سیاسی صف بندیاں یا خود غرضیاں

نصرت جاوید  جمعـء 30 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جب اقتدار تک پہنچنے کا واحد راستہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت کو اپنی ٹکٹ سے جتوانے کے ذریعے بن رہا ہو تو سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے قریبی دنوں میں تھوڑا بہت خود غرض ہونا ہی پڑتا ہے۔ اسی لیے تو مجھے حیرانی نہیں ہو رہی کہ لاہور سے کسی زمانے میں نام نہاد دائیں بازو کے چہیتے سمجھے جانے والے نواز شریف آج کل اندرون سندھ میں چند ’’ترقی پسندوں‘‘ کو بہت پسند آ رہے ہیں۔ سندھی قوم پرستوں نے ان کی دانست میں ’’ایم کیو ایم کی خوشنودی‘‘ کے لیے بنائے مقامی حکومتوں کے قانون کے خلاف احتجاج کا جو اعلان کیا ہے، نواز شریف نے اس کی بھی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔

آہستہ آہستہ تیاری ہو رہی ہے کہ آیندہ کے انتخابات میں اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی جانب سے کھڑے کیے گئے امیدواروں کا غوث بخش مہر اور مرتضیٰ جتوئی جیسے اپنے تئیں تگڑے امیدوار، دائیں اور بائیں یا قوم پرست اور مرکز پسند جماعتوں کے بنے وسیع تر اتحاد کی مدد سے One-On-One مقابلہ کریں۔ ایسا ہو گیا تو صورت ویسی ہی بن جائے گی جیسی 1977ء میں نظر آئی تھی جب پیپلز پارٹی اکیلی تھی اور مقابلے پر پاکستان قومی اتحاد جس میں ولی خان جیسے ’’سیکولر‘‘ بھی شامل تھے اور میاں طفیل محمد جیسے ’’اسلام پسند‘‘ بھی ۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے مفتی محمود جیسے اکابر اسی اتحاد میں بریلویوں کے مولانا شاہ احمد نورانی کے شانہ بشانہ چلے تھے۔ آئی جے آئی کو بنانے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ کسی ایک ’’محب وطن‘‘ امیدوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ’’سیکیورٹی رسک‘‘ کی طرف سے نامزد کیے امیدواروں کو اسمبلیوں میں نہ پہنچنے دیں۔ وقت کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ کبھی یکساں نہیں رہتا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دائیں اور بائیں کی تقسیم ویسے ہی ختم ہو چکی ہے۔

اب لوگوں کی حکومتوں سے توقعات بھی بہت بدل گئی ہیں۔ پی این اے اور اسلامی جمہوری اتحاد والے زمانے اب نہیں رہے۔ اندرون سندھ جو نئی صف بندی ہو رہی ہے وہ ایم کیو ایم کا ردعمل تو ہے لیکن یہ صف بندی کراچی اور اس کے روزمرہ کے حقیقی مسائل سے قطعی بیگانہ بھی نظر آ رہی ہے۔ یہ واضح کر رہی ہے کہ اس میں شامل جماعتیں کراچی کے حوالے سے انتخابی معرکہ آرائی میں حصہ لینے کے لیے خود کو نا اہل تصور کرتی ہیں۔ کراچی سے ایسی لا تعلقی صوبائی سطح کی حد تک شاید نئی صف بندی کرنے والوں کے کچھ کام آ سکے۔ مگر نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت کو اپنا ملک گیر تشخص برقرار رکھنے کے لیے اس کے ساتھ پوری طرح جڑ جانے سے پہلے دوبارہ سوچنا ہو گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ آیندہ انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کو تیار بیٹھے نظر آ رہے ہیں ۔

’’تبدیلی کے نشان‘‘ کے لیے اس پس منظر میں بے تحاشہ امکانات موجود تھے۔ مگر عمران خان کی سوئی ڈرون حملے رکوانے اور پاکستان کو ’’امریکا کی مسلط کردہ جنگ ‘‘ سے باہر نکالنے پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب کے شہروں میں البتہ شریف برادران کے خلاف جارحانہ زبان استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف والے ’’ساڈی واری آن دیو‘‘ کہتے ضرور سنائی دے رہے ہیں۔ وہ سیاست میں جسے Big Picture کہا جاتا ہے ان کی نظروں سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان جیسا ولولہ انگیز ہو سکتا تھا۔ مگر شاہ محمود قریشیوں کو ساتھ بٹھا کر ’’نئے چہروں‘‘ کے دل توڑ دئیے گئے۔ ویسے بھی ان چہروں کی اکثریت اب تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات میں مصروف ہو کر اپنی اہمیت ثابت کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔

ایسے میں ایک اور واقعہ بھی ہو گیا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں مختلف حلقوں پر فوکس کیے کس مضحکہ خیز انداز میں کسی بھی شہر میں چاہے ایک نشست ہی سہی جیتنے کو مرے جا رہی ہیں۔ منگل کو چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی صاحبزادہ فضل کریم سے ملے۔ یہ صاحبزادہ صاحب فیصل آباد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ مگر کچھ دیر بعد انھوں نے دریافت کر لیا کہ رائے ونڈ میں ان سے زیادہ ان ہی کے شہر کے رانا ثناء اللہ کی پذیرائی ہوا کرتی ہے۔ صاحبزادہ صاحب کو اچانک یاد آ گیا کہ ان کا اصل عشق تو اپنے بریلوی مسلک سے ہے۔ انھوں نے اسی حوالے سے اپنی الگ پہچان بنانا شرع کر دی اور سنی اتحاد تحریک بنا کر ’’دہشتگردوں‘‘ کا مقابلہ کرنے چل پڑے۔ صاحبزادہ صاحب نے اپنی الگ سے اڑان بھر لی تو رانا ثناء اللہ مولانا احمد لدھیانوی صاحب کے ساتھ جیپوں میں سفر کرنے لگے۔

معاملہ سیاسی سے زیادہ مسلکی ہونا شروع ہو گیا۔ اب انتخابات کی آمد آمد ہے تو چوہدری برادران صاحبزادہ فضل کریم کو ساتھ ملا کر فیصل آباد کو نواز شریف کے اثر سے واگزار کروانے چل پڑے ہیں۔ بات کھل گئی ہے کہ صاحبزادہ صاحب اب آیندہ فیصل آباد سے قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لیے نواز شریف کا ٹکٹ نہیں لیں گے۔ ق کا ٹکٹ یا حمایت حاصل کریں گے۔ شاید اس کی وجہ سے پیپلز پارٹی بھی ان کے مقابلے پر امیدوار کھڑا نہ کرے اور ان کا کام آسان ہو جائے۔ سنا تو یہ بھی گیا ہے کہ وہ خود کو قومی اسمبلی میں دیکھنا چاہیں گے مگر اپنے صاحبزادے کو بھی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے رانا ثناء اللہ کے مقابلے پر کھڑا کر دیں گے۔ یوں ہوا تو یہ صوبائی اسمبلی کی محض ایک نشست کا انتخابات نہیں، اچھا خاصہ بریلوی /دیوبندی ’’مناظرہ‘‘ ہو جائے گا۔ مگر ایسی باتوں کے مضمرات پر کون غور کرتا ہے۔

مجھے شبہ ہے کہ کسی ایک شخص نے بھی منگل کے روز چوہدری برادران کی صاحبزادہ صاحب سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے ہونے والی گفتگو پر غور کیا ہو گا۔ حاجی حنیف طیب صاحب کے ذریعے ہمیں اس گفتگو میں بار بار بتایا گیا کہ چوہدری برادران اور صاحبزادہ فضل کریم نے ’’نظام مصطفٰےﷺ‘‘ کے قیام کے  لیے ایک ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی کو یاد نہیں آیا تو میں بتائے دیتا ہوں کہ اس ’’نظام‘‘ کا نعرہ سب سے پہلے اس ملک میں 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے نجات حاصل کرنے کے  لیے برپا کی جانے والی تحریک میں لگایا گیا تھا۔ اس نعرے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ لوگ صرف 77ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف جان دینے کو تیار نہیں ہو رہے تھے۔ انھیں مرنے مارنے پر اُکسانے کے  لیے کسی جذباتی حوالے کی ضرورت تھی۔ بہرحال نعرہ ’’نظام مصطفٰےﷺ‘‘ کا لگا اور 5 جولائی 1977ء کو ملک میں ’’خانہ جنگی رکوانے‘‘ کے لیے جنرل ضیاء الحق نمودار ہو گئے اور گیارہ سال تک بھرپور اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ آج کل چوہدری برادران ذوالفقار علی بھٹو کے جانشینوں کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ صاحبزادہ فضل کریم کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ اس جماعت کی آیندہ انتخابات میں کیا مدد کریں گے۔ سوائے رانا ثناء اللہ کی زندگی اجیرن کرنے کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔