بارش کا آزاد پانی

عبدالقادر حسن  جمعـء 2 ستمبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بارش کے بغیر ایک ’زندہ‘ زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں اور ہم بارانی علاقوں والے تو بارش کے ہر قطرے کو مقدس سمجھتے ہیں اور بسم اللہ سے اس کا استقبال کرتے ہیں کہ اسی میں ہماری زندگی ہے اور اس کے بغیر ہم زندہ نہیں  رہ سکتے۔ خشک زمین سے تو ہمیں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں مل سکتی اور بارش کے زندہ قطروں کے بغیر ہم کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتے۔

ان دنوں ملک بھر میں بارش ہو رہی ہے کہیں کم کہیں زیادہ۔ ہم اگر گن سکیں تو ان بارانی قطروں کا حساب کریں اور اسے اپنی تاریخ میں درج کر لیں وہ بھی سنہرے حروف میں کہ بارش کے ان قطروں سے قیمتی شے اور کیا ہو سکتی ہے۔ میں گاؤں کی بات کر رہا ہوں کہ جب ہمارے کھیتوں کے ہونٹوں پر پیاس کی پپٹریاں جم جاتی ہیں تو زندگی ایک ایسے خطرے میں گھر جاتی ہے جس سے اس کا بچاؤ صرف بارش سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ تب کاشتکار اور عام آدمی سبھی اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں انفرادی اور اجتماعی طور پر دونوں طریقوں سے اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم کرے گا ایسے میں رحم کے چند قطرے بھی زندگی لوٹا دیتے ہیں اور یہی بارشی قطرے زندگی بن کر ادھ موئی انسانی زندگی کو زندہ کر دیتے ہیں۔

قحط سے مرنے والی زمین جی اٹھتی ہے اور اس کی خشک زندگی میں نئی بہار آ جاتی ہے۔ اسی نئی بہار کا نام زندگی ہے۔ بارش اور زمین کا یہ قدیمی رشتہ کاشتکار اور عام زندگی کو لوٹا دیتا ہے۔ سبھی جی اٹھتے ہیں قدرت انھیں نئی زندگی عطا کرتی ہے۔ کاشتکار تو خیر بارش کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا شہری لوگ جن کے لیے پانی صرف نلکے سے نکلنے والے مشروب کا نام ہے پانی کے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ میرے گاؤں سے آنے والی ایک بزرگ خاتون میری مہمان ٹھہری اور وضو کے لیے اس نے جب پانی کی ٹوٹی کھولی تو دم بخود رہ گئی کہ پانی کتنی آسانی کے ساتھ میسر ہے۔ ادھر نلکے کی ایک ٹوٹی کھولی اور ادھر پانی فر فر کرتا باہر نکل آیا اور نکلتا ہی آیا۔

پورے گھر کو دھو ڈالا ہر برتن صاف کر لیا گیا اور پھر بھی غسل خانے میں پانی افراط کے ساتھ موجود۔ میرے گاؤں کے ایک مہمان غسل خانے سے بہت جلد برائے نام نہاکر باہر نکل آئے۔ میں نے اس جلدی کی وجہ پوچھی کہ غسل خانے میں کوئی خرابی ہے تو اسے ٹھیک کرائیں لیکن پتہ چلا کہ وہ تو اس ڈر سے جلد ہی باہر نکل آئے کہ پانی کہیں ختم نہ ہو جائے اور وہ جمعہ کے دن بھی پوری طرح نہائے دھوئے بغیر رہ جائیں۔ ان کو واپس بھیجا گیا کہ جائیں خوب اطمینان کے ساتھ نہائیں پانی ختم نہیں ہو گا بلکہ لاہور میں تو پانی ہر جگہ موجود رہتا ہے۔

ایک پہر بارش ہوتی ہے تو چار پہر پانی سڑکوں اور گلی کوچوں میں رواں دواں رہتا ہے۔ لاہور کے باسی میاں نواز شریف نے اس شہر کے لیے بہت کچھ کیا مگر بارش کے پانی کے نکاس کا کوئی بندوبست نہ کر سکے۔ معلوم ہوتا ہے بارشی پانی ان کی حکومت سے زیادہ طاقت ور ہے اگر انھیں بارش کے بعد شہر میں ایک عام شہری کی حیثیت سے باہر نکلنا پڑتا تو لاہور کو ’پیرس‘ بنانے کا منظر دیکھ لیتے ویسے یہ شہر بارش کے بعد اٹلی کے شہر وینس جیسا ضرور دکھائی دیتا ہے جو پانی میں آباد ہے اور اس کے راستے پانی میں سے گزرتے ہیں۔

ان راستوں پر کشتیاں چلتی ہیں ویسے بارش کے بعد لاہور بھی پیرس تو نہیں وینس ضرور بن جاتا ہے یورپ کا ایک اور مشہور شہر جو زیادہ تر پانی میں آباد ہے اور جہاں سواری کے لیے کشتیاں میسر رہتی ہیں ورنہ یہ شہر بند ہو جائے جیسے لاہور بارش کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ یہاں کے فٹ پاتھوں پر بھی پانی اتنی مقدار میں ضرور رہتا ہے کہ جس میں اگر چلیں تو آدھے کپڑے گیلے اور گندے ہو جائیں مگر لاہور ایک غریب شہر ہے اور غریبوں کا مسکن۔ یہاں نخرے نہیں چلتے۔ گھر کی خواتین یا دھوبی چلتا ہے۔ میاں صاحب نے اگر اس شہر میں سے پانی کے نکاس پر کچھ توجہ کی ہوتی تو ہر بارش کے بعد لوگ ان کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے اور حکومت کی بدانتظامی کا گلہ نہ کرتے۔ ہمارے ہاں بہت ساری خرابیاں حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے ہیں۔

مرحوم و مغفور مولانا صلاح الدین کے ایک صاحبزادے جو کسی سی ایس پی سے بھی اونچے عہدے پر فائز تھے جب ملک سے باہر جانے لگے یعنی لاہور کو چھوڑ کر تو انھوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی اور کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کو بہت جلد ایک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہو گا ’انتظامی بحران‘۔ ملک میں انتظامی صلاحیتیں رکھنے والے ختم ہو رہے ہیں یا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جن کے بغیر یہ چل نہیں سکے گا اور ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ شہری زندگی میں اگر کوئی گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے تو اس کا علاج نہیں ملتا کیونکہ اس کا علاج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

وہ زمانہ شاید گزر گیا ہے جب کسی بڑی خرابی کو متعلقہ محکمے والے اپنی بے عزتی سمجھتے تھے۔ میں نے ایک مدت تک رپورٹنگ کی ہے اور دیکھا ہے کہ کسی خرابی کے بظاہر ذمے دار محکمے اور افسر کس حد تک پریشان ہو جاتے تھے اور اپنی نااہلی کو چھپاتے تھے۔ ان دنوں بارشوں کا زمانہ ہے اور لاہور شہر ہر روز ایک جھیل کا منظر پیش کرتا ہے مگر بارش کے اس فالتو پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔ پانی کے خشک ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے یعنی لاہور شہر بارش کے رحم وکرم پر زندہ رہتا ہے کبھی جھیل بن جاتا ہے اور جب موسم بدلتا ہے تو خود بخود خشک ہو جاتا ہے یعنی جو بارش کی مرضی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔