رنگ اور روشنی کی دنیا میں یوں گزرے یہ بارہ مہینے

ندیم سبحان  اتوار 30 دسمبر 2012
2012 ء میں بچوں کے مقبول عام ویڈیوگیمز، کھلونوں اور کامک بُک اسٹوریز کو فلمی قالب میں ڈھالنے کا رجحان ایک بار پھر مقبول ہوا.  فوٹو: فائل

2012 ء میں بچوں کے مقبول عام ویڈیوگیمز، کھلونوں اور کامک بُک اسٹوریز کو فلمی قالب میں ڈھالنے کا رجحان ایک بار پھر مقبول ہوا. فوٹو: فائل

بولی وڈ: 2012ء ہندی فلم انڈسٹری کے لیے کام یاب سال ثابت ہوا۔

اس سال نمائش کے لیے پیش کی جانے والی بیشتر فلمیں پسند کی گئیں۔ مجموعی طور پر سپراسٹارز فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ سلمان خان، عامر خان،  اکشے کمار، شاہ رخ خان، اجے دیوگن، ریتھک روشن اور سنجے دت کی فلموں نے ہندی فلموں کے شائقین کو زبردست تفریح فراہم کی۔ ان سپراسٹارز کی بیشتر فلمیں سپرہٹ رہیں اور سو کروڑ روپے سے زاید کما کر ’’سو کروڑ کلب‘‘ میں شامل ہوگئیں۔ ’’سو کروڑ کلب‘‘ کی اصطلاح  2012ء ہی میں سامنے آئی۔ اور ایک معیار کی حیثیت اختیار کرگئی۔ متذکرہ بالا اداکاروں کی جو فلمیں  2012ء میں زبردست مقبول ہوئیں ان میں سلمان خان کی ’’ ایک تھا ٹائیگر‘‘، عامر خان کی ’’ تلاش‘‘، اکشے کمار کی ’’ راؤڈی راٹھور‘‘ اور ’’ کھلاڑی 786‘‘، شاہ رخ خان کی ’’جب تک ہیں جاں‘‘، ریتھک روشن کی ’’ اگنی پت‘‘، اجے دیوگن کی ’’سن آف سردار‘‘شامل ہیں۔ مؤخرالذکر دونوں فلموں میں سنجے دت نے بھی اہم رول کیے تھے۔

بولی وڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مردوں کی فلم انڈسٹری ہے، تاہم 2012ء میں اداکاراؤں نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور شائقین فلم سے خوب خوب داد پائی۔ ودیا بالن نے ’’کہانی‘‘ میں یادگار پرفارمینس کے ذریعے اپنی شہرت کا دائرہ مزید وسیع کیا۔ ’’ایک میں ایک تو‘‘، ’’ ہیروئن‘‘ اور ’’ تلاش‘‘ جیسی فلموں میں خوب صورت اداکاری کے ذریعے کرینا کپور اپنے مداحوں کی توقعات پر پوری اتریں۔ ’’ راؤڈی راٹھور‘‘، ’’جوکر‘‘، ’’سن آف سردار‘‘ اور ’’ دبنگ ٹو‘‘ میں  ’ دبنگ گرل‘ سناکشی سنہا کی اداکاری نے ناظرین کا دل موہ لیا۔

سپراسٹارز کی سپرہٹ فلموں کے علاوہ  2012ء میں نئے اور قدرے کم معروف اداکاروں کی فلمیں بھی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔ بڑے بجٹ کی بیشتر فلموں کا اسکرپٹ روایتی تھا، ان فلموں کی پسندیدگی کی اہم وجہ کاسٹ میں بڑے ناموں کی شمولیت تھی، مگر محدود بجٹ کی فلموں کو سپراسٹارز کا سہارا حاصل نہیں تھا، اس کے باوجود یہ فلمیں پسند کی گئیں۔ اس کا سبب ان فلموں کی منفرد کہانی، اچھوتا اسکرپٹ اور اداکاروں کی جان دار اداکاری تھی۔ ’’گینگز آف واسع پور‘‘، ’’کہانی‘‘، ’’وکی ڈونر‘‘ اور ’’پان سنگھ تومر‘‘ چھوٹے بجٹ کی چند ایسی فلمیں تھیں جن سے لطف اندوز ہونے کے لیے سنیماؤں کے باہر شائقین کی قطاریں لگی رہیں۔ سوائے ’’کہانی‘‘ کے (جس میں ودیا بالن مرکزی اداکارہ تھیں) ان تمام فلموں کی مرکزی کاسٹ میں غیرمعروف اداکار شامل تھے۔

2012ء اس لحاظ سے بھی ایک اہم سال ثابت ہوا کہ اس برس فلم سازوں اور فلم بینوں، دونوں ہی نے نئے چہروں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ ان میں ایوشمن کھرانہ اور یمی گوتم (وکی ڈونر)؛ ارجن کپور اور پرینیتا چوپڑا ( عشق  زادے )؛ ورن دھون، سدھارتھ ملہوترا اور عالیہ بھٹ ( اسٹوڈنٹ آف دی ایئر) شامل ہیں۔

اس برس فلموں کو  ای کامرس ویب سائٹس پر ریلیز کرنے کا رجحان بھی سامنے آیا۔  ’’ہیروئن‘‘ ، ’’جل پری‘‘،  ’’کاک ٹیل‘‘ اور ’’ برفی‘‘ کی تشہیر کے لیے ان فلموں کے پروڈیوسرز نے معروف بھارتی ای کامرس ویب سائٹ سے معاہدے کیے۔

2012ء کو بولی وڈ میں شادیوں کا سال بھی کہا جاسکتا ہے۔  سال کے آغاز میں رتیش دیش مکھ اور جینلیا ڈی سوزا نے کئی برس پرانی دوستی کو رشتۂ ازدواج میں بدل دیا۔ جون میں دھرمیندر اور ہیما مالنی کی بیٹی ایشا دیول پیا گھر سدھاری اور اکتوبر میں سیف اور کرینا ہمیشہ کے لیے ایک ہوگئے۔ او رپھر چودہ دسمبر کو ودیا بالن، مسز سدھارتھ رائے کپور ہوگئیں۔

ہالی وڈ :

2012ء ہالی وڈ کے لیے ملا جُلا سال رہا، جہاں کچھ فلموں نے پروڈیوسرز کے بینک بیلنس میں نمایاں اضافہ کیا وہیں کچھ فلمیں لاگت بھی بہ مشکل پوری کرپائیں۔ Twilight سیریز کی پانچویں اور آخری فلم Breaking Dawn – Part 2  سال کی سب سے کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ دور حاضر کے مقبول ترین ستاروں؛ کرسٹن اسٹیورٹ، رابرٹ پیٹنسن اور ٹیلر لاٹنر کی اس فلم کی تکمیل پر بارہ کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ نومبر کے وسط میں ریلیز ہونے والی یہ فلم سال کے اختتام تک  80 کروڑ ڈالر کما چکی تھی۔ اس کے علاوہ جن فلموں نے ناظرین کی توجہ حاصل کی ان میں بیٹ مین سیریز کی فلم The Dark Knight Rises، جیمز سیریز کی تئیسویں فلم Skyfall، والٹ ڈزنی اسٹوڈیوز کی فلم The Avengers، اسپائیڈر مین سیریز کی چوتھی فلم The Amazing Spider-Man، یونیورسل پکچرز کی Battleship، کولمبیا پکچرز کی Men in Black 3،  The Hunger Games اور The Hobbit کے علاوہ کئی فلمیں شامل ہیں۔

ہالی وڈ میں سلسلے وار فلموں اور پرانی فلموں کو نئے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ درحقیقت دوسری فلمی صنعتوں میں فلموں کے سیکوئل اور ری میک بنانے کا رجحان ہالی وڈ ہی سے آیا ہے۔ امریکی فلم انڈسٹری میں پرانی فلموں کے ری میک پسند کیے جاتے ہیں لیکن  کچھ عرصے سے یہ رجحان غیر مقبول ہونے لگا ہے۔ 2012ء میں ماضی کی کئی سپرہٹ فلموں کے ری میک ناکامی سے دوچار ہوئے اور فلم سازوں کو بھاری نقصان سے دوچار کرگئے۔ ان فلموں میں Total Recall، Conan the Barbarian ، Arthur  ، Let Me In اور 3:10 کے ری میکس شامل تھے۔ ہالی وڈ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ ری میک فلموں کے فلاپ ہونے کا سب سے اہم سبب ان کا موجودہ دور سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ فلم ساز اگر ان کی کہانی میں تبدیلی کرتے ہوئے انھیں موجودہ دور سے ہم آہنگ کرتے تو ان فلموں کے ناکام ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔

2012 ء میں بچوں کے مقبول عام ویڈیوگیمز، کھلونوں اور کامک بُک اسٹوریز کو فلمی قالب میں ڈھالنے کا رجحان ایک بار پھر مقبول ہوا۔ اس کی وجہ یونیورسل پکچرز کی فلم Battleship کی شان دار کام یابی تھی۔ کئی برسوں سے ہالی وڈ میں انوکھے اور منفرد آئیڈیاز کی قلت محسوس کی جارہی ہے جس کی وجہ سے فلم سازوں نے  ان موضوعات کو سیلولائیڈ پر منتقل کرنے پر مرکوز کردی جو عوام میں پہلے ہی مقبول ہیں۔ Battleship کے علاوہ Candy Land سے لے کر Cluedo تک کئی قسم کے بورڈ گیمز پر فلمیں بنانے کی تیاریاں جاری رہیں۔ بورڈ گیمز کے علاوہ خلاء سے متعلق گیمز جیسے Asteroids اور Space Invaders  کو بھی سنیما اسکرین پر پیش کر نے کی جانب پیش رفت کی گئی۔

2012ء میں ہالی وڈ میں چین کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا۔ امریکی فلم ساز اپنی فلموں میں چینیوں کو منفی کرداروں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ اب ہالی وڈ کے فلم اسٹوڈیوز سنیما اسکرین پر چین کا مثبت امیج پیش کررہے ہیں۔ دراصل چین کی وسیع و عریض فلمی مارکیٹ نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ فلموں کی آمدنی کے لحاظ سے چین دنیا کی دوسری سب سے  بڑی فلمی مارکیٹ بن چکا ہے۔  چین ہالی وڈ کے لیے اہم ترین ذریعۂ آمدن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔  2011ء میں امریکی فلم سازوں نے چین کی فلمی مارکیٹ سے 2 ارب ڈالر کمائے تھے۔ غیرملکی فلموں کی تعداد میں اضافے کے بعد یہ آمدنی دگنی سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ چین میں سنیماؤں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالی وڈ کے تمام فلم سازوں سمیت وہ اسٹوڈیوز بھی  چینی فلم سینسر بورڈ کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے فلمیں بنانے پر مجبور ہوگئے جو ماضی میں چینیوں کو ولین کے رُوپ میں پیش کرتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔