30نومبر…یوم تاسیس

آفتاب احمد خانزادہ  جمعرات 29 نومبر 2012
آفتاب احمد خانزادہ

آفتاب احمد خانزادہ

تاشقند میں امن کے لیے باہمی گفت و شنید کی میز پر صدر ایوب خان وہ سب کچھ ہار گئے جو انھوں نے میدان جنگ میں حاصل کیا تھا تاشقند معاہدے کے مطابق دونوں ممالک نے قبل ازجنگ تک اپنی افواج کی پسپائی منظور کر لی۔

ذوالفقار علی بھٹو اس پر بہت برافروختہ ہوئے اور بطور وزیر خارجہ استعفیٰ دے دیا۔ جب ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری معاہدے پر دستخط کے دوسرے دن دل پر حملے کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ ضرورخوشی کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ حکومت چھوڑ نے کے بعد بھٹو صاحب کا لاہور میں جو تاریخی استقبال ہوا اس نے ایوب خان اور ان کے حواریوں کی نیندیں اڑا دیں۔ راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن سے جب بھٹو صاحب ایک سابق وزیر کی حیثیت سے رخصت ہوئے تو انھیں خدا حافظ کہنے کے لیے مداحوں کا بہت بڑا ہجوم تھا۔ یہ خبر پنڈی سے لے کر لاہور تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ بھٹو صاحب فیلڈ مارشل ایوب خان کی تمام پیشکشوں کو ٹھوکر مار کر بذریعہ ٹرین روانہ ہو گئے ہیں۔

بھٹو صاحب نے ایوبی آمریت سے فیصلہ کن لڑائی کا عزم کر لیا اور اس کے لیے آغاز ہی میں وہ راستہ اختیار کیا جو عوام کا راستہ ہوتا ہے نہ کسی اخبار میں اشتہار شایع ہوا نہ پوسٹر نہ لوگوں کو بسوں اور ٹرکوں میں لایا گیا نہ کسی جاگیردار اور وڈیرے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بھٹو صاحب جب لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو دو لاکھ زندہ دلان لاہور کے پر جوش نعروں سے ریلوے اسٹیشن گونج رہا تھا۔ بعد میں ملتان ، سکھر ، کراچی ، لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کا تاریخی استقبال ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حمایت ایک سیاسی رہنما کے طور پر آسمان سے باتیں کرنے لگی تھی۔ ملک کے عوام بھٹو صاحب کی محبت میں پاگل ہو گئے تھے ۔

عوام ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑتے تھے لوگ ٹرین کی چھتوں پر چڑھ گئے فخر ایشیاء زندہ باد عوام نعرے لگا رہے تھے قریب کے مکانوں کی چھتوں پر لوگ ہی لوگ تھے جونعرے لگا رہے تھے بھٹو زندہ باد، بھٹو زندہ باد ۔ بھٹو صاحب جب لاہور تشریف لائے تو ان کا استقبال کرنے والے لاکھوں لوگوں کے ساتھ لاہور کے دیگر تعلیمی اداروں کے طالب علموں کے علاوہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ بعد ازاں انجنیئرنگ یونیورسٹی کے طالب علموں کے ایک وفد نے فلیٹیز ہوٹل لاہور میں بھٹو صاحب سے ملاقات کی اور انھیں اپنی سیاسی جماعت بنانے کی تجویز پیش کی اس کے ساتھ ہی انھوں نے بھٹو صاحب سے یہ درخواست بھی کی کہ برادر ملک ترکی کی مقبول سیاسی جماعت ٹرکش پیپلز پارٹی کے حوالے سے اپنی جماعت کا نام بھٹوز پیپلز پارٹی رکھیں۔ بھٹو صاحب نے ان کی یہ درخواست قبول کر لی۔

طالب علم اس حوصلہ افزائی پر بہت خوش ہوئے اور انھوں نے ستمبر 1967میں بھٹوز پیپلز پارٹی کا پرچم تیار کیا اور جب بھٹو صاحب لاہور کے دورے پر تشریف لائے تو انھیں یہ پرچم پیش کیا گیا بھٹو صاحب نے اس پرچم کو پسند کیا بعد ازاں پارٹی کے اہم رہنمائوں کے مشورے سے بھٹو صاحب نے اپنی جماعت کا نام پاکستان پیپلز پارٹی رکھا اور پارٹی پرچم میں تین رنگ شامل کیے۔ لاہور میں 30نومبر 1967کو پیپلز پارٹی کا کنونشن ہوا۔ چاروں صوبوں سے جو نوجوان سیاسی کارکن اور دانشور شریک ہوئے وہ اس عہد کی انتہائی پڑھی لکھی با شعور اور انقلابی قیادت تھی۔ بھٹو صاحب جب ایوب خان کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے تو لاہور کے سارے بڑے سیاسی اور تجارتی گھرانوں کی حویلیاں اور کوٹھیاں انھیں دونوں ہاتھوں سے خوش آمدید کہنے کے لیے دن رات کھلی ہوتی تھیں مگر عوامی بھٹو صاحب نے جب اپنی پارٹی کے کنونشن کے لیے تمام بڑے ہوٹلوں اور ہالوں سے اجازت نہ ملنے کے بعد ان کے وسیع عریض لانوں میں اجلاس کر نے کی درخواست کی تو انھوں نے یک زبان ہو کر کانوں کو ہاتھ لگائے ۔

ان نامساعد حالات میں لاہور کے ایک معروف دانشور اور انجنیئر ڈاکٹر مبشر حسن نے جو بعد میں بھٹو صاحب کی حکومت میں وزیر خزانہ بنے اپنے گھر میں کنونشن کر نے کی پیشکش کی حکومت کی جانب سے یہ دھمکی ملی اگر کنونشن یہاں ہوا تو گھر کو آگ لگا دی جائے گی۔ بھٹوصاحب پر بڑا دبائو تھا کہ وہ کنونشن کی تاریخ ملتوی کر دیں مگر انھوں نے اپنے ساتھیوں  سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ ۔ ایوب خان کی ساری مشینری اور رکاوٹوں کے باوجود ملک بھر سے تقریبا چھ سو مندوبین شریک ہوئے اور متفقہ طور پر بھٹو صاحب کو پارٹی کا سربراہ منتخب کر لیا گیا ۔ پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت سے متعلق جناب بھٹو صاحب نے اپنے موقف کا اظہار ایک خصوصی تحریر میں کیا ’’پاکستان اپنی آزاد اور خود مختار زندگی کے تیسرے عشرے میں داخل ہو رہا ہے لیکن بارہ کروڑ پاکستانیوں کے تمام بنیادی مسائل کا حل اور ان کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے معاشرے میں رشوت ستانی، نفسانفسی اور کینہ پروری کا اس قدر دور دورہ ہے کہ ہماری اخلاقی اور سماجی زندگی تیزی سے پستی کی جانب جا رہی ہے لوگوں میں بد دلی اور مایوسی پھیل رہی ہے اور حکومت کے نظم و نسق کی اہلیت پر سے اعتماد اٹھ گیا خصوصاً غریبوں اور محنت کش طبقوں کے حقوق اور امنگوں کو جس بے دردی سے نظر انداز کیا گیا اس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔

یہ غریب اور محنت کش لوگ ہی تھے جن کے بل بوتے پر معاشی اور اقتصادی میدان میں سر مایہ داروں کے لیے بے انتہا ترقی کے مواقع پیدا ہوئے لیکن ان لوگوں کی ترقی کے لیے جو ہماری آبادی کی اکثریت ہیں مختلف حکومتوں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اس کا نتیجہ نکلا کہ غربت اور افلاس ہمارے محنت کش طبقوں کو گھن کی طرح کھانے لگی ۔ نوکر شاہی اور حکومت کے اہل کار بجائے لوگوں کی بہبود کی طرف متوجہ ہوتے۔ انھوں نے سیاسی کشمکش میں سیاست دانوں کے شانہ بشانہ اس آزاد ملک کے خادم بننے کی بجائے اس کے حاکم بن گئے۔ غریب اور سفید پوش طبقے کے لیے افراط زر اور دن بدن بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ نا قابل برداشت ہو تا جا رہا ہے، نئی نسل اور ہمارا دانشور طبقہ بے حسی اور بے مقصدیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹی ہماری موجودہ سیاسی پارٹیوں کی تاریخ اور سیاسی نظریات کو سلجھانے میں ممد و معاون ثابت ہو گی کیونکہ یہ کام ہماری نئی سیاسی پارٹی مخلصانہ طور پر بغیر کسی تعصب یا ذاتی عناد کے کرے گی موجودہ حالات میں اس لیے بھی ایک نئی پارٹی بے حد ضروری تھی کہ اس کے بغیر ترقی پسند عناصر کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ عدل و انصاف پر مبنی ایک نیا نظام قائم کیا جائے جس میں ملک کے کمزور عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ یہ کام اور فرض ایک نئی سیاسی جماعت ہی ادا کر سکتی ہے ۔

’’پیپلز پارٹی کے نعرے اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں کو پاکستان کے غریب کچلے ہوئے طبقات نے پر جوش استقبال کیا اور پاکستان کے عوام کو یہ یقین ہو گیا کہ صرف وہ ہی عوام کی غربت دور کر سکتی ہے ۔ اس کی کوشش انھیں پیپلز پارٹی کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان میں محسوس ہوئی اس نعرے میں وہ ہی عوامی اپیل تھی جو 1971میں بھارتی انتخابات کے دوران اندرا گاندھی کے نعرے غریبی ہٹاؤ میں تھی۔ جناب بھٹو صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں چلائی گئی عوامی انقلابی تحریک کے نتیجے میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیادپر7دسمبر کو عام انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ملک کو آئین 90ہزار سے زائد بھارت میں قید فوجیوں کی باعزت رہائی ، روز گار، انصاف ، حقوق سے محروم لوگوں کو حقوق، بے زبانوں کو زبان جیسے ان گنت کارنامے سرانجام دئیے ۔ 5جولائی 1977کی رات پاکستان کی تاریخ کی سیاہ ترین رات تھی اس سیاہ رات میں جنرل ضیاء نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا عوام کی مرضی کے خلاف تختہ الٹ دیا اور طاقت کے زور پر حکومت پر قابض ہو گیا اور بھٹو صاحب کو ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے 4اپریل کی صبح2بج کر 12منٹ پر شہید کر دیا گیا ۔ جب پاکستان کے عوام نے اپنا اتحاد قائم کیا تھا اور ملک بھر کے غریبوں ، محنت کشوں، مزدوروں ، کسانوں کو ایک طاقت ملی تھی تو اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی آواز تھی ۔بھٹو شہید نے پاکستان کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یہ آواز ایک طاقت بن گئی اس طاقت کا نام پاکستان پیپلز پارٹی ہے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے پاکستان کے عوام کا شعور مزید بلند کر دیا وہ پھر متحد ہونے لگے۔

جس نے پیپلز پارٹی کو چھوڑا اس کا نام و نشان مٹ گیا لیکن پیپلز پارٹی برقرار رہی پیپلز پارٹی کے وجود کو مٹانے کے لیے بھٹوز میں تفریق پیدا کر نے کی کوشش کی گئی جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو شاہنواز بھٹو کو پر اسرار طریقے سے شہید کر دیا گیا اس کے بعد پیپلز پارٹی پر دوسرا بڑا وار کیا گیا مرتضی بھٹو کو شہید کر دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور عوام کا سفر جاری رہا۔ پی پی پی کی قوت کو توڑنے کے لیے اور عوام کو کمزور کر نے کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف علی زرداری پر مقدمات قائم کیے گئے جناب آصف زرداری کو ساڑھے 11سال جیل میں رکھا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر پاکستان آنے کے دروازے بند کر دئیے گئے لیکن تمام مظالم کے باوجود پیپلز پارٹی اور عوام کاسفر نہ رک سکا کیونکہ پاکستان کے عوام انتہائی با شعور ہیں انھیں کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا جس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 18اکتوبر 2007کو کراچی آئیں تو  3 لاکھ سے زائد افراد ان کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کے عوام کو یہ امید دینے پاکستان آئیں کہ میں ان کی طاقت کو کمزور نہیں ہو نے دوں گی ملک میں عوامی راج قائم کروں گی ایک ایسا راج جس میں غریبوں کو عزت ملے گی ان کو روز گار ملے گا ان کو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا تو وہ قوتیں جو پاکستان کی خیر خواں نہیں ہیں اور ناجائز طریقے سے انھیں دبا کر جبراً اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہیں وہ قوتیں شدید پریشان ہو گئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے وہ قوتیں بھی خوفزدہ تھیں جو پاکستان کو صدیوں پیچھے لے جانا چاہتی ہیں اسی لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ۔  پاکستان کے عوام کی پی پی پی کے ساتھ جد و جہد 45سال کی جدوجہد ہے آج بھی جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی پی اور عوام کا سفر جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنی قبروں سے پاکستان کے عوام کی رہنمائی کر رہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اپنی قوت اور طاقت کو بکھرنے مت دینا انھیں کمزور نہیں ہو نے دینا اب وہ وقت دور نہیں جب جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان خوشحال مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔