محمد دائود رہبر: بحیثیت معروف ادیب

رفیع الزمان زبیری  بدھ 31 اگست 2016

ایک روز ڈاکٹر محمد داؤد رہبر نے آغا بابر سے جنھوں نے پاکستان میں اسٹیج آرائی کی سرگرمیوں میں بڑا کام کیا ہے، یہ کہا کہ تھیٹر کا فن اسلامی اصنافِ فن میں نہیں ہے، تو انھوں نے اس کی تردید نہیں کی بس یہ کہاکہ ایک زمانہ آتا ہے کہ معاشرہ دوسرے معاشروں کے علوم و فنون اور رسوم کو اپنانے لگتا ہے۔

داؤد رہبر اپنے مضمون ’’بساط سخن اور ڈرامے کا اسٹیج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آغا بابر کی یہ دلیل صحیح ہو گی مگر تھیٹر کے مسلمان اداکاروں اور تماشائیوں کی نفسیات مختلف ہوگی، اس لیے کہ اﷲ کے کسی اوتار کی کہانی کسی مسلمان کے شعور میں موجود نہیں ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اسوۂ حسنہ اور بہروپ میں بہت بڑا فرق ہے، اس کا اثر دور رس ہے، چنانچہ اسٹیج پر کوئی اداکار مولانا روم کا روپ دھار کر سامنے آئے تو مسلمان دیکھنے والوں کو وحشت ہو گی‘‘۔

ڈاکٹر داؤد رہبر کا یہ مضمون اس کتاب میں شامل ہے جو محمد اکرام چغتائی نے ’’محمد داؤد رہبر بحیثیت معروف ادیب‘‘ کے عنوان سے مرتب کر کے شایع کی ہے۔ داؤد لکھتے ہیں ’’ڈرامہ کا فن بہروپ کا فن ہے۔ ایکٹر اسٹیج پر آ کر کہتا ہے، لو میں تمہیں فلاں بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈرامہ کی پیشکش کو ’’ذاتِ بدل‘‘ مظاہرہ کہنا چاہیے اور افسانہ اور ناول ’’نام بدل‘‘ کہانی۔ ان اصناف کی نفسیات وقایع نگاری اور وقایع خوانی کی نفسیات سے الگ ہے۔ افسانہ اور ناول کی فضا خالصتاً مؤرخانہ نہیں ہوتی۔ ڈرامہ میں بھی کچھ ایسی ہی بات ہے‘‘۔

ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے، ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلدی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔

جیساکہ اکرام چغتائی کہتے ہیں ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے‘‘۔ اکرام چغتائی کی مرتب کردہ کتاب میں ان کے کچھ وہ مضامین بھی شامل ہیں جو ابھی تک کسی کتاب میں شایع نہیں ہوئے ہیں۔

پروفیسر اقبال اور ڈاکٹر داؤد رہبر دونوں باپ بیٹوں کا مولوی عبدالحق سے گہرا علمی تعلق رہا ہے۔ داؤد رہبر اور مولوی صاحب کے درمیان انیس سال خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا، اس دوران انھیں مولوی صاحب کے بیس خط ملے۔ یہ خطوط سلام و پیام کے عنوان سے کتابی صورت میں شایع ہوئے۔ چغتائی کی مرتب کردہ کتاب میں تیسری صدی ہجری کے ایک شاعر علی بن الجہم پر ایک طویل مضمون شامل ہے، یہ ایک علمی مقالہ ہے، اس میں شاعر پر سیر حاصل تبصرہ اور اشعار کا ترجمہ ہے۔ ایک مضمون میں داؤد رہبر نے گورنمنٹ کالج لاہور کے اپنے استادوں کا تذکرہ کیا ہے۔

ان کی تصویر کشی کی ہے۔ داؤد کا گورنمنٹ کالج میں دور 1941 سے 1945 تک کا تھا۔ انگریزی کے چار پروفیسروں نے انھیں انگریزی نظم اور نثر کے انتخابات پڑھائے۔ ان چاروں کے پاس انگلستان کی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں تھیں۔ اپنے ان پروفیسروں کا تعارف وہ یوں کراتے ہیں۔ ’’پروفیسر نندہ میخوار اور رنگیلے آدمی تھے، پنجابی میں ڈرامے لکھتے تھے اور انھیں اسٹیج پر پیش کرتے تھے۔ پروفیسر بلدون ڈھینگرا لاڈلے راجکماروں کا سا مزاج رکھتے تھے، مٹک مٹک کر چلتے تھے۔ پنجابی مادری زبان تھی لیکن دوستوں اور طلبا سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ تیسرے استاد معین صاحب تھے، نئے نئے آکسفورڈ سے بی اے کی ڈگری لے کر آئے تھے۔ چھوٹے قد کے مختصر آدمی تھے بلکہ مخفف، پکے گانوں کے شوقین تھے، راگ پہچان لیتے تھے۔ چوتھے ڈاکٹر محمد صادق تھے، نستعلیق آدمی تھے، انگریزی عبارت یا شعر کی شرح میں اردو بولنے کی ضرورت محسوس کرتے تو اردو بولنے لگتے تھے‘‘۔

داؤد رہبر نے اپنے عربی کے استاد کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے، یہ مولوی کریم بخش تھے۔ ان کی چند خاص باتیں تھیں۔ تصویر کبھی نہیں کھنچواتے تھے اور اپنی کلاس میں کسی طالبہ کا شریک ہونا کسی شرط پر قبول نہیں کرتے تھے۔ داؤد تقریباً چھ سال ان کے شاگرد رہے۔

اکرام چغتائی کی کتاب میں داؤد رہبر کے کچھ مضامین شخصیت نگاری کی ذیل میں آتے ہیں۔ ایک مضمون میں اپنے والد محترم کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ’’طفلی کا زمانہ ان کا زیادہ تر جالندھر میں گزرا، لڑکپن  فیروز پور اور قصور میں، اس کے بعد چھ سال انھوں نے علی گڑھ میں گزارے اور پھر چار سال کیمبرج (انگلستان) میں۔ انگلستان سے واپس آکر چھبیس سال لاہور میں ہائی اسکول کی تعلیم والد صاحب نے اردو کے ذریعے پائی، اسکول میں کچھ عربی اور کچھ انگریزی بھی سیکھی، ہمارے دادا نے انھیں گھر میں ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ پڑھائی تھی۔ پنجابی مادری زبان تھی، چنانچہ ہمارے والد صاحب کے دماغ کے کمپیوٹر میں پنجابی، اردو، عربی اور انگریزی کی آنکھ مچولی (یا کبڈی) جاری تھی‘‘۔

داؤد رہبر کے کئی مضمون داغ پر ہیں۔ ’’داغ بیتی‘‘ میں وہ کہتے ہیں ’’داغ کی زندگی کی کہانی نہایت رنگین ہے اور ان کا کلام اداسیوں کو دور کرتا ہے‘‘۔

’’ریڈیو برادری کے دو سربراہوں کی آپ بیتیاں‘‘ کے عنوان سے داؤد رہبر کے دو مضمون ہیں، یہ دو سربراہ احمد شاہ بخاری (پطرس) اور ان کے چھوٹے بھائی ذوالفقار علی بخاری ہیں۔ داؤد لکھتے ہیں ’’چھوٹے بخاری صاحب اور بڑے بخاری صاحب دونوں کے رجحان طبع اور اسناد علمی جس کام کے لیے مناسب تھے اسی پر بفضل خدا یہ دونوں بیک وقت مامور ہو گئے، یعنی نشریات ریڈیو کی نگرانی۔ ہمارے دوست اعجاز بٹالوی صاحب کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی ذوق مطالعہ رکھتے تھے لیکن چھوٹے بھائی کے ہاں ذوق مطالعہ ہی نہیں، شوق مطالعہ بھی برقرار تھا اور ان کی علمیت بھائی جان کی علمیت سے کہیں زیادہ تھی۔ کس میدان میں؟ یہ اعجاز صاحب نے نہیں بتایا‘‘۔

ایک تحقیقی مقالہ ان کا ’’مشاعرے کا ارتقا اور اس کی اہمیت‘‘ پر ہے، اس کی تمہید میں داؤد رہبر لکھتے ہیں ’’فارسی اور اردو میں مشاعرہ جس قدر اہمیت رکھتا ہے اسی قدر مورخین ادب نے اس کی تحقیقات میں بے اعتنائی برتی ہے، اس علمی بے نیازی کا الزام فارسی سے زیادہ اردو محققین کے سر ہے، نہ صرف اس لیے کہ ان کی زبان انھی مشاعروں کی بدولت دو سو برس کے قلیل عرصے میں کل دنیا کی زبانوں کی ہم پلہ ہوگئی ہے بلکہ اس لیے کہ یہ مروجہ انسٹیٹیوشن صرف اردو زبان ہی میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور رکھے گا۔ مشاعرہ ایک خالص ہندوستانی چیز ہے اور اردو کی ملکیت ہے‘‘۔

ڈاکٹر داؤد رہبر نے اس پر بھی بحث کی ہے کہ کلچر کیا ہے، عربی لغت میں ثقافت کے معنی ہیں کاٹ چھانٹ، تراش خراش، وضع قطع، ثقافت نسل در نسل جاری رہتی ہے، وہ لکھتے ہیں ’’جڑی بوٹی کو اکھاڑ کر اس کی جگہ کھیت، پھولوں کا باغ یا پھولوں کی کیاری بنانا کلچر ہے۔ جھاڑی کو قینچی سے کاٹ چھانٹ کر اس کی صورت بنانا کلچر ہے۔ علیٰ ہٰذاالقیاس۔ پھول یا پھل کو پووندی کرنا، بال تراش کر ترچھی مانگ نکالنا، اون اور روئی کو کاٹ کر اس کے دھاگوں سے کپڑا بننا اور اس کا لباس بنانا، آرام کے لیے تکیے گھرسے بنانا۔ دودھ سے دہی، مکھن اور پنیر بنانا، گنے کے رس سے شکر اور شکر سے مٹھائیاں تیار کرنا، پتھر اور دھات کے زیور بنانا، پتھر کو تراش کر ضم  کی صورت دینا، مٹی کو پکاکر برتن اور اینٹ بنانا، عمارت کھڑی کرنا، یہ سب باتیں کلچر ہی تو ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔