میک ملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی کب تیرا

سعید پرویز  اتوار 20 نومبر 2016

ڈونلڈ ٹرمپ ہر تجزیے میں ہار رہا تھا۔ دنیا کہہ رہی تھی کہ ہلیری ہی جیتے گی، مگر جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو ٹرمپ صاحب جیتے ہوئے نکلے اور ہلیری ہاری ہوئی۔ امریکی صدارتی انتخاب کو ہوئے آج تقریباً دس روز ہوچکے مگر پورے امریکا میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اور بڑے ٹھیک ٹھاک مظاہرے ہورہے ہیں۔ یہ کیسا الیکشن ہوا ہے کہ زیادہ ووٹ ہلیری نے حاصل کیے ہیں اور پھر بھی وہ ہار گئی۔ کہتے ہیں کچھ ’’خاص ووٹ‘‘ ہوتے ہیں، وہاں ٹرمپ کو زیادہ ووٹ مل گئے، ان خاص ووٹوں کی وجہ سے ’’عوام‘‘ ہار گئے ’’خواص‘‘ جیت گئے۔

چلو جی! امریکا میں صدارتی الیکشن ہوا، وہاں جو ہوا سو ہوا ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘ ہمیں کیا! وہاں کون جیتا کون ہارا، ہمارے لیے تو دونوں ہی ایک جیسے ہیں، ہلیری آجاتی تو اس نے کون سا ہمارے گھر ’’دانوں‘‘ سے بھردینے تھے۔ بھئی اول و آخر امریکی، امریکی ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے جیسا ہمارے ہاں سڑکیں بھری ہوتی ہیں، ہر کھمبے پر بینر لٹکا ہوا نظر آتا ہے ’’پہلے پاکستان‘‘۔ یہ ’’پہلے پاکستان‘‘ ہمارے ہاں عملاً ’’سب سے آخر پاکستان‘‘ ہوتا ہے۔ پاکستان سے پہلے بہت کچھ اور ہے جو ہوتا ہے اور پاکستان کا عوام ’’کھوتا‘‘ ہے۔

یہ کھوتا پنجابی زبان والا نہیں ہے بلکہ اردو والا کھوتا ہے یعنی محروم رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمران، ہمارے دولت والے، اﷲ کی زمین پر ناجائز قابض جاگیردار، وڈیرے عوام کو پنجابی والا ’’کھوتا‘‘ ہی سمجھتے ہیں، ان کے لیے ہم عوام کھوتے یعنی گدھے ہیں۔ ’’ہم‘‘ دولت مندوں کا بوجھ اٹھائے چلتے رہیں، بھاگتے رہیں اور پھر مر جائیں۔مگر امریکا سرکار پوری دنیا کا نمبر ون ملک، وہاں ایسا نہیں ہے، جیسا یہاں ہے۔ وہاں ’’پہلے امریکا‘‘ کا مطلب پہلے امریکا ہی ہے۔ وہاں صدارتی انتخاب میں کوئی بھی جیتے اس نے وہی کرنا ہے جو امریکا کے حق میں ہو۔

صدر اوباما جیتا تو خصوصاً پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ’’ارے ہمارا مسلمان جیت گیا، اس کا نام مبارک حسین ہے‘‘، یہ سچ ہے کہ صدر اوباما کے دادا مسلمان ہوگئے تھے۔ صدر صاحب کی دادی نے ایک دو سال ہوئے فریضہ حج بھی ادا کیا تھا مگر اوباما نے امریکی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور وہ بھی صدقِ دل سے۔ ہماری طرح نہیں کہ حلف پاکستان سے وفاداری کا اٹھایا جارہا ہے اور دل میں چور ہے کہ حلف کے بعد ہر وہ کام کرینگے جو پاکستان کے خلاف ہو گا۔ وہ ہمارے اماں ابا کہا کرتے تھے ’’دل وِچ کنڈی پاپ دی، باوا نام جپے‘‘ یعنی ’’دل میں پاپ کی گرہ لگی ہوئی ہے اور زبان پر اﷲ اﷲ ہے‘‘۔ امریکی صدر بارک اوباما کے دادا مسلمان تھے، مگر والد عیسائی تھے۔

بالفرض اگر اوباما مسلمان بھی ہوتے تب بھی انھوں نے یہی کرنا تھا جو وہ اپنے دور اقتدار میں دنیا کے ساتھ کرتے رہے۔ افغانستان، پاکستان ودیگر مسلم ممالک شدید خلفشار کا شکار رہے، البتہ ایک سیاہ فام کا پہلی مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونا بہت بڑا واقعہ تھا اور اس انتخاب میں سفید فام لوگوں کا ہی سب سے بڑا کردار تھا۔ اوباما ایک سیاہ فام کا وائٹ ہاؤس میں داخلہ، ان کی بیگم کا وائٹ ہاؤس کی گیلری سے دیدارِ عام، تاریخی لمحہ تھا۔ دنیا بھر کے سیاہ فام اوباما کی فتح کو اپنی فتح قرار دے رہے تھے۔ کنگ لوتھر اور ان کے ساتھی بہت یاد آئے، لوممبا بہت یاد آئے اور ایسے عظیم لوگ جب یاد آتے ہیں تو بہت یاد آتے ہیں۔ لگتا ہے انسان بیدار ہورہا ہے اور آخر بیداری تو آکر ہی رہے گی، مگر بقول درویش شاعر ساغر صدیقی:

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے

ابھی فریب نہ کھاؤ، بڑا اندھیرا ہے

اس وائٹ ہاؤس سے ہی پوری دنیا میں اندھیرے ہیں۔ جنگ ہے، اسلحہ ہے، بموں کی بارش ہے، ٹینکوں کی یلغار ہے، زہریلی گیس ہے، آباد شہروں کی بربادی ہے، ہنستے بستے لوگوں کی تباہی ہے۔ یہ کیسا ’’سفید گھر‘‘ ہے، جہاں کے مہرے دنیا کا توازن بگاڑے ہوئے ہیں اور خلقِ خدا کو جینے نہیں دیتے، مرنے بھی نہیں دیتے۔

ہمیں کسی خوش فہمی میں بلکہ کسی بھی ’’فہمی‘‘ میں نہیں رہنا چاہیے، ہم یعنی اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم لوگ! ہمیں اپنی اندھیر دنیا میں سویرے لانے ہیں، بس اسی خیال میں رہنا چاہیے۔ یہ امریکا شمریکا کے الیکشن، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، یہ تو پاکستان میں عوام کے حقوق پر قابضین کے سوچنے کی باتیں ہیں اور یہ قابضین پرانے تجزیہ کاروں کی آل اولاد ہیں، وہ انھیں سمجھا کر گئے ہیں کہ ہر ظالم و جابر کے آگے جھکے رہو اور ہر مظلوم کو اپنے سامنے جھکائے رکھو۔

امریکا میں ہلیری ہار گئی، ہمیں کیا، اس نے جیت کر کون سا ہم مظلوموں کو پیار کے ’’ہلارے‘‘ دینے تھے اور اگر ٹرمپ ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ کی صورت آگیا ہے تو بھی ہمیں کیا، ہمارے پاس ہے کیا، جو چھن جائے گا اور وہ قابض ان کا بھی کچھ نہیں بگڑتا، کیوںکہ ٹرمپ کے سامنے وہ مزید اچھے انداز میں جھک جائیںگے۔

ابھی کچھ دیر کو ٹی وی کے سامنے سے گزر ہوا ’’پیپلزپارٹی‘‘ والے مولا بخش چانڈیو فرمارہے تھے ’’حیدرآباد کے لوگوں کو دو دن سے پانی نہیں ملا‘‘۔ سرکار چانڈیو صاحب! میں نے آپ کے نام سے آپ کا بیان نقل کردیا ہے مگر آپ اسے اپنا بیان نہ سمجھیے گا، یہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے، یہ خواجہ آصف نے کہا ہے، یہ چوہدری گجرات والوں نے کہا ہے، یہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ سب خوش رہیں اور ’’منرل واٹر پیتے رہیں‘‘ یہاں تو ’’مظلوم پاکستانی‘‘ اور گدھے، گھوڑے، کتے ایک ہی گھاٹ کا پانی پی رہے ہیں اور بفضل تعالیٰ جی رہے ہیں۔ اگر انھیں منرل واٹر مل گیا اور انھوں نے پی لیا تو مرجائیںگے۔ اب یہ پتا نہیں کہ (غالب سے معذرت کے ساتھ کہ خوشی سے مر نہ جائے) منرل واٹر کی خوشی میں یا اسے پی کر۔ باقی سرکار صاحبان! آپ بے فکر رہیں اور بیانات داغتے رہیں، بھوکے پیاسے رہ کر بھی ان کا ووٹ آپ ہی کا ہے، یہ خود صندوق میں ڈال دیں یا آپ ڈال دیں۔

امریکا میں ٹرمپ آگیا۔ جالب کے اشعار سن لیں یہ:

نام چلے ہر نام داس کا،کام چلے امریکا کا

مورکھ اس کوشش میں ہے، سورج نہ ڈھلے امریکا کا

نردھن کی آنکھوں میں آنسو، آج بھی ہیں اور کل بھی تھے

برلا کے گھر دیوالی ہے، تیل جلے امریکا کا

……

قرض دے کر غریب ملکوں کو

چھین لیتا ہے روح آزادی

آج زیر عتاب ہے اس کے

ہر بڑا شہر، ہر حسیں وادی

مدتوں سر اٹھا کے چل نہ سکا

اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا

صاف دامن بچا گیا ہم سے

جب بھی مشکل کوئی مقام آیا

اور یہ مصرعہ بھی حبیب جالب ہی کا ہے، نظم طویل ہے پھر کبھی سہی:

میک ملن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی کب تیرا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔