جلا وطنی ایک ریاستی ناسور

قمر عباس نقوی  جمعرات 1 ستمبر 2016

ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے سلطنت عثمانیہ کے تاریخی ورثے اور سرخ رنگ پر سفید چاند ستارہ پرچم بردار ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن یوریشین سرزمین ترکی میں سِول حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا افسوس ناک واقعے رونما ہوئے ۔اس حقیقت سے قطع نظر کہ یہ فوج کے مخصوص گروپ کی طرف سے ہو یا پوری افواج کی، بغاوت تو بغاوت ہی ہے جسے کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بغاوت چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اپنے اثرات ضرور چھوڑتی ہے جو دیر تک موجود رہتے ہیں۔ترکی میں یہ  ظاہراً  ایک چھوٹا سا بغاوت کا واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر اس کے عالمی تناظرکے پس منظر میں کیا راز پوشیدہ ہیں؟ یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ملک کے مختلف اخبارات میں شایع ہونے والے مضامین اورکالمز کا اپنے اپنے نقطہ نظر سے موضوع بحث ترکی میں ہونے والی اس بغاوت پر تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے۔ایک ایسی واحد اسلامی مملکت جس کی پوری دنیا میں اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ استنبول میں آبنائے باسفورس براعظم ایشیا کو براعظم یورپ سے جدا کرتا ہے ۔ سلطنت عثمانیہ کی سات سو سالہ قدیم اور روحانی ورثے کی تاریخ وسعتوں کا سمندر ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کہاں سے اس کا آغازکیا جائے اورکہاں پر ختم کیا جائے۔ماضی میں آدھے یورپ پر حکمرانی کرنے والے اس خوش نصیب ملک جس کا وقفہ وقفہ سے چار مرتبہ حکمرانی کا اختیار افواج ترکیہ کے پاس رہا اور سیکو لر نظام کے تحت عوام معاشی واقتصادی طور پر بدحالی کا شکار رہے ۔

آمروں نے بھی اپنے تئیں ملک کی خدمت کی لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر عوام کے قریب رہنے اور ان کے شانہ بشانہ ان کی خدمت کا سچا جذبہ ہو تو وہ صرف اور صرف مقامی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔یہی ایک ایسی بنیادی سیڑھی ہے جو براہ راست ملک کے اعلیٰ منصب پر فائزکرسکتی ہے اور ایک مضبوط سربراہ بننے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے یعنی(GrossRoot  Level)

ترکی کے موجودہ جمہوری صدر اور سربراہ مملکت ترکیہ اردگان نے اپنے سیاسی کیریرکا آغاز انھی بلدیاتی نظام سے شروع کیا اوراستنبول کے میئر کی حیثیت میں بلاشبہ استنبول کودنیا کا مثالی سیاحتی شہر بنا دیا۔ایک کامیاب میئر سے وزیراعظم اور پھر صدر منتخب ہوئے ۔ترقی اس انداز میں کی کہ عوام کو معاشی بدحالی اوراقتصادی دلدل سے نکال کر خوشحالی کا وہ چسکا دیا کہ وہ جانوں کی پرواہ کیے بغیر طاقتور افواج کے ٹینکوں کے سامنے آہنی دیوار ثابت ہوئے اور فوج کو ہتھیار پھینکنے پر مجبورکردیا۔عوام نے ثابت کیا کہ جو ان کی خدمت کرتے ہیں تو وہ بھی مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردگان کے سیاسی سفر میں نشیب وفراز بھی یقینا آئے ہوں گے اور ٹیم میں شامل کچھ ہم سفرپالیسیوں کا اختلاف کر تے ہوئے علیحدہ بھی ہوئے ہوں گے ۔ایسا ضرور ممکن ہوا ہوگا۔یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جب وہ شہرت کی بلندی چھولیتا ہے، تکبر اورطاقت کے گھمنڈ میں کھوجاتا ہے۔ طبیعت میں لچک کی بجائے سختی اورذاتی انا کا شکار ہو جاتا ہے ۔بس یہی ایک نکتہ عروج ہے جہاں سے اس کے زوال کا گراف رفتہ رفتہ نیچے گرنے لگتا ہے ۔

یہ ملک آپ کا اپنا گھر ہے۔ علم نفسیات کا تقاضہ ہے کہ گھر میں رہنے والے لوگ عادات واطوار کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوسکتے ہیں ۔ہم آہنگی کا فقدان بھی ہوسکتا ہے ۔کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ گھر میں رہنے والے لوگوں کے آپس کے اختلافات گھر میں ہی باہمی گفت و شنید سے حل ہوجائیں تو وہ گھر نہ صرف خوشیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے بلکہ ایک مضبوط اورمنظم خاندان کی حیثیت سے منظر عام پرآجاتا ہے ۔’’جیو اورجینے دو ‘‘کی پالیسی اپنائے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ جہاں مفاد ہوگا وہاں فساد تو ضرور ہوگا۔

اس بغاوت کے پسِ پشت بلاشبہ بیرونی قوتوںکا ہاتھ کہا جاسکتا ہے ۔کیونکہ بیرونی طاقتور دنیا کے اپنے مفادات بھی تو شامل حال ہوتے ہیں اور بیرونی دنیا کا ازل سے یہ چلن رہا ہے کہ گھر سے بندہ اٹھاؤ اوراس سے مطلوبہ کام کرواؤ۔قابل افسوس اور قابل حیرت ہے یہ امرکہ رجب طیب اردگان کے اس طویل سیاسی سفرکے قافلے میں شامل اردگان کے ہمسفر صوفیانہ مزاج کے 75سالہ عالم دین اور مفکر فتح اللہ گولن گزشتہ 20سال سے امریکا کی ریاست پنسلوانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘۔جلاوطنی ہنستی بستی ریاستوں کی تباہی کے لیے ایک ایسا زہر یلا بیج ہے جس سے نفرت کی فصل پروان چڑھتی ہے ۔

اس لیے صاحب اقتدارکا فرض ہے کہ طاقت کا توازن رکھتے ہوئے اپنے ناراض ہمسفر سے نرم اور مصالحانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے باہمی گفت وشنید کی راہ اختیار کرتے ہوئے مخالفین کی رائے کا احترام کرے۔اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں دو اہم پہلو سامنے آتے ہیں ۔پہلا پہلو عوام کی بھرپور حمایت کیوجہ سے بھرپور اختیارات کا حاصل ہونا ہے جس سے جمہوری سربراہ کی بجائے آمریت کی شکل اختیارکرجانا ہے ۔ایسی صورت میں اردگان کو چاہیے اپنی طبیعت میں انکساری پیدا کرتے ہوئے نرم اورلچکدار رویہ اختیارکرنے کی کوشش کر ے۔ ریاستی طاقت کے استعمال کی بجائے بات چیت کا طریقہ اختیارکیا جائے بلکہ یہ زیادہ موثر عمل ہو گاکہ حکومت سے دستبردار ہوکر اپنی ہی پارٹی کے ہم خیال کو صدر کے منصب پر فائزکردے ۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد،  جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا، سنگاپور کے سربراہ مملکت کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔

دوسرا اہم اور قابلِ غور پہلو جمہوری تقاضوں کو پورا کر تے ہوئے عالمی طاقتوں کی طرف سے اپنی سر زمین کو سیاسی پناہ گاہ بنانے کی سرگرم پالیسی ۔ان کو ہر قسم کی مالی اعانت کی گارنٹی کی فراہمی ان ممالک کا وطیرہ رہا ہے ۔اگر آپ مطالعہ کریں توان ممالک کے اندرونی حالات خراب ہیں جہاں صاحب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان جنگ میں بیرون دنیا نے ہوا نہ دی ہو ۔ شایدمیرے ان خیالات سے صاحب فکر پہلے ہی اس حقیقت سے واقف ہوں۔صدر اردگان کا براہ راست یہ الزام کہ اس پوری سازش میں فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے ۔

جس کی وہ خود متعدد بار تردید بھی کرچکے ہیں۔ہوسکتا ہے ان کی تردید کسی حد تک سچ پر مبنی بھی ہو۔ بہرحال فوج کسی بھی ملک کی وہ عسکری قوت ہے جو مجموعی طور پر اپنے ملک کی سرحدوں کی دفاع کی حلف یافتہ ہوتی ہے  جب کہ افواج ترکیہ کے لیے اس وقت کئی محاذوں پر دفاع کا سامنا ہے ۔ فوج اورعوام کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ترکی جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے جنوب مشرقی ایشیا اورجنوب مغربی یورپ کا اہم حصہ ہے جس کی سرحدیں اپنے ہی آٹھ پڑوسی ممالک شام ، عراق، ایران ،آرمینیاء ، آذربائیجان، جارجیا، یونان اور بلغاریہ سے ملتی ہیں ۔مشرق وسطی کے حوالے سے تین ممالک شام ، عراق اور ایران ترکی کے لیے اہم ہیں ۔شام خانہ جنگی کی  زد میں ہے جب کہ عراق داعش جیسی خونی تنظیم کے ظلم وستم کا شکار ہے۔

پاکستان کے ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات ہر سطح پر پرامید ہیں۔ترکی پاکستان میں طے شدہ معاہدوں کے تحت اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں کوشاں ہے۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد کا میٹروبس پروجیکٹ ترکی ہی کا شاخسانہ ہے ۔

پاکستان اور ترکی میں دو دہماکہ خیز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ترکی میں عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر فوجی بغاوت کوناکام بنایا ادھر پاکستان میں نوزائیدہ Move Onپارٹی نے آرمی چیف کی تصویر کے ساتھ مختلف شہروں میں چسپاں کر کے فوج کو آنے کی دعوت دی، یعنی ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ‘‘۔بہت خوب!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔