ویلڈن یونس خان

سلیم خالق  منگل 25 اپريل 2017
افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ اہم کارنامہ انجام کرنے کے قریب پہنچے تو انھیں متنازع بنا دیا گیا۔ فوٹو : اے ایف پی/فائل

افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ اہم کارنامہ انجام کرنے کے قریب پہنچے تو انھیں متنازع بنا دیا گیا۔ فوٹو : اے ایف پی/فائل

کیا کوئی کبھی سوچ سکتا تھا کہ مردان سے تعلق رکھنے والا کوئی بچہ بڑا ہو کر ایک دن پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والا بیٹسمین بنے گا مگر یونس خان نے ایسا کر دکھایا، انھوں نے ثابت کیا کہ سخت محنت پر یقین رکھنے والا کوئی انسان بغیر سفارش و لابنگ کے بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے، وہ ہر قسم کی سیاست اور جوڑتوڑ سے بچ کر خاموشی سے صرف اپنے کھیل پر توجہ دیتے رہے جس کی وجہ سے اب ٹیسٹ میں دس ہزار رنز بنانے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہو چکا،ٹیسٹ کرکٹ کو شروع ہوئے ایک صدی گذر چکی، اس دوران ہزاروں کھلاڑیوں نے اپنے ملک کی نمائندگی کا اعزاز پایا ہو گا مگر ان میں سے صرف 13 نے ہی 10 ہزار رنز بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونس کس مقام پر فائز ہوئے ہیں، بیٹنگ کے بیشتر ملکی ریکارڈز انہی کے پاس ہیں،اعدادوشمار کے لحاظ سے وہ اس وقت پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹسمین ہیں لیکن افسوس انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے حقدار ہیں، حد سے زیادہ صاف گو ہونے کے ساتھ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یونس نے ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا، میڈیا میں دوستیاں نہیں بنائیں، ایسے سابق کرکٹرز سے بھی تعلقات نہیں رکھے جو ہمیشہ ان کی تعریف میں زمین آسمان ایک کیے رکھتے،اس کے باوجود مداحوں کے دلوں میں ان کا جو مقام ہے اسے کوئی کم نہیں کر سکتا، سچ بولنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ارباب اختیار کی نظروں میں بھی کھٹکتے رہے،اسی لیے ان کے کارناموں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

2015میں جب وہ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بنے تو بھی اتنی پذیرائی نہیں ملی، جب میں نے کئی بار اس کی نشاندہی کی تو بورڈکے ایک افسر نے کہا کہ ’’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کھلاڑی کوئی ریکارڈ بنائے تو اسے انعام دیا جائے‘‘ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور اب یونس نے ایک اور بڑا اعزاز ملک کے نام کر دیا ہے، کیریئر میں کئی بار ایسا ہوا کہ فارم یا حکام سے خراب تعلقات کی وجہ سے ان کا کیریئر ختم ہوتا دکھائی دیا مگر وہ ہر بار بہترین انداز میں واپس آئے، اس سے ان کی ذہنی پختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، پاکستان میں کم ہی بڑے کھلاڑی نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں مگر یونس نے جو سیکھا اسے نئے پلیئرز میں منتقل کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے دکھائی دیے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ اہم کارنامہ انجام کرنے کے قریب پہنچے تو انھیں متنازع بنا دیا گیا، یونس نے اعلان کیا کہ ’’ویسٹ انڈیز سے سیریز کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘، پھر ایک انٹرویو میں جب سوال ہوا کہ اگر بورڈ کہے کہ واپسی ممکن ہو گی تو انھوں نے ہاں کہہ دیا، بس اسی بات کا بہت بڑا بتنگڑ بنا دیا گیا، ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یونس خان نے بھارت کی جانب سے کھیلنے کا کہہ دیا ہو، سب ان کے پیچھے ہی پڑ گئے، یو ٹرن یو ٹرن کے ایسے نعرے بلند ہوئے کہ انھیں کسی ’’قومی مجرم‘‘ کی طرح ویڈیو بیان میں کہنا پڑا ’’چاہے سیریز کی ہر اننگز میں سنچری بنا دوں پھر بھی ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘اب تو مخالفین خوش ہیں، یہ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ اتنے بڑے بیٹسمین کو ایسا کرنا پڑا، بھارت میں دیکھ لیں سچن ٹنڈولکر کی اب بھی کتنی عزت ہے وہ انھیں سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں ہم اپنے ہیروز کو گراتے ہیں۔

انھوں نے صرف ایک امکان ظاہر کیا تھا یہ نہیں کہا کہ ریٹائرمنٹ واپس لے لیں گے پھر بھی سب پیچھے لگ گئے،اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یونس کیلیے ریٹائرمنٹ کا یہی بہترین وقت ہے، ہم لوگ بہت جلدی کارنامے بھلا دیتے ہیں، ابھی یونس نے دس ہزار رنز بنائے، ہر طرف ان کی واہ واہ ہو رہی ہے، جائیں گے تو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا، ورنہ انضمام الحق کس طرح روتے ہوئے گئے تھے، ورلڈکپ میں ان کی کیا پرفارمنس رہی تھی سب کو یہی یاد ہے اس سے پہلے جو کارنامے انجام دیے اسے سب نے فراموش کر دیا ، یونس کو موجودہ چیف سلیکٹر اتنا پسند نہیں کرتے، یقین مانیے صرف ایک سیریز میں اگر وہ ناکام ہوئے تو ٹیم سے باہر ہو جائیںگے اس لیے عزت سے ہی جانے دیں، کمنٹری کا انھیں شوق نہیں، جس طرح کا مزاج ہے سینئر ٹیموں کی کوچنگ کر نہیں سکتے، ایسے میں بہتر یہی ہے کہ راہول ڈریوڈ کی طرح انھیں جونیئر سائیڈز کے ساتھ منسلک کر دیا جائے، یوں وہ کئی یونس خان منظرعام پر لا سکیں گے، بورڈ کو چاہیے کہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائے، بیچارے مصباح الحق جیسا معاملہ نہ ہو جنھیں شہریارخان نے ڈائریکٹر کرکٹ بنانے کے خواب دکھائے اور نجم سیٹھی اپنے من پسند ہارون رشید کو اس پوسٹ پر لے آئے، اس سے چیئرمین کے اختیارات کا بخوبی اندازہ ہو گیا،اچھا ہی ہوا انھوں نے استعفیٰ دے دیا جسے جلد منظور کر کے نجم سیٹھی کو اس سیٹ پر بٹھا دیا جائے گا۔

مصباح سے وعدہ خلافی ہو گئی، شاہد آفریدی کو کئی بار کہنے کے باوجود الوداعی میچ نہیں دیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والے نجم سیٹھی اب ان سے دبئی میں ملاقات کر کے ٹویٹر پر تصویر جاری کر رہے ہیں، ساتھ ہی آفریدی کو ’’فیئرویل‘‘ کی یقین دہانی بھی کرا دی، ’’بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے‘‘ یقیناً یہ چیئرمین بننے سے قبل بس ایک محاذ بند کرنے کی ہی کوشش ہے، یونس کیلیے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، شہریار خان نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ یونس، مصباح اور آفریدی کیلیے الوداعی تقریب سجائی جائے گی، امید ہے کہ یہ بات صرف اعلان تک محدود نہیں رہے گی، تینوں کرکٹرز کیلیے شایان شان تقریب کا اہتمام کرنا چاہیے،قذافی اسٹیڈیم سے اچھا کوئی مقام نہیں ہو سکتا، اس میں عام لوگوں کو بھی مدعو کریں، گاڑی میں بٹھا کر کھلاڑیوں کو گراؤنڈ کا چکر لگائیں، ان کے اہل خانہ بھی ساتھ ہوں، عظیم کرکٹرز کو اس موقع پر گولڈ میڈلز سے نوازیں، انھوں نے ملک کیلیے جو خدمات انجام دی ہیں یہ سب کچھ اس کے مقابلے میں بہت کم ہو گا، امید ہے بورڈ مایوس نہیں کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔