پُرانے ہوگئے

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 22 مارچ 2017
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

ویسے تو ہمیں پہلے دن سے ہی یہ خدشہ تھا کہ سندھ کے نئے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ بھی کوئی کرشمہ نہیں دکھاپائیں گے لیکن ہم نے پھر بھی تھوڑی دیرکے لیے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اپنے پیشرو وزیرِ اعلیٰ کی نسبت شایدکچھ بہتر طرزِحکومت کی مثال قائم کر پائیں گے اورکراچی شہر کی ہی حالت بدل دیں گے۔ لگ رہا تھا کہ وہ چونکہ ایک جواں سال اورپرعزم سیاستداں ہیں، قائم علی شاہ سے بہت مختلف ہوں گے اورنڈراورجرأت مندانہ فیصلے کر جائیں گے لیکن بہت جلد ہمارا یہ خیال غلط ثابت ہو گیا۔صرف دفتر وقت پر پہنچنے کے علاوہ کوئی ایسا کرشمہ وہ دکھا نہیں پائے کہ اُنہیں روایتی سیاستداں سے مختلف گردانہ جا سکے۔ وہ سوائے بیان بازی کے اب تک کوئی حیران کن کارکردگی دکھا نہیں سکے اور کوئی ایسی پالیسی بھی نہیں دے پائے کہ اُمیدکی جا سکے کہ ہاں اب سندھ کے لوگوں کے حالات بدل جائیں گے۔

سندھ وہ بدقسمت صوبہ ہے جس کے حالات دیگر تمام صوبوں کے نسبت انتہائی ابتر اور خراب ہیں۔ گوٹھ، دیہات اور گاؤں توگاؤں شہروں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اسپتالوں اور اسکولوں کو دیکھ کر یہ قطعا ً نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کسی ایٹمی قوت کا درجہ پانے والی ریاست کا کوئی علاقہ ہے۔ یہاں تعلیم اور علاج معالجہ کی بنیادی سہولتیں تو ندارد ہی ہیں مگر اسکولوں، اسپتالوں اور پبلک ہیلتھ سینٹرزکی عمارتوں کی حالت بھی کسی ہڑپہ اورموئن جودڑو سے کم خستہ نہیں۔کہیں چھت ٹپک رہی ہے توکسی اسکول میں سرے سے چھت ہی نہیں۔

بچے سخت گرمی میں زمین پر بیٹھ کر ایسے اُستادوں سے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جنھیں خود اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہی حالت زار اسپتالوں کی بھی ہے جہاں علاج کی ضروری سہولتیں تو کیا سرے سے ڈاکٹرز ہی موجود نہیں۔ اکثر اوقات پیرا میڈیکل اسٹاف ہی مریضوں کو علاج تجویزکرتا دکھائی دیتا ہے۔ جمہوری ادوار کے تقریباً تیس سالوں پر محیط یہاں حق حکمرانی صرف پاکستان پیپلزپارٹی کو حاصل رہا لیکن صوبے کی حالت وہی کی وہی ہے جو اُن کے اقتدارمیں آنے سے پہلے تھی۔

شہرکراچی کو قائم علی شاہ کے دور میں تو بالکل لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا۔ چھ سات سال تک کسی نے کوئی دلچسپی ہی نہیں لی۔جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، کچرا کنڈیاں گند اُگلتی دکھائی دے رہی تھیں۔ شہرکا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ ٹریفک کا دن بھر جام رہنا وبال جان بن چکا تھا۔ درازی ِ عمر کی وجہ سے وزیرِاعلیٰ کے اندرکام کرنے کا ولولہ تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ وہ صرف وقت گزارنے اور طویل ترین دورانیے کا وزیرِ اعلیٰ بننے کی تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کا غم وغصہ بڑھنے لگا اور وہ احتجاج کے لیے مختلف طریقے اختیارکرنے لگے۔ گٹروں پر سندھ کے وزیرِاعلیٰ کے تصویر لگانے کا سلسلہ بھی اُنہی کے دور میں شروع کیا گیا۔

پھر خبرآئی کہ سندھ کی با اثر سیاسی شخصیت نے وزیرِاعلیٰ بدلنے کا مجبوراً فیصلہ کر ہی لیا اور نئے نام کے طور پر قرعہ مراد علی شاہ کے نام نکلا ہے۔ لوگ یہ سمجھے کہ چلو ایک عمر رسیدہ شخص سے جان چھوٹی اور اب کوئی جواں سال اور نئی سوچ کا حامل شخص شاید اُن کے قسمت بدلنے میں کوئی اہم کردار ادا کر پائے گا۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ساری خوش فہمی چند ماہ میں ہی دھری کے دھری رہ گئی۔ بظاہر دیکھنے میں جوش وجذبہ کا حامل یہ شخص بھی اپنے پیشرو سے کچھ مختلف نہیں نکلا۔ نہ سندھ کے شہروں کی حالت بدلی اورنہ اندرونِ سندھ کے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی۔ جو کچھ جیسا تھا ویسا ہی رہا۔ صرف وزیرِاعلیٰ کی تصویر بدل گئی۔ کراچی اور پورا سندھ آج بھی اُنہیں مسائل اور مصائب سے دوچار ہے جو اُن سے پہلے دوچار تھا۔

کراچی کے بارے میں ورلڈبینک کی ایک رپورٹ ’’پاکستان اربن ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ‘‘ کے مطابق کراچی اب دنیاکے دس ناقابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جہاں کے پچاس فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ جتنا پانی مل رہا ہے اُس میں بھی سیسے کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ روزانہ 475 ملین گیلن فضلہ بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں گرایا جا رہا ہے، باقی جو بچتا ہے اُسے نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے جس سے سمندر اور فضائی آلودگی میںبے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا کا شاید ہی کوئی ساحلِ سمندر اتنا گندا، بدبو دار اور تعفن زدہ ہو جتنا اِس شہرقائد کا ہے۔ شہرکے لوگ تفریح کے لیے کبھی کبھار ساحلِ سمندرجاتے ہیں تو وہاں نہاکر جِِلدی بیماریاں ساتھ لے آتے ہیں۔ لاپرواہی اور بے حسی کی انتہا ہے کہ دوکروڑ سے زائدآبادی کے اِس شہر میںسیوریج کے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں۔ سرکاری سرپرستی میں بے ہنگم اور بغیرپلاننگ بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیرات نے اِس شہرکا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ روزانہ کی بنیادی پرگاڑیوں کی تعداد میں اضافے کو پیشِ نظررکھتے ہوئے یہاں کوئی مؤثر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بنایا ہی نہیں جا رہا۔ سڑکوں پر ٹریفک جام روزکا معمول ہے۔ گرین، بلیو، ییلو اور نجانے کون کون سے رنگ کی میٹروبس سروس شروع کرنے کا اعلان توکیا گیاہے لیکن اِس منصوبے پر کام کی رفتار دیکھ کر لگتا نہں کہ اگلے الیکشن سے پہلے یہ منصوبہ مکمل ہو پائے۔ چوری، ڈکیتی اوراسٹریٹ کرائمز کا مسئلہ بھی حل کرنا ہنوز سندھ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ روزانہ ہزاروں لوگ لٹتے رہیں، جان سے جاتے رہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔

عوام اورمیڈیا کے شورکرنے پر صفائی ستھرائی کے لیے بظاہر بڑے بڑے اعلانات کیے گئے۔ ایک دو اضلاع میں کہا گیا کہ چین کی کسی فرم کو صفائی کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے مگر نتیجہ صفرکا صفر۔ چاروناچار بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے رضاکارانہ طور پر اِس کام کا بیڑا ازخوداُٹھا لیا ہے۔ لیکن متعلقہ حکومتوں کی جانب سے تاحال اِس کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیاگیا۔ شہرکراچی کے لیے 20 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ہوا ہے لیکن شاید اُن کا بھی انجام اربوں روپوں کے سابقہ پیکیجوں سے مختلف نہ ہوگا۔محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے دور ِاقتدار میں کراچی کے لیے اربوں روپے کی پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن وہ پیکیج کہاں خرچ ہوئے کسی کو پتہ نہیں۔سندھ صوبے کا ایک بہت بڑا مسئلہ کرپشن بھی ہے جواُسے ترقی کرنے نہیں دے رہا۔

ہرسال مختص کیے جانے والے ترقیاتی فنڈز میں سے نصف سے زائد حصہ کرپشن کی نذرہوجاتا ہے۔ہمارے نئے وزیرِاعلیٰ نے اِس جانب ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اُن کے ارد گرد وہی چہرے سرگرم اور مصروفِ عمل ہیں جن کی وجہ شہرت عوامی خدمت نہیں۔ نئے الیکشن میں اب تقریباً سال بھر کا عرصہ رہ گیا ہے۔20 ارب روپے کے اِس نئے پیکیج کے نتائج اور ثمرات تو اِس دور میں ممکن دکھائی نہیں دیتے۔ اِس طرح یہ پیکیج 5 سال کی بجائے دس سالوں پر محیط ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی اب بھی دنیا کے دیگرمیگاسٹیز کے ہم پلہ ہوسکتا ہے اگر اِس کی مناسب دیکھ بھال اورپلاننگ کی جائے تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ کراچی سٹی ڈویلپمنٹ پلان 2020ء پر مکمل تندہی، تسلسل اورجانفشانی سے کام کیا جائے۔ نیک نیتی،ایمانداری اورخلوصِ نیت کو ہرکام میں بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے یہی فیکٹر ہمارے سیاستدانوں اورحکمرانوں میں بہت کم پایا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔