بس شیشہ ٹوٹ گیا

شہلا اعجاز  پير 31 اکتوبر 2016
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

کوئی تین برس قبل وہ چین گئی تھی، یہ اس کا پہلا بیرون ملک کا دورہ تھا، بہت پرجوش تھی، اسے ملبوسات بنانے والی اس بڑی فیکٹری میں نوکری کرتے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا، فیشن ڈیزائنگ کی ڈگری حاصل کرتے کبھی سوچا نہ تھا کہ اس طرح اتنی جلدی اسے مصنوعات کی خریداری کے لیے چین جانا پڑے گا۔ سب کچھ بہت اچھا تھا، چین کے لوگ ویسے بھی پاکستانیوں کے لیے اپنے دل میں بڑی محبت رکھتے ہیں لیکن کھانوں کے اعتبار سے وہ کچھ خائف تھی کہ کہیں کھانے میں کوئی حرام چیز نہ چلی جائے، لیکن کوئی ایسی شکایت نہ ہوئی۔

اس دن کپڑوں کی خریداری کے لیے ان کے گروپ کو ریٹیل مارکیٹ جانا تھا، اپنے ملک اور موسم کے لحاظ سے کپڑے کا انتخاب بہت اہم تھا، وہ نہایت انہماک سے اپنے کام میں مشغول تھی کہ اچانک چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ خاتون زور زور سے چیخ رہی تھی اور مرد اسے بری طرح پیٹ رہا تھا، ایسے جیسے وہ خاتون نہیں کوئی مرد ہو۔

یہ منظر اس کے لیے نہایت دلخراش تھا، اس سے پہلے اس نے کبھی کسی خاتون کو اس طرح کسی مرد سے پیٹتے نہیں دیکھا تھا۔ شکر ہے خدا کا کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں، ہمہ وقت اپنے ملک کی برائی ہی کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی ہمارے ملک عورتوں کی اتنی تو عزت کی جاتی ہے کہ اسے سرعام کوئی غیر مرد اس طرح مارنا تو کیا، ہاتھ بھی اٹھانے کو شرم محسوس کرتا ہے۔ اس نے خدا کا بہت شکر ادا کیا اور مطمئن ہوگئی۔ لیکن اب اس کے ساتھ میرے اور مجھ جیسی بہت سی خواتین کے اعتماد کو شدید ٹھیس لگی ہے، ہم سب گھر سے باہر آتے جاتے ہیں، مختلف کام کرتے ہیں، ضرورتاً سودا خریدتے ہیں، تفریحات، بکنگ کرتے ہیں، بھری پری سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہیں۔

بہت سی خواتین مردوں کے بیچ فیکٹری میں کام کرتی ہیں، ہر گھر میں کسی نہ کسی خاتون اور بچیوں کو کسی نہ کسی کام سے جانا ہی پڑتا ہے۔ بچیاں، لڑکیاں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں بسوں، ویگنوں سے لٹک لٹک کر سفر کرتی ہیں، گھنٹوں چنگچی رکشوں کے انتظار میں دھوپ میں خوار ہوتی ہیں۔ ہماری شناخت ہے، پہچان ہے، ہم پاکستانی ہیں، ہم مہاجر بھی ہیں، پٹھان بھی، بلوچی، سندھی، پنجابی، سرائیکی ہر مذہب، ہر نسل کی ہیں لیکن ہم انسان ہیں، اسی شناخت پر ٹھپہ لگانے کے لیے ہمیں اپنے شناختی کارڈز بھی بنوانے پڑتے ہیں، ملک سے باہر ضرورتاً، مجبوراً یا مذہبی فریضے کے تحت جانے کے لیے پاسپورٹ بھی بنوانے پڑتے ہیں کیوںکہ یہ ضروری ہے، بہت ضروری، ورنہ ہم پاکستانی کہلانے سے محروم رہ سکتے ہیں۔ اس بہت ضروری اور بہت اہم کام کے لیے ہمیں گھروں سے نکلنا پڑتا ہے، صبح سے دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اتنی خواری کے بعد جب دھوپ کی تمازت سے کوئی کمزور خاتون چکراکر گرنے لگتی ہے یا اس کا بلڈ پریشر بڑھنے لگتا ہے تو وہ اپنی کسی ساتھی خاتون، بچے یا پڑوسن کو کہہ کر چند گھڑی چھاؤں میں گزارتی ہے اور جب اس طویل قطار میں کھڑا رہنے کے بعد اسے مذکورہ دفتر کے دروازے میں بھیڑ بکریوں کی طرح اندر گھسنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے وجود میں ٹھنڈ سی اتر جاتی ہے، بس اب کام ہوجائے گا۔

یہ اس دفتر سے نہیں بنے گا، آپ کو اس کے لیے مرکزی دفتر جانا ہوگا یا فلاں دفتر جانا ہوگا اور اس کے سارے سکون کے آنے والے دنوں کے خواب ڈھیر ہوجاتے ہیں کہ ابھی اذیت کا ایک اور سفر ہے۔

بات صرف اسی اذیت تک محدود رہتی تو بھی صبر تھا لیکن دفتر والوں کے مزاج، سیکیورٹی کے عملے کی خونخوار نگاہیں، ساتھ ہی ایسا برتاؤ کہ جیسے قطار میں کھڑے حضرات و خواتین اندر اپنا شناختی کارڈ بنوانے نہیں جارہے بلکہ قیدی ہوں، جن کا سیکیورٹی گارڈز سے نہیں سخت گیر قبیلے سے ملاکھڑا ہو۔ خواتین تو کیا مرد حضرات بھی وہاں ان کو خوش رکھنے اور اچھے بچے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلاوجہ بات خراب ہونے کی صورت میں ان پر ہی چھترول ہوگی۔

’’میرا گجر نالے والے آفس سے کارڈ بننا تھا، میں گھر سے ناشتہ کرکے صبح نو بجے کی نکلی ہوئی تھی، لائن میں لگی تو نہ سر پر کوئی چھاؤں نہ سایہ، گرمیوں کے دن، سخت دھوپ، صبح سے ہی نکلی ہوئی تھی، نہ پوچھیے اوپر سے میرے آگے والی عورت نے دماغ خراب کر رکھا تھا، اسے اپنی بہو کا شناختی کارڈ بنواناتھا، کبھی کچھ لینے جارہی، کبھی کچھ، اس کی کسی خاتون سے معمولی سی بات ہوئی تو اس نے قریب سے گزرنے والے رائفل بردار گارڈ سے شکایت کردی کہ یہ محترمہ ہمیں کھڑا نہیں ہونے دے رہیں،حالانکہ بات سی بات بھی نہ تھی، بہرحال گارڈ کو دیکھئے، فرماتے ہیں کہ میں لائن سے ہاتھ پکڑ کرباہر نکال دیتا ہوں، وہ خاتون بھی جی دار تھیں، غصے میں آگئی اور ذرا چیخ کر بولیں نکالو میرا ہاتھ پکڑکر باہر۔ گارڈ کا خیال تھا کہ خاتون بھی رائفل دیکھ کر دبک کر رہ جائے گی، پر ان کی کوئی غلطی نہ تھی اور پھر ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ یہ تاثرات تھے ایک خاتون کے جو اپنا شناختی کارڈ ایک طویل اذیت ناک دقت گزار کر بنوانے کے لیے دے کر آئی تھیں۔

نادرا کے آفس میں مار کٹائی، ہنگامہ ہم سب سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن اعلیٰ مقامات پر بیٹھ کر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ عوام ایک دفتر کے چند ملازمین سے کس طرح مستعدی سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آپ کسی بھی نادرا کے دفتر جائیں اور ان کے حاضر ملازمین کی تعداد کی گنتی کریں پھر باہر طویل قطاروں میں کھڑے لوگوں کی گنتی آکر کرسکتے ہیں، تو کریں، فرق خود سمجھ میں آجائے گا۔ اقربا پروری، رشوت ستانی کس طرح ایک عام شخص کو رلا رہی ہے۔ وہ نہ کسی وزیر کی سمجھ میں آسکتا ہے اور نہ ہی اپنے تعلقات کی بنا پر بڑے سکون سے کارڈ حاصل کرنے والوں کی سمجھ میں کہ یہ ایک طویل بحث ہے۔

بات شروع ہوئی تھی میرے پیارے پاکستان میں عورت کی عزت سے۔ یہاں سڑکوں، بازاروں اور دیگر تفریحی مقامات پر خواتین سے بلا وجہ ٹکرانے والے بہت ہوتے ہیں، مجھے خوف ہے کہ کیا اب نئی روایت پڑ رہی ہے، اب اگر کسی کی بہن بیٹی یا ماں کو ایسے ہی کسی بدتمیز مرد پر غصہ آگیا تو کیا وہ بھی چین کے اس مرد کی طرح خاتون پر پل پڑے گا؟ کیا تھپڑوں کی آوازیں اسلام آباد سے کراچی تک سنائی دیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔