مزدوروں کی عظیم تحریک کی کہانی

حبیب الدین جنیدی  پير 1 مئ 2017
اپریل کے آخری ہفتہ میں تحریک میں زبردست اُبھار آیا اور یکم مئی 1886کو مزدوروں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ فوٹو: فائل

اپریل کے آخری ہفتہ میں تحریک میں زبردست اُبھار آیا اور یکم مئی 1886کو مزدوروں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ فوٹو: فائل

آج یکم مئی ہے، پورا عالم، اُن شہید مزدور راہ نمائوں اور ان گنت کارکنان کی یاد میں تقریبات منعقد کررہا ہے جنہوں نے اب سے ایک سو اکتیس(131)سال قبل امریکا کے شہر شکاگو میں مزدوروں، محکوموں اور بے کس انسانوں کے زندہ رہنے کے بنیادی حق کے حصول کے لیے اپنی جان اور مال کا نذرانہ پیش کیا۔

شکاگو کی مزدور تحریک کو گوکہ عام طور پر مزدوروں کے کام کرنے کے اوقات کار کے تعین کی جدوجہد سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تحریک، بنیادی انسانی حقوق کا پرچم تھی جس کو مزدوروں کے لہو نے سرخ رنگ عطا کیا۔

1886میں یورپ اور امریکا کے صنعتی مزدور بھی دیگر برِّاعظموں کے مزدوروں کی طرح نیم غلامی کے دور میں زندگی بسر کررہے تھے۔ اُن سے سولہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک مسلسل کام لیا جاتا تھا جب کہ معاوضہ اتنا ہی دیا جاتا تھا کہ وہ بہ مشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ اور غلاموں کی اگلی نسل پیدا کرنے کے قابل رہیں۔

اس صورت حال کے خلاف مزدوروں کی جنگ گوکہ طویل عرصہ سے جاری تھی لیکن یہ اپنے عروج پر اپریل 1886کو پہنچی کہ جب امریکن لیبر فیڈریشن کی جانب سے الٹی میٹم دیا گیا کہ یکم مئی سے مزدوروں کے اوقات کار آٹھ گھنٹہ یومیہ مقرر کیے جائیں۔ اس قرارداد نے صنعتوں کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور مزدوروں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ انہیں بھی دیگر طبقات کی طرح ایک دن میں 8گھنٹے کام ،8گھنٹے آرام اور 8گھنٹے کے لیے سماجی امور (Socialization) کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

امریکا اور کینیڈا کے مزدور اور اُن کے قائدین نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک زبردست تحریک چلائی مگر شکاگو میں مزدور تحریک کا جوشُ و خروش اپنے عروج پر تھا۔ اپریل کے آخری ہفتہ میں تحریک میں زبردست اُبھار آیا اور یکم مئی 1886کو مزدوروں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کے شرکاء کی تعداد 4 لاکھ سے بھی زائد تھی اور وہ مکمل طور پر پُرامن تھا کہ اچانک مزدوروں کے جلوس کے اندر سے مبینہ طور پر ایک دستی بم پولیس کے دستہ پر پھینکا کیا جس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار موقع پر ہلاک ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا گویا یہ اشارہ تھا کہ نہتے مزدوروں پر ٹوٹ پڑو۔ پولیس نے وحشیانہ انداز میں فائرنگ کے ذریعے مزدوروں پر قیامت برپا کردی۔ ظلم خود کیا مگر قتل کے جھوٹے مقدمات مزدور راہنماؤں پر قائم کیے گئے۔

1887میں عدالت نے فیصلے کا اعلان کیا جس کے مطابق مزدور راہنماؤں اسپائز، اینجل، پارسنز اور فشر کو 11نومبر 1887کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ وہ ایک تاریخ ساز دن تھا کہ جب مزدور راہ نما اسپائز نے فیصلہ سننے کے بعد عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیں تختہ دار پر چڑھانے کے بعد تم مزدور تحریک کا خاتمہ کردو گے تو پھر شوق سے ہمیں پھانسی پر چڑھادو مگر مت بھولو کہ تم آگ کے شعلوں پر چل رہے ہوگے۔ تمہارے ہر طرف آگ اور شعلے ہوں گے۔ یہ ایک لاوا ہے جسے تم کبھی بجھا نہیں سکتے۔‘‘

شہید مزدور راہ نما کے یہ کلمات حقیقت بن چکے ہیں۔ دنیا بھر کے انقلابیوں نے اُس کے وژن اور سرخ پرچم کو تھام لیا۔1886میں شکاگو کے نہتے مزدوروں کا قتل عام کرنے اور کروانے والوں کو تاریخ نے مجرم قراردیا مگر پھانسی چڑھنے والے عوام کے ہیرو قرار پائے۔

آج 2017میں پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنی تاریخ کے ایک خاموش بحران سے گزر رہا ہے۔ بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں چھ کروڑ پچیس لاکھ کی تعداد میں ہونے کے باوجود ملکی سیاست اور پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں۔ ہزاروں لیبر فیڈریشنز، ٹریڈ یونینز اور کانفیڈریشن کی موجودگی کے باوجود صرف ایک فی صد مزدور ٹریڈ یونینز سے وابستہ ہیں۔ شکاگو کے مزدوروں نے 131سال قبل آٹھ گھنٹے یومیہ اوقات کار مقرر کروائے تھے مگر وطن عزیز میں کُھلے عام مختلف اداروں میں 12گھنٹے مسلسل کام کرنے پر غریب مزدور مجبور ہے۔

غیرہنرمند مزدور کی کم از کم اُجرت تو مقرر کردی جاتی ہے مگر اس پر عملدرآمد کا نظام انتہائی غیرموثر اور بتایا جاتا ہے کہ 70 فی صد مزدور کم از کم اُجرت سے بھی کم پر اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ ملازمتوں کے ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم اور آئوٹ سورسنگ کے طریقۂ کار نے سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور غربت کی سطح میں اضافہ کیا ہے اور حقیقی محتاط اندازہ کے مطابق ہمارے مُلک کی کل آبادی کا کم از کم 60 فی صد خِط افلاس سے نیچے بھوک و افلاس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

دستور پاکستان میں اٹھارھویں ترمیم کے بعد شعبہ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ محکمہ محنت سے وابستہ لیبر ویلفیئر کے کئی ادارے تاحال صوبوں کو منتقل نہیں کیے گئے جو کہ مذکورہ آئینی ترمیم کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پرائیویٹائزیشن کے عمل کے نتیجہ میں جہاں ایک جانب بیروزگاری پھیلی تو دوسری جانب نجکاری کی زد میں آنے والے ان اداروں میں ملازمین کی ٹریڈ یونینز کی کمر توڑ دی گئی۔

پاکستان کے پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکس میں نجکاری سے قبل ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا تناسب مجموعی افرادی قوت کا 70 فی صد سے زاید تھا، جو اب گھٹ کر صرف 12سے 15فی صد رہ گیا ہے۔ گذشتہ چھبّیس سالوں سے کمرشیل بینکس میں غیراعلانیہ طور پر ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والی ملازمتوں پر پابندی عائد ہے اور یوں وہاں ٹریڈ یونین سسک سسک کردم توڑ رہی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔

ٹریڈ یونین تحریک کی بحالی کے لیے مزدور فیڈریشنز اور مزدور حُقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی متعدد غیرسرکاری تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، جن میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، نائو کمیونیٹیز، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن (WERO)، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP)، عورت فائونڈیشن، ہوم بیسڈ ویمنز ورکرز فیڈریشن (HBWWF)، ہوم نیٹ پاکستان اور کئی دیگر ادارے مصروف عمل ہیں مگر یہ کوششیں اور کاوشیں تاحال بارآور ثابت نہیں ہورہیں اور ٹریڈ یونین تحریک مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد مختلف صوبائی حکومتوں نے محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازیاں کی ہیں جن میں صوبہ سندھ سرفہرست ہے۔ اس کے باوجود ان کے مثبت نتائج کے آنے میں ابھی بہرکیف خاصا وقت لگے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سو اکتیسویں یوم محنت کا پیغام پاکستان کے محنت کشوں اور اُن کی تنظیموں کے لیے یہ ہے کہ وہ منظم ہوں اور اپنی بکھری ہوئی قوت کو یکجا کرنے کے لیے اپنی کاوشیں کو تیز اور مربوط کریں اور کسی بھی حال میں مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیں کیوںکہ کام یابی کا واحد راستہ یہی ہے۔

دوسری جانب ہم اشرافیہ، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو بحیثیت مجموعی اور ان طبقات میں مثبت سوچ رکھنے والے کو بالخُصوص یہ مشورہ دیں گے کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور ملکی آبادی کی 30 فی صد موثر افرادی قوت کو اُن کے قانونی حقوق کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کریں کیوںکہ بنیادی طور پر ایک مطمئن کارکُن ہی ایک پائے دار اور صنعتی امن کا ضامن ہوتا ہے۔

ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں

آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلادیتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔