فیصلہ کس کی توقعات پر پورا اترتا ہے 

زمرد نقوی  پير 24 اپريل 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

آخر کار طویل انتظار کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ آگیا۔ اس دوران عوام سراپا انتظار رہے۔ سپریم کورٹ نے 23 فروری کو طویل سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ طویل انتظار نے ملک کے تمام شعبوں پر اثر ڈالا خاص طور پر معیشت پر۔ اسٹاک ایکسچینج اس سے بری طرح متاثر ہوئی۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ روک کر بیٹھ گئے۔ بڑے فیصلے ملتوی کردیے، اب پانامہ فیصلہ آنے کے بعد بھی ملکی سیاست پر غیر یقینی کے بادل نہیں چھٹے بلکہ مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ آنے والا وقت اس بات کی تصدیق کرے گا۔

پانامہ فیصلہ آتے ہی اپوزیشن نے باجماعت وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ اس بنیاد پر کہ وہ اپنی اخلاقی ساکھ کھو چکے ہیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق ایک جے آئی ٹی ان پر لگے الزامات کی تحقیق کرے گا اور وہ جے آئی ٹی وزیراعظم کے ماتحت ہوگی۔ اس لیے کہ کہیں وزیراعظم اس جے آئی ٹی پر اثر انداز نہ ہوں تحقیقات مکمل ہونے تک ان کا مستعفی ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ صورتحال یہ بنے گی کہ وزیراعظم اس معاملے پر کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گے جب کہ متحدہ اپوزیشن ہر صورت میں استعفیٰ چاہے گی۔ آخر کار یہ تنازعہ سڑکوں پر آکر رہے گا، پھر وہی جلسے جلوس اور دھرنے۔

حقیقت میں نواز شریف حکومت 2013ء کے فوراً بعد سے ہی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بحران کا شکار ہے۔ عمران خان نے حکومت سے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا لیکن حکومت کے مسلسل انکار اور اصرار کے بعد آخر کار عمران خان سڑکوں پر آگئے۔ 014 2 میں لانگ مارچ اور دھرنے کے بعد باوجود نواز شریف حکومت بال بال بچ گئی کیونکہ کچھ اندرونی اور بیرونی عوامل اور پیپلزپارٹی کا کھل کر ساتھ دینے نے نواز شریف حکومت کو بچالیا۔ جب کہ اب پیپلزپارٹی متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہوگی۔

پانامہ کیس کے فیصلے پر حق میں اور مخالفت میں تبصرے جاری ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی عدالت عظمیٰ  نے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا اور تاریخی روایت قائم رکھتے ہوئے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ کہنے والوں میں کوئی اور نہیں اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور خاص طور پر جاوید ہاشمی بھی شامل ہیں کہ حالیہ فیصلے میں بھی نظریہ ضرورت کی روح بول رہی ہے کہ اس طرح نواز شریف کو 60 دن کی مزید مہلت دے دی گئی۔ جب کہ دوسری طرف کے لوگ کہتے ہیں کہ پانامہ فیصلے نے وزیراعظم کو وقتی ریلیف دیا ہے۔

کلین چٹ نہیں دی بلکہ عدالت عظمیٰ نے جی آئی ٹی بناکر وزیراعظم اور ان کے دونوں صاحبزادوں کے خلاف کرپشن کی باضابطہ تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اس حقیقت کو دنیا کے معتبر ترین نشریاتی ادارے شہ سرخیوں میں اس طرح بیان کررہے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا حکم جاری کردیا۔ پانچوں ججز نے متفقہ طور پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دی بلکہ انھیں کرپشن تحقیقات میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں بار ثبوت تمام فریقوں پر تھا لیکن اب جے آئی ٹی میں تمام تر بار ثبوت شریف فیملی پر ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شریف فیملی اگر سپریم کورٹ میں منی ٹریل پیش نہیں کرسکی تو جے آئی ٹی میں کہاں سے لائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ پانامہ جے آئی ٹی ماڈل ٹاؤن سانحہ کی جے آئی ٹی نہیں ہوگی بلکہ اس کی براہ راست نگرانی سپریم کورٹ کا نگران بنچ کرے گا اور اس کے اراکین کے ناموں کی حتمی منظوری بھی عدالت عظمیٰ دے گی۔

سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کے اپنے تفصیلی فیصلے میں 12 سوالات اٹھائے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کی ضرورت ہے کہ گلف اسٹیل ملز کیسے قائم ہوئی۔ اس کو کس وجہ سے بیچا گیا۔ مل پر واجبات کا کیا کیا گیا۔ کس طرح اس مل کو فروخت کیا گیا۔ سرمایہ کس طرح جدہ، قطر اور برطانیہ پہنچا۔ کیا حسین نواز اور حسن نواز 90ء کی دہائی میں جب وہ کمسن تھے لندن فلیٹس خریدنے کے ذرایع رکھتے تھے۔ کیا اچانک سامنے آنے والا قطری خط ایک مفروضہ ہے یا حقیقت۔ آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کا اصل مالک کون ہے۔

حسن نواز شریف کے پاس فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ حسین نواز کی طرف سے بطور تحفہ نواز شریف کو دیے گئے کروڑوں روپے کیسے آئے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ان تمام سوالات کا جواب آنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک مفصل انکوائری ضروری ہے۔

بنچ کے سربراہ جناب آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اختلافی نوٹ لکھے جس میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی گئی۔ یاد رہے کہ یہ دونوں سینئر ججز مستقبل کے چیف جسٹس ہیں۔ پانامہ کیس کے فیصلے کی ابتداء جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے ہوتی ہے جس میں انھوں نے مشہور زمانہ ناول گاڈ فادر کا یہ جملہ درج کیا کہ دولت کے ہر ذخیرے کے پیچھے جرم کی داستان چھپی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لکھا کہ اتفاق ہے کہ یہ جملہ نواز شریف کے خلاف کیس پر صادق آتا ہے۔ بڑی کامیابی کا اصل راز ایک جرم ہے جو ’’مہارت‘‘ سے سرانجام دینے کے باعث سامنے نہیں آیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پانامہ کیس ایسی ہی صورت حال سے مشابہہ ہے۔‘‘معروف صحافی اور اینکر نے 19 اپریل رات کو دس بجے کے قریب ٹیلیفون کرکے متوقع پانامہ فیصلے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ عدالت فوری طور پر نواز شریف کو ہرگز نااہل قرار نہیں دے گی اور نہ ہی کلین چٹ دے گی۔ پانامہ کیس کا فیصلہ ’’8 دس ہفتے‘‘ میں ہو گا۔

23 فروری سے یہ 23 اپریل بنتا ہے لیکن فروری کیونکہ 28 کا تھا اس لیے اس میں مزید دو دن جمع کرنے سے یہ 25 اپریل بن جاتا ہے۔ اب 25 اپریل سے 7 دن منہا کردیے جائیں تو 18 اپریل تاریخ نکلتی ہے۔ اس دن 8 ویں ہفتے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب سپریم کورٹ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ 20 اپریل کو پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

٭… جون سے اگست حکومت کے لیے ناساز گار وقت ہے۔

کیا عجیب اتفاق ہے کہ 20 اپریل کو پانامہ کیس کا فیصلہ سامنے آیا اور 21 کو سابق آرمی چیف راحیل شریف سعودی عرب چلے گئے۔ سعودی عرب راحیل شریف اور نواز شریف کیا سیکونس ہے۔ اس حوالے سے میری پیش گوئی بھی پوری ہوئی۔ آخر میں پوری دنیا سے قارئین کا ممنون ہوں جنہوں نے میری اور میری اہلیہ کی علالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ میں ان کی محبتوں اور دعاؤں کا شکر گزار ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ مکمل صحت یابی تک کچھ ناغے اور ہوجائیں۔

سیل فون: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔