عالمی ادب کا سرنامہ؛ مائیکرو فکشن

نعیم بیگ  ہفتہ 29 اپريل 2017
کہانی کو الفاظ کی ایک مخصوص تعداد کے اندر ہی سمونا ادیب کی ہنر مندی ہے۔ فوٹو: فائل

کہانی کو الفاظ کی ایک مخصوص تعداد کے اندر ہی سمونا ادیب کی ہنر مندی ہے۔ فوٹو: فائل

سب سے پہلے تو ہمیں مائیکرو فکشن کو اس کے اپنے ادبی و لسانی تناظر میں دیکھنا ہے جہاں سے یہ اصطلاح آئی ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا انگریزی میں مائیکرو فکشن ایک باقاعدہ ادبی صنف ہے بھی کہ نہیں؟ یہ وہ اہم سوال ہیں جن کے جوابات کو ہم سب سے پہلے ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اس کے دیگر عناصر کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔

فکشن کا لفظ اب اردو ادب میں عام فہم ہے۔ اس لفظ کی ادائیگی سے ہی فکشن کا پورا ڈھانچا اپنی ہیئت میں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم جب ہم اس کے ساتھ مائیکرو کا مرکب بناتے ہیں تو یہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسا فکشن جو مختصر الفاظ میں اپنی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک پورا خیال، کہانی یا کردار کو سامنے لائے جہاں قاری اس کی تفہیم میں کسی طور پر ابلاغ کی بھول بھلیوں میں نہ کھو جائے بلکہ مرکزی خیال کی ترسیل اس کے ذہن میں تصویر کی طرح ابھر جائے۔ بالکل اسی طرح علامتی کہانیوں میں استعاروں کا استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کا ابلاغ ابہام سے قریب کرتا ہوا مکمل ہو۔

مائیکرو فکشن یا مختصر افسانہ دراصل الفاظ کی ایک خاص تعداد کا نام نہیں بلکہ کسی بھی کہانی کو مکمل تصویر کرتے ہوئے ادیب الفاظ کی ایک خاص تعداد کے اندر ہی اسے تجسیم کرے۔ دوسرے لفظوں میں کہانی کو الفاظ کی ایک مخصوص تعداد کے اندر ہی سمونا ادیب کی ہنر مندی ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اردو افسانے کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی تو اس قدر وسیع ہیں کہ انہیں ایک سو، تین سو یا پانچ سو الفاظ کے اندر کیسے سمویا جا سکتا ہے۔ ہم آگے چل کر اس سوال پر بھی بات کرتے ہیں۔

انگلش میں مائیکرو فکشن کو فلیش فکشن کی ذیلی یا متوازی شاخ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں کوئی بھی کہانی تجسیم ہوتے ہوئے اپنے داستانی محور سے ہٹتی نہیں بلکہ انہی مخصوص اور نپے تلے الفاظ میں اپنے انجام تک پہنچتی ہے۔ ہاں البتہ اردو میں افسانے کی ساخت و ہیئت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مائیکرو فکشن میں زیادہ محنت کرنی پڑے گی کیوں کہ اردو ادب میں جب ہم کسی کہانی کو تصوراتی دنیا سے الفاظ کا پیراہن پہناتے ہوئے تجسیم کرتے ہیں تو اردو زبان کے لوچ و رچاؤ کا خیال بھی رکھتے ہیں، افسانویت کی ممکنہ شکل کا ادیبانہ محاکمہ بھی لازم ہے۔ پلاٹ و کردار اور اس کی داستانی جمالیات بھی اس شکل کے لازم عناصر ہیں۔

تو آئیے پہلے ابتدائی سوالات کو پرکھ لیتے ہیں۔ مائیکرو فکشن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا مخصوص الفاظ کے اندر پورے خیال کو سمونا کہلاتا ہے۔ انگلش ادب میں اسٹیو المنڈ، ایمی ہیمپل، گراہم جونز اور لیڈیا ڈیوس نے مائیکرو فکشن کو نہ صرف رقم کیا بلکہ ان کی کہانیاں انگریزی ادب میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ جوشیم فرینک اور رومالائین انٹی اب بھی نئی کہانیاں مائیکرو فکشن کی صنف میں تحریر کر رہے ہیں۔ اردو ادب میں منٹو وہ پہلے افسانہ نگار تھے جنہوں نے اس کی ابتدائی شکل ’’ سیاہ حاشیے‘‘ میں پیش کی، جس پر بعد میں گو کوئی زیادہ کام نہیں ہوا۔ تاہم عصر حاضر میں کام کرنے کے مواقع ہیں۔

یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ دو سطری اقوال، مقولے، لطائف، یا ون لائنر کسی صورت مائیکرو فکشن کی تعریف میں نہیں آتے۔ ہم پوری کہانی کو فکشنلائز کرتے ہوئے جب اردو میں لکھیں گے تو اردو لسانی و ثقافتی مروجہ ادبی روایات اس مختصر افسانے میں سموئیں گے۔ مرکزی خیال کو کردار یا واقعیت نگاری سے مزیّن کریں گے اور اس کے ساتھ مربوط حتمی اور کہانی کو مکمل کر دینے والا انجام بھی عطا کریں گے۔

یہاں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر ہم کیوں مائیکرو فکشن کا اہتمام کریں؟ کیوں اسے ترقی و ترویج دیں؟ قاری کے نقطۂ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی مصروف دنیا میں وقت کی کمی ایک ایسا عنصر ہے جس پر ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ملکوں میں اب قابو پانا ممکن نہیں رہا، لیکن انسانی ذہنی آسودگی کو برقرار رکھنے اور انسانی جمالیات کو حساس ہونے سے بچانے کے لیے ادب اور انٹرٹینمنٹ کا سہارا ضروری ہے، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ طویل افسانے یا ناول نہیں پڑھ سکتے، لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی صنف کی ضرورت محسوس کی گئی جسے ہم مائیکرو فکشن کہتے ہیں۔

اسی طرح ایک ادیب کے پاس انہی اصولوں کے پیشِ نظر اپنے ہنر اور فن کے بہترین استعمال کا موقع میسر آتا ہے جہاں ادیبانہ صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے مختصر افسانہ لکھنا ایک چیلنج سے کم نہیں، وہیں خیال کی ندرت اور متنوع اصنافی اسلوب و بیانیہ اس کی ہنر مندی کی شان ہے۔

مختصر افسانہ اپنے وجود میں تلخ و شیریں بیانیہ لیے اپنے دور کا وہ تیز ترین خیال ہے جو گلوبل دنیا میں اپنی اثر پذیری سے عالمی بصیرت کے تمام در وا کر دے گا اور گلوبل معاشرے کے لیے تنہا ہی نئی دنیا آباد کرے گا۔ میری رائے میں جو نوجوان ادیب اب فکشن لکھ رہے ہیں انہیں مائیکرو فکشن میں لکھنا ضروری ہے۔ اس سے بہترین الفاظ کا چناؤ، ان کا درست استعمال، الفاظ کی فریزنگ (یعنی لفظ سے جملہ سازی)، مختصر مکالمہ اگر ہو اور کردار و واقعیت نگاری کے مربوط جملہ اجزائے ترکیبی سے اثرپزیر کہانیاں وجود میں آئیں گی۔

میں یہاں اپنے قارئین کے لیے ایک انگریزی مائیکرو فکشن کہانی پیش کرتا ہوں جس کا ترجمہ میں نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ ایک مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کہانی میرے نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ اس کا مصنف ہے جو ایشیائی نام رکھتا ہے جو یقینی طور پر اردو ادب سے واقف ضرور ہوگا۔ اسی لیے اس کہانی میں آپ کسی حد تک مغربی ثقافت کے ساتھ ایشیائی ثقافت بھی محسوس کریں گے۔

عنوان: سب سے آخر میں

’’جب سے اس کی بیوی پادری کے ساتھ نکلی تھی، میتھیو اکثر بار اور پبز میں ہی پایا جاتا تھا۔ وہ کسانوں کی طرح بے تحاشا شراب پیتا۔ گزرتی ہوئی ٹرین کی وسل کو مسلسل سنتا رہتا اور بیتھی کے بارے میں اکثر جھوٹ بولتا کہ وہ مر چکی ہے۔ وہ اپنے خوش گوار دنوں کی یاد میں ڈوب جاتا جہاں ذمہ داریاں صرف ایک سایے کی مانند تھیں۔ وہ جونئیر منٹس کو بچوں کے پاس چھوڑتا، قطار در قطار اپارٹمنٹس کے پاس سے گزرتا ہوا، اجنبیوں پر اچٹتی نظر ڈالتا ہوا، اپنے ذہن کے اندر ان کی شناخت کو مار دیتا۔

اس کا ذہن بیتھی کے لکھے اس نوٹ پر تیز و تند ہوا کی مانند کانوں میں سائیں کرتا ہوا گزر جاتا جس میں لکھا تھا کہ ’’اس کے سامنے بڑے مقاصد ہیں، اور تم بھی بڑا مقصد رکھتے ہو۔‘

وہ اکثر جیوک باکسسز کے پاس کھڑی لڑکی سے جھوٹ بولتا اور کہتا اسے کینسر تھا، لیکن وہ اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ وہ تنہائی میں چاند سے بھی باتیں کرتا اور اپنے اندر کے خالی پن کو یقین کی حد تک لے جانے میں کام یاب ہوجاتا کہ وہ ہی دنیا کا سب سے آخری شخص ہے جسے بیتھی نے چھوڑا تھا۔‘‘

(یہ کہانی ایک انگریزی ویب سائٹ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر یاشعر سید بخاری ہیں)

اس کہانی سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ گو انگلش میں افسانویت کا اس قدر اہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ کہانی کے اتار چڑھاؤ سے اس کی کیفیات کو رقم کیا جاتا ہے اور لفظوں کی بناوٹ اور درست استعمال سے کہانی کو وسعت دیتے ہوئے اس کے منطقی انجام تک لایا جاتا ہے۔ ہم اردو ادب میں بھی اسی قسم کے مختصر افسانوں کی ترویج کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر انگلش سے مستعار لیے جانے والی صنف کو اردو ادب میں سمونے کا قائل ہوں۔ اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلے مختصر افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے کام کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ اسی کے ساتھ ہمیں اردو اور انگلش ادب کے امتزاج سے مختصر افسانے کی صنف کو ادب کا حصہ سمجھنا ہوگا ورنہ مختصر ترین افسانہ اپنی ارتقا پذیری میں ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔