پاکستان ناقابل حکومت

سید معظم حئی  منگل 23 مئ 2017
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

47،45 سالوں میں مختلف حکومتوں اور اداروں کی کوششوں کا یہ بتدریج نتیجہ ہے کہ پاکستان ناقابل حکومت UNGOVERNABLE بن چکا ۔ آپ بڑے بڑے معاملات مثلاً ملکی آبادی کے لیے صاف پانی، بلاتعطل بجلی، گیس کی فراہمی، آلودگی میں کمی، قوم کی شہری وسماجی تربیت وغیرہ کو تو چھوڑیے،کیا حکومت اور ’’حکومت‘‘ سے مراد کوئی ایک نہیں بلکہ حالیہ تاریخ اور موجودہ دورکی مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔

توجناب کیا آپ کی حکومت چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہی کبھی اپنی رٹ منواسکتی ہے؟ مثلاً کیا پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال بند کرواسکتی ہے؟ مارکیٹیں صبح جلدی کھلوا اور شام کو جلدی بند کرواسکتی ہے؟ خالص دودھ بکواسکتی ہے؟ وال چاکنگ رکواسکتی ہے؟رکشا ٹیکسیوں میں میٹر لگواسکتی ہے؟ جعلی عاملوں، عطائی ڈاکٹروں کا کام بندکرواسکتی ہے؟ موٹر سائیکل سواروں کو رانگ سائیڈ آنے سے روک سکتی ہے؟، شب برأت میں پٹاخے، رمضان میں ناجائزمنافع خوری روک سکتی ہے؟، جی نہیں۔ حکومت ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرسکتی۔ اچھا چلیے کیا حکومت مریضوں کی پٹائی پہ کسی ینگ ڈاکٹرکو، ججوں سے بدتمیزی کرنے پر کسی وکیل کو گرفتارکرسکتی ہے؟ کیا حکومت سیکڑوں مسافروں کی جانیں خطرے میں ڈالنے پر پی آئی اے کے کسی پائلٹ کو یا ریلوے کے کسی انجن ڈرائیور کو گرفتار کر سکتی ہے؟ جی نہیں، نہیں کرسکتی کیونکہ ان سب کی اپنی اپنی یونین ہیں جو فوراً ہڑتال اور تشدد پر اتر آئیںگی چنانچہ حکومت ان سب کے آگے مجبور، لاچار اور بے بس ہے۔

چلیے ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں، آج سے 45،40 سال پہلے تک سڑکوں کا ایک تقدس تھا جو کبھی کبھار ہونیوالے سیاسی احتجاج کے علاوہ کبھی بند نہیں ہوتی تھیں، اب 20،10 لوگوں کا کوئی بھی گروہ شہرکی سڑکیں تو کیا ہائی وے اور مین ریلوے لائن بھی جب چاہے بند کرواسکتا ہے۔ کسی کی مجال ہے جو روکے، اس صورتحال کا ایک اور رخ دیکھیے سندھ کی صوبائی حکومت کو ہر سال وفاقی حکومت سے مختلف مدوں میں اور کراچی سے صوبائی محصولات کے ذریعے کئی کئی سو ارب روپے ملتے ہیں مگر کراچی کی تعمیر اور ترقی تو دورکی بات یہ حکومت نو سالوں میں شہر کا کچرا تک نہیں اٹھاسکی۔ اب اس گندگی سے چکن گونیا جیسی جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ادھر تھر میں بچے غذائی کمی اور پنجاب اور بلوچستان میں بچے خسرہ سے مر رہے ہیں۔ 45،40 سالوں میں ایک بھی حکومت نے بدلتے موسمی حالات، شہروں کے پھیلاؤ، ڈیمزکی تعمیر، عوام کو صاف پانی اور معیاری دوا علاج کی فراہمی، کسی ایک شعبے تک میں کچھ نہیں کیا حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک بھی ایسا سرکاری اسپتال نہیں بنایاکہ جہاں عوام کے ساتھ ارب پتی،کھرب پتی حکمران اور ان کی اولادیں بھی اپنا علاج کراسکیں۔

ان 45،40 سالوں میں پاکستان ناقابل حکومت کیسے بنا اس کے دو ریاستی پہلو ہیں۔ ایک سیاسی، دوسرا غیر سیاسی۔ پاکستان کے عوام سیاست کے نشئی ہیں۔ آپ انھیں روٹی،کپڑا، مکان، دوا، علاج، پینے کو پانی کچھ بھی نہ دیں بس سیاسی نعرے دے دیں یہ خوش رہیںگے۔ خصوصاً پنجاب کے عوام سیاسی نعروں، میلوں، ٹھیلوں، بھنگڑا، ہنگامہ، سیاسی بڑھکوں کے رسیا رہے ہیں، ایسے ریسا کہ 1960 کی دہائی میں پاکستان ایک ایسا ترقی یافتہ، صنعتی اور ڈیویلپڈ ملک بن رہا تھا کہ جس کے سامنے جنوبی کوریا، سنگا پور، ملائیشیا، بھارت کچھ بھی نہ ہوتے جہاں ساری دنیا سے لوگ روزگار کے لیے آتے مگر ان لوگوں نے اس ساری زرعی، صنعتی، تجارتی اور تعلیمی ترقی کو، اس ملک کے شاندار مستقبل کو، اپنے سیاسی چٹخاروں کی بھینٹ چڑھاکر ملک کے دو ٹکڑے کروا دیے، یہاں کی صنعتیں، بینک، تعلیمی ادارے سب تباہ کرواکر اس ملک کو وہ بد نصیب ملک بنادیا کہ جس کے لوگ رزق اور روزگار کے لیے دنیا بھر میں دھکے کھانے لگے۔ آج بھی بہت سے سیاسی مفکران اس زوال کو سیاسی کارنامے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

دوسری طرف ریاست کے غیر سیاسی حصے نے ان 45،40 سالوں میں دو طرح کے گروہوں کی پیدائش، نشوونما اور پھیلاؤ کا مشغلہ اختیار کیا ان گروہوں کی ایک قسم انتہا پسند مذہبی و لسانی مسلح جتھوں کی تھی اور دوسری کرپشن گروہوں (کئی سیاسی جماعتوں) کی۔ ریاست کا غیر سیاسی حصہ طرح طرح کے سیاسی گیم کھیلتا رہا، کبھی ایک کو تھپکایا، دوسرے کو ڈرایا، ایک کو بڑھایا، دوسرے کو ہٹایا، گیم چلتے رہے اور ملک کا کباڑہ ہوگیا، ریاست کا غیر سیاسی حصہ سمجھتا تھا کہ یہ گیم ایسے ہی چلتے رہیںگے، عام لوگ بھگتے رہیںگے اور وہ محفوظ محظوظ ہوتا رہے گا۔ بد قسمتی سے مگر مسلح جتھوں کی آگ ایسی پھیلی کہ گیم کھیلنے والے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ اب تک ہزاروں شہریوں، افسروں و جوانوں کی شہادتیں ہوچکیں مگر یہ آگ پوری طرح نہ بجھ سکی ہے۔ دوسری طرف احتساب کے ڈراموں نے کرپشن گروہوں کو یقین دلادیا کہ اس ملک میں کرپشن کوئی جرم نہیں، کہیں نہ کہیں ڈیل، مُک مکا، این آر او1، این آر او 2، افہام و تفہیم سے کام بن ہی جاتا ہے چنانچہ کرپشن نے اس ملک کو بدحال وکنگال کردیا ہے۔

آج قرضے 74 ارب ڈالر سے بھی بڑھ رہے ہیں، برآمدات 24 سے گرکر 17 ارب ڈالر رہ گئی ہیں جب کہ در آمدات دگنی ہوتی جارہی ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری کا بھی بڑا حصہ مہنگے قرضوں پر مشتمل ہے، ریاست کا غیر سیاسی حصہ کرپشن گروہوں کے معاملے میں بھی سمجھتا تھا اور شاید ابھی بھی سمجھتا ہے کہ کرپشن کی یہ پھیلتی پھولتی وبا اسے نقصان نہیں پہنچائے گی مگر ملک کو کرپشن نے وہاں لا پھینکا ہے جہاں قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں جہاں ملک محض 700 ملین ڈالر یکمشت ادا کرکے سات ایف 16 طیارے نہیں خریدسکتا جب کہ صرف سوئزر لینڈ میں ہی پاکستان سے لوٹے گئے 200 ارب ڈالر یعنی کوئی 20 ہزار ارب روپے پڑے ہیں اور لوٹ جاری ہے۔ آپ اس ساری صورتحال کو ایک اور طرح سے دیکھئے کہ ملک میں اب فوج ہی ایک منظم اور کار آمد ادارہ رہ گیا ہے، ہمارا دفاعی بجٹ بھارت کے دفاعی بجٹ کا ایک چوتھائی بھی نہیں جب کہ چین سے ملنے والی مختصر سی سرحد کو چھوڑ کر ہمیں ہزاروں کلو میٹر طویل سرحدوں پر بھارت، افغانستان اور ایران کے اتحاد کا سامنا ہے۔

دوسری طرف ملک کے اندر قبائلی علاقوں، بلوچستان، جنوبی پنجاب، کراچی ہر جگہ ہی فوج مصروف ہے، تیسری طرف پولیو مہم، مردم شماری سے لے کرکرکٹرزکی تربیت تک کے لیے فوج چاہیے، ادھر سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت سے تقریباً مکمل محروم ملکی آبادی میں ہر سال تقریباً تیس چالیس لاکھ لوگوں کا اضافہ ہورہا ہے، گلی، محلوں میں ہر طرف لڑکوں اور نوجوانوں کے غول کے غول فارغ پھرتے نظر آتے ہیں، کہیں وحشیوں کے جتھے کہیں وڈیروں، جاگیرداروں کے جرگے انسانوں کو اپنی من پسند سزائیں دیتے پھرتے ہیں۔ کرپشن نے ملک کا تقریباً ہر سول ادارہ تباہ کر ڈالا ہے، جگہ جگہ پولیس کا کام بھی فوج کوکرنا پڑ رہا ہے، تباہ حال کراچی میں تو آگ بجھانے کے لیے بھی فوج کی مدد درکار ہوتی ہے، اختیارات سے محروم بلدیاتی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کرپشن معاشی دہشتگردی ہے، جو حکومتی ادارے تباہ کر کے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہے، دشمنوں کا آسان شکار بنا رہی ہے، آپ اور آپ کے ٹی وی اینکرز بیشک سیاست کے کش لگاتے رہیں اور آپ بیشک اپنے گیم کھیلتے رہیں مگر سچ یہ ہے کہ اس ملک میں حکومت اپنا کنٹرول تیزی سے کھورہی ہے یہ ملک تیزی سے ناقابل حکومت بنتا جا رہا ہے، یہ کرپشن اور یہ گیم ایسے ہی جاری رہے تو ہم کہیں حکومت کی رٹ کے بعد یہ ریاست ہی نہ کھو بیٹھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔