عشقِ مجازی

مہوش کنول  پير 27 مارچ 2017
عشق یا تو ہوتا نہیں یا پھر ہو کر رہتا ہے، اور پھر جو انسان کسی کی ایک نہیں سنتا وہ اپنی ذات کا غرور تک کسی کے آگے ہار جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

عشق یا تو ہوتا نہیں یا پھر ہو کر رہتا ہے، اور پھر جو انسان کسی کی ایک نہیں سنتا وہ اپنی ذات کا غرور تک کسی کے آگے ہار جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

عشق ایک ایسا جذبہ ہے کہ وہ جس بھی انسان کے لئے آپ میں بیدار ہوجائے تو اُسے عام سے بہت خاص بنا دیتا ہے۔ وہ انسان دنیا کی نظروں میں چاہے جو بھی ہو مگر آپ کے لیے کسی بُت سے کم نہیں ہوتا۔ آپ کسی دیوانے کی طرح اُس کے ارد گرد منڈلانے لگتے ہیں، اُسے پانے کے لئے لاکھوں جتن کرتے ہیں، اگر قسمت سے اُسے پالیں تو ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں کسی بات، کسی حرکت پر وہ جان سے پیارا انسان ناراض نہ ہوجائے، اُس کی خوشی کی خاطر اپنا آپ تک نچھاور کردیتے ہیں، وہ کہے دن تو دن اور وہ کہے رات تو رات۔

پھر ہماری ساری دعاؤں کا دار و مدار بھی وہی ایک شخص ہوتا ہے۔ اُسے کس طرح خوش رکھنا ہے ہر وقت یہ سوچ حاوی رہتی ہے اور اگر کبھی وہ کسی بات پر ناراض ہو جائے تو ہماری جان پر بن آتی ہے کہ کسی طرح کچھ بھی کرکے اُسے منالیا جائے۔

اُس ایک شخص کے آگے باقی تمام رشتوں میں کشش کم ہوجاتی ہے، اُس ایک انسان میں پوری دنیا نظر آتی ہے، لیکن ایسا ضروری نہیں ہوتا کہ جو ہمارے لئے اتنا خاص ہے ہم بھی اُس کے لئے اِسی اہمیت کے حامل ہوں۔ پھر اصل مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کیونکہ اُس کی محبت میں اپنے لئے وہ شدت نا پاکر ہم مایوس ہونے لگتے ہیں، آہستہ آہستہ اپنی ذات میں گم ہوتے جاتے ہیں اور خود پر ایک خول سا چڑھا لیتے ہیں۔

بظاہر تو کچھ نظر نہیں آتا لیکن خود کو اپنے من پسند شخص کے دل میں نا پاکر اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتے ہیں، لیکن اُس شخص سے محبت کرنا نہیں چھوڑتے، ہاں بس فرق یہ آتا ہے کہ اُسے احساس دلانا چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں اِن سب باتوں کا، اپنی محبت کا یقین دلائے تو ہم مشکل سے ہی صحیح لیکن اُس کی محبت کو قبول کرلیتے ہیں، لیکن جب اُس کی محبت میں ذرا سی بھی کمی آتی ہے تو وہ بہت محسوس ہوتی ہے۔

انسان سے عشق کسی کو محبت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے تو کسی کو زمین بوس کردیتا ہے، کوئی بہت کچھ پالیتا ہے تو کوئی اپنی شخصیت تک کھو دیتا ہے اور اپنی ذات کو اُس ایک شخص میں گم کردیتا ہے۔ حالانکہ عشق ہونے سے پہلے ہمیں یہی کام انتہائی پیچیدہ لگتا ہے، ہم ایک زمانے تک اپنے آپ سے لڑتے رہتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی عشق میں خود کو بھُلا کر اپنی ذات کی نفی کرکے کسی دوسرے انسان کے احکامات اور خواہشوں کا پابند ہوجائے؟ لیکن جب ہم عشق میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ سب کرتے ہوئے اپنی پرانی سوچ کو پرے رکھ دیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ نظریں چُرا لیتے ہیں، اور جو کچھ اُس کے لئے کرتے جاتے ہیں اُسی میں اپنی خوشی لگنے لگتی ہے۔

عشق یا تو ہوتا نہیں یا پھر ہوکر رہتا ہے، اور پھر جو انسان کسی کی ایک نہیں سنتا وہ اپنی ذات کا غرور تک کسی کے آگے ہار جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ عشق میں خود کو مٹا کر ہی کسی کا بنا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں یہ کتابی باتیں ہوں گی یا پرانے زمانے کی کوئی گھڑی ہوئی کہانی، کیونکہ آج کل کی محبت سے کون واقف نہیں۔

اب تو وہ معاملہ ہے کہ تو نہیں اور سہی، اور نہیں کوئی اور سہی، لیکن آج بھی ہمارے ارد گرد ایسے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں جو واقعی کسی سے عشق کرتے ہیں اور ساری عمر اپنے عشق کو پروان چڑھانے میں جُتے رہتے ہیں۔ خدا ایسا دل سب کو دے۔

’’آمین‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
مہوش کنول

مہوش کنول

بلاگر جامعہ کراچی سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعد نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔