کھیت مزدور کیا مزدور نہیں؟

سید معظم حئی  جمعرات 1 جون 2017
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

جاتے اکتوبر کی اس ڈھلتی سہ پہر کی اس ڈھلکتی دھوپ میں بردبار سا اک دھیما پن تھا۔ ہم بڑھتی عمرکے ایک مہربان برگد کی گھنی چھتری تلے جمع تھے۔ ہمارے سامنے عام سی لکڑی کی ایک عام سی میز پہ سوال ناموں اور فلیش کارڈز کا بے رونق سا ڈھیر ایک عدد ٹھیکرے سے ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ موجود تھا۔ میز کی پرلی جانب بہت سی کرسیاں بے قاعدہ سے ایک دائرے میں دھری تھیں۔

ان کرسیوں پہ اجلے بے داغ کپڑے پہنے کوئی ڈیڑھ دو درجن کسان براجمان تھے۔ زراعتی مصنوعات بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے کی جانے والی فارمر ریسرچ کا یہ ایک سیشن تھا جس میں 12 ایکڑ یا اس سے زیادہ کا رقبہ رکھنے والے کسانوں کو مدعوکیا گیا تھا کہ اس حیثیت والے کسان زراعتی مصنوعات خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔ حاضرین کے فرداً فرداً تعارف کا مرحلہ چلا تو پتہ چلا کہ آگے بیٹھے لوگوں میں سے ایک شخص ’’فارمر‘‘ نہیں بلکہ کھیت مزدور نکلا جو غالباً اپنے بہترین کپڑے پہن کرآیا تھا۔ ہنس مکھ ریسرچ کوآرڈینیٹر کا لہجہ یک دم پیاسے ببول سا خاردار ہو گیا۔

اس نے خفت زدہ کھیت مزدورکو سب سے آگے سے اٹھا کر سب سے پیچھے بٹھا دیا۔ ان دنوں کپاس کی فصل میں رس چوسنے والے اور کترنے والے کیڑوں مثلاً جیسڈ، ایفڈ، تھرپس، سفید مکھی اور امریکن سنڈی، چتکبری سنڈی، لشکری سنڈی،گلابی سنڈی وغیرہ کے لیے کیے جانے والے زہریلے کیمیکلزکے کئی کئی اسپرے کے برعکس گندم کی فصل میں پائی جانے والی چوڑے پتوں والی اور گھاس نما جڑی بوٹیوں کے لیے اسپرے نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ جڑی بوٹیاں گندم کی فصل میں زمین، کھاد اور پانی کا حصہ لے کر کسان کو نقصان پہنچاتی ہیں اور گھاس نما جڑی بوٹی جنگلی جئی (Avena Fatua) تو قد میں گندم کے پودے سے بھی بڑھ کر اس پہ گر کے پودے کی باڑھ مارنے کے ساتھ ساتھ ہارویسٹنگ اور تھریشنگ (کٹائی اور جھڑائی) کے دوران گندم کے دانوں کے ساتھ مل کر Yield یعنی پیداوارکی بھی کوالٹی گراتی ہے۔

یہ جڑی بوٹیاں کھیت مزدور اپنے پورے پورے خاندانوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی محنت سے صاف کرتے ہیں۔ تاہم یہ فارمر ریسرچ ایک ایسے برانڈیڈ کیمیکل زہر والی پروڈکٹ کے لیے ہو رہی تھی جس کا اسپرے گندم کی فصل سے جنگلی جئی کا خاتمہ کر دیتا اور ظاہر ہے کہ یہ اسپرے کسان کو کھیت مزدوروں سے جڑی بوٹیاں اکھڑوانے کے مقابلے میں مجموعی طور پر سستا پڑتا۔ کسان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کیمیکل زہر کے فصل پہ انسانی صحت کے لیے کیا مضراثرات ہوں گے اور مٹی اور زیر زمین پانی کے ذخائرکیسے زہر آلود ہوتے ہیں، چنانچہ کسان پرجوش اور خوش تھے۔

میری نظر سب سے پیچھے بیٹھے کھیت مزدور پہ پڑی، اس کے چہرے پہ زمیں سے بے زمیں ہوتے پودے کی سی مرجھاہٹ اتر آئی تھی، اس کی سمجھ میں آتا جا رہا تھا کہ وہ جس ’’تقریب‘‘ میں شرکت کو اپنے بہترین کپڑے پہن کر آیا تھا، جہاں کڑک دار شلوار قمیضوں میں کسان، زمیندار اور شہروں سے پتلون قمیضیں چڑھائے کمپنیوں کے افسر آئے تھے وہاں اسے، اس کے خاندان سے اور ایسے نجانے کتنے ہی کھیت مزدوروں سے ان کا روزگار چھیننے والی اصل میں بات ہو رہی تھی۔ سالوں پہلے ساہیوال کے کہیں دور دراز گمنام اس گاؤں اور اس گاؤں کے کھیتوں کے کنارے اس بزرگ سے برگد کی شفقت بھری چھاؤں میں سوئی سوئی سی وہ ڈھلتی سہ پہر اپنے بعد آنے والی ایسی نجانے کتنی ہی بے نام سی سہ پہروں تلے ہمیشہ کے لیے جا سوئی مگر اس کھیت مزدور کا وہ مرجھاتا چہرہ کب کی ویراں پڑی یادوں میں ایسے تروتازہ ہے جیسے زہریلے کیمیکلز سے بچا زمیں سے آسماں کو تکتا گندم کا جواں ہوتا کوئی پودا۔

سوکھی مٹی سا بکھر تا کھیت مزدور کا وہ چہرہ پہلی مئی سمیت ان تمام موقعوں پہ اور بھی زیادہ یاد آتا ہے جب علم، معلومات، تحقیق اور زبان کی درستگی والی مرجھاتی صحافت کی بانجھ زمیں پہ اگنے والا جہالت، کم علمی، کج بحثی اور زباں کی بربادی سے بے فیض جڑی بوٹیوں سا پھلتا پھولتا ہمارا میڈیا مزدوروں کی بات کرتے ہوئے کارخانوں، مارکیٹوں، سڑکوں، عمارتوں پہ کام کرتا مزدور دکھاتا ہے مگر کھیت مزدور نہیں دکھاتا جو اب بھی مزدوروں کا وسیع ترین طبقہ ہے۔

دھان کے کھیتوں میں کھڑے پانی کی سی اتھلی ذہنی سطح والا یہ میڈیا ان کھیت مزدوروں کو مزدور ہی نہیں مانتا جو پورے پورے خاندانوں سمیت سارا سارا سال بنا چھٹی کے کم سے کم اجرت سے بھی کم اجرت پہ کام کرتے ہیں، جو جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ ایک وڈیرے جاگیردار سے دوسرے وڈیرے جاگیردار کو اپنے خاندانوں اور اپنے کبھی نہ ختم ہونے والے قرضے سمیت ’’منتقل‘‘ کیے جاتے ہیں، جن کی نہ کوئی یونین ہے اور جن کے لیے نہ کوئی سوشل سیکیورٹی، اولڈ ایج، لیبر ڈپارٹمنٹ ہے جن کے کارندے کراچی جیسے لٹے پٹے شہرکے بند ہوتے کارخانوں سے اپنا ماہانہ بھتہ باقاعدگی سے لیتے ہیں۔

کھیت مزدوروں میں ایک تو وہ ہیں جو اپنے خام ہاتھوں کی محنت ارزاں فروخت کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو نسبتاً کچھ ’’ٹیکنیکل‘‘ مزدوری کرلیتے ہیں مثلاً اسپرے کرنا،کل ٹی ویٹر، ہارویسٹر، تھریشر وغیرہ چلانا۔ جیسے جیسے مشینی اسپرے وغیرہ آتے جا رہے ہیں کھیت مزدور کی بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ 5 سے 50 ایکڑ والے کسانوں کی زمین خاندان کے پھیلنے کے ساتھ خاندان والوں کے لیے سکڑتی جا رہی ہے یعنی مزید کھیت مزدور نکل رہے ہیں جن کے چھوٹے رقبے گزارے کو پورے نہیں پڑتے، پھر جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں جاگیرداری کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ملک میں جاگیرداروں، وڈیروں کے راج کو بچانے کے لیے ایک اہم قدم متوسط طبقے والے جاگیرداری سے پاک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا تھا تو دوسرا اہم قدم تمام چھوٹی بڑی صنعتوں، بینکوں اورتعلیمی اداروں کو قومیا کرکرپشن اور نااہلی سے تباہ کرنا تاکہ ملک میں ترقی یافتہ صنعتی وتجارتی معاشرے کے بجائے جاگیردار اور قبائلی معاشرہ رہے۔

قومیانے کی یہ پالیسی جس نے چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹس تک کو نہیں چھوڑا جاگیرداروں کے لیے کتنی سود مند تھی اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی دیہی سندھ کے 76 فیصد خاندان زمین کی ملکیت سے محروم صوبے کی آبادی کا محض 3.1 فیصد وڈیروں، قبائلی سرداروں وغیرہ کی جاگیروں پہ کھیت مزدوری کرنے پہ مجبور ہیں اور ملک بھر میں سندھ وہ خطہ ہے جہاں بدترین جاگیردارانہ نظام اس 21 ویں صدی میں بھی قائم ہے (ریفرنس: ریسرچ اسٹڈی مئی 2015ء بائی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ)۔

اداس سہ پہروں والی کھیت مزدور کی اس دنیا میں نجانے کب خوشیوں کی صبح آئے گی؟ کھیت مزدور کی اس دنیا میں جہاں جاگیردار کھیت مزدور کو انسان اور جاگیردارانہ نظام کا میڈیا کھیت مزدور کو مزدور ماننے کو تیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔