پر قلم اٹھا رہے ہیں۔ اگر متاثرہ اور متعلقہ لوگوں کے جذبات کو ہمارے لکھے سے کوئی ٹھیس پہنچے تو ہم پیشگی معذرت کیے دیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے شہر میں قتل و غارت گری، دہشت گردی، لوٹ مار، چھینا جھپٹی کی جو بھی وارداتیں ہو رہی ہیں ان میں زیادہ تر کا نشانہ ہمارے نوجوان بن رہے ہیں۔ کیونکہ جوان ہونے کے ناتے چونکہ وہ جذباتی ہوتے ہیں اس لیے اکثر مزاحمت بھی کر بیٹھتے ہیں اور اپنی قیمتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس اعتبار سے ہمارے بڑے بوڑھوں کا جذبہ قابلِ تعریف ہے کہ انھوں نے اپنے نوجوانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے یہ اہم قدم اٹھایا ہے اور نوجوانوں کی ذمے داریاں سنبھالنے کا تہیہ کیا ہے۔ وہ عمر کے ایسے حصے میں ہیں کہ وہ یہ رسک لے سکتے ہیں جب کہ جوان موت کا صدمہ نا قابلِ برداشت ہوتا ہے وہ چاہے کسی خطے کا بھی رہنے والا ہو، کوئی زبان بھی بولتا ہوِ، اس کے موت سے ہمکنار ہونے کا صدمہ ناقابل برداشت ہوتا ہے جس کا دکھ خاص طور پر اس کے والدین، بیوی بچے، بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتے دار ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

اس لحاظ سے ہمارے نوجوان لڑکوں کا جذبہ بھی قابل تعریف ہے جنہوں نے بقول شخصے پِتّہ مارتے ہوئے اس پابندی کو قبول اور برداشت کر لیا ہے اور تہیہ کیا ہے کہ اب وہ صرف کسی بہت ضروری کام مثلاً ملازمت کی غرض سے گھر سے نکلیں گے سیدھے گھر واپس آئیں گے، کھیل کُود، دوستی یاری، غیر نصابی سرگرمیوں سے کم از کم کچھ عرصے کے لیے گریز کریں گے اور آؤٹ ڈور کے زیادہ تر کام مثلاً سودا سلف لانا، بجلی گیس، فون کے بلز جمع کرانا، رشتے داروں کی عیادت اور خیریت دریافت کرنا وغیرہ وغیرہ اپنے گھر کے بزرگوں کے سپرد کر دیں گے۔ اگر گھر میں بزرگ نہ ہوں تو وہ گھر کی خواتین کو بھی زحمت دے سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں کوشش یہ بھی کی جائے گی کہ صرف کچھ پیسے بچانے کے لیے دور دراز کسی مارکیٹ میں جانے کے بجائے قریب ترین دکان سے خریداری کر لی جائے کیونکہ قدرتی طور پر آج کل زندگی پیسوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہو گئی ہے۔نوجوانوں کو یہ احساس بھی ہے کہ شہر کے گلی کوچوں میں مارے جانا، تاریک راہوں میں مارے جانے کے مترادف ہے جو کسی شمار قطار اور گنتی میں نہیں ہے۔ مارے جانے کی کوریج بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتی اور اخبار میں عام طور پر مرنے والوں کی تعداد پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ نوجوانوں کے اس طرح انڈر گراؤنڈ، پس پردہ چلے جانے اور بڑے بوڑھوں کو آگے لانے سے نوجوان لڑکوں کی قیمتی جانیں بالکل ہی محفوظ ہو جائیں گی، ہاں جان جانے کا خطرہ ضرور کم ہو جائے گا۔

اس موقعے پر نہ چاہتے ہوئے بھی ان ہزاروں لواحقین سے مخاطب ہونا پڑ رہا ہے جن کے پیارے دہشت گردی کی اس جنگ کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ان میں والدین بھی ہیں، بیوی بچے بھی اور دوسرے قریبی رشتے دار اور دوست و احباب بھی۔ اس افسوسناک انداز میں وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہونے والا اپنے پیچھے دکھ اور غم کی ایک ایسی داستان چھوڑ جاتا ہے جو اس کے پیاروں کے لیے ناقابلِ فراموش ہوتی ہے جب ہمیں دور سے دیکھ کر جھرجھری آ جاتی ہے تو جن کے قریب لوگ دفعتاً ان کی زندگیوں سے نکل گئے ہیں ان پر نجانے کیا گزر رہی ہو گی جس کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔

ایسے صدمات کو برداشت کرنے کے لیے اپنے اس اعتقاد کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ من جانب اللہ ہوتا ہے جو افراد بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں وہ سیدھے جنت میں جائیں گے یا ایک ایسا ملک جہاں قاتل اس طرح دندناتے پھر رہے ہوں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔نوجوانوں کے لیے موت سے راہِ فرار کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ ملک یا کم از کم یہ شہر چھوڑ جائیں، مگر ظاہر ہے یہ ہر ایک کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں بعض مغربی ملکوں کے رویے پر حیرت ہوتی ہے جنہوں نے کچھ اپنی پالیسی اور کچھ ہماری حرکتوں کی وجہ سے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں جس پر ہمیں ایک انگریزی فلم کا وہ منظر یاد آتا ہے جس میں حملہ آوروں نے ایک گاؤں میں آگ لگائی اور جب گاؤں میں رہنے والے جان بچانے کے لیے گھروں سے نکل کر بھاگے تو ان پر گولیاں برسائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔