عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے

زاہدہ حنا  بدھ 7 جون 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

اسے محض اتفاق کہا جائے یا شومئی قسمت کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ واحد ملک ہے جسے اپنی آزادی کے بعد سے آج تک مسلسل بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سے ملک وجود میں آئے یا آزاد ہوئے لیکن ایسے ملکوں کی تعداد انتہائی کم ہے جو تخلیق پانے کے بعد شکست و ریخت سے دوچار ہوئے۔کسی ملک کا ٹوٹ جانا قوموں کے لیے عظیم المیے سے کم نہیں ہوتا۔ اس المیے سے ہم کو آزادی کے صرف 25 سال کے اندر ہی دوچار ہونا پڑا۔ ایسا نہیں تھا کہ سب کچھ اچانک ہوگیا تھا۔ دو دہائیوں سے زیادہ اس سانحے کی پرورش ہوئی، تب پاکستان کے ٹوٹنے کا حادثہ پیش آیا۔

جس انسان کو ہم بابائے قوم کہتے ہیں، اس کے اقوال و افکار پرکتنا عمل کیا گیا، اس پر زیادہ بحث کی گنجائش نہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا بتادیں جس کے بانی کے خیالات پر بحث کی جاتی ہو اور اسے متنازع بنادیا جاتا ہو۔اس طرح کی سیاسی اور ظالمانہ بحث صرف ہمارے ملک میں ممکن ہے۔ مورخ اور دانشور اس بات پر منقسم رائے رکھتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح کے حقیقی افکار کیا تھے۔ ایک طبقہ انھیں روشن خیال، لبرل، جمہوریت پسند اورآئین وقانون کا پاس دار قرار دیتا ہے جب کہ دوسرا گروہ انھیں اس کے برعکس خیال کرتا ہے۔ اس دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے۔کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ جب ہم بانیِ پاکستان کے افکار پر متفق نہیں تو اس امر کا تعین کیسے ہوگا کہ ہماری ریاست کی سمت کیا ہوگی؟ یہ وہ مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوسکا اور ہم آج ذہنی الجھن اور ابہام میں مبتلا ایک ہجوم بن چکے ہیں۔

ہر شخص اور ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ درست وہ ہے اور پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ بھی وہی کرے گا چونکہ اس کے علاوہ دیگر سب غلط ہیں لہٰذا مل جل کر کام کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ وہ بنیادی نکتہ اور مسئلہ ہے جو اب تک حل نہیں ہوا ہے اسی کے نتیجے میں پاکستان بار بار بحران میں مبتلا کردیا جاتا ہے اور ہر بحران کسی نہ کسی ادارے کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کے افکار میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ وہ ایک صاف اور سیدھی سوچ کے مالک تھے۔ انھوں نے عدالت میں نہیں سیاست کے میدان میں پاکستان کا مقدمہ لڑا۔ انھوں نے پاکستان بنانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ پُر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد کیا اور اس اصول پر عمل کیا کہ اگر غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ ڈالتی ہے تو پاکستان نام کے ایک ملک کو معرض وجود میں آجانا چاہیے ورنہ نہیں۔ یہ امر بالکل عیاں ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ استعمال نہ کرتی تو جناح صاحب بلاتامل اپنے مطالبے سے دست بردار ہوجاتے۔ عوام کے مینڈیٹ کا اس سے بڑا احترام اورکیا ہوگا۔

اب اس پاکستان پر نگاہ ڈالیں جسے قائداعظم نے جمہوری عمل اور ووٹوں کے ذریعے تخلیق کیا تھا۔1947 میں جغرافیائی طور پر دو الگ الگ حصوں پر مشتمل پاکستان وجود میں آتا ہے۔ اس ملک کے دو بازو ہیں، ایک مشرقی اور دوسرا مغربی، ان دونوں کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ اس ملک کے قیام کے نتیجے میں کروڑوں انسانوں کی ہجرت اور لاکھوں کا قتل عام ہوا ہے اس ملک کے پاس نہ وسائل نہ سرمایہ اور نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ ہے۔ خواب جب تک خواب رہیں بھلے لگتے ہیں، تعبیر مل جائے تو خواب دیکھنے والوں کو تلخ حقائق کے ریگ زارکا سفر درپیش ہوتا ہے۔ ریگ زارکو نخلستان اور پھر نخلستان کو گل زار میں بدلنے کا کام ریاست کا ہوتا ہے۔ ریاست اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی حدودکا تعین ایک میثاق کے ذریعے کیا جاتا ہے جو آئین کہلاتا ہے۔آئین کی تشکیل عوام کے منتخب نمایندے کرتے ہیں اور ریاست کے تمام ادارے اس کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ آئین میں واضح ہوتا ہے کہ اداروں کوکن حدود میں رہنا ہے۔ ان سے تجاوز اور انحراف جرم قرار پاتا ہے۔ آزادی کی صورت میں پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور یہیں سے حقائق کے ریگ زارکا سفر آغاز ہوا۔ پہلا کام یہ تھا کہ فوری طور پر آئین سازی کرکے ملک کو ایک نخلستان میں بدلا جاتا اور پھر جمہوریت کی شاہراہ پرگامزن ہوکر اپنے ملک کو لوگوں کے لیے ایک گلزار میں تبدیل کردیا جاتا۔

قوموں کا گل زار ایسا ملک اور سماج کہلاتا ہے جہاں کسی آمر، بادشاہ یا مخصوص ادارے کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ جہاں حق حکمرانی صرف عوام کے پاس ہوتا ہے۔ یہ حق وہ اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ وہ جس جماعت یا جن جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ عطا کرتے ہیں انھیں ایک متعین مدت تک برسر اقتدار رہنے کا حق حاصل ہوتا ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کو تازہ مینڈیٹ کے لیے دوبارہ عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہوتا ہے جس میں عوام کے مینڈیٹ کو مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ ریاست کا کوئی ادارہ اس مینڈیٹ کی نفی یا توہین نہیں کرسکتا۔ پارلیمنٹ کسی بھی ملک کے عوام کی اجتماعی دانش کا مظہر ہوتی ہے۔ آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی حاکمیت ایک تسلیم شدہ اصول ہوتا ہے اور اس پر شب خون مارنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاتی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو جو پاکستان ملا وہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ضرور تھا لیکن وارثت میں ملنے والے ریاستی اور انتظامی ادارے ایسے تھے جنھیں برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حوالے سے تشکیل دیا تھا۔ ورثے میں ملنے والی سول بیوروکریسی کی تربیت یہ تھی کہ ملک چونکہ برطانیہ کا غلام تھا اس لیے ملک کے عوام کو غلام بنا کر رکھا جائے اور غیر ملکی آقاؤں کے خلاف چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو کچلا جائے۔ یہ بیوروکریسی اپنے ملک اور عوام کی نہیں بلکہ برطانوی حکومت کی وفادار تھی۔ دوسری جانب برطانوی سامراج نے جو انڈین آرمی تشکیل دی تھی اس کا مقصد کسی بیرونی حملے سے ہندوستان کا دفاع کرنا مقصود نہیں تھا کیونکہ اس ملک پر تو خود انگریز قابض تھا۔ اس آرمی کا مقصد عوامی مزاحمت کو کچلنا اور دبانا تھا۔کچھ یہی صورتحال عدلیہ کی بھی تھی۔ روزمرہ کے عدالتی امور سر انجام دینے کے علاوہ اس ادارے کا مقصد برطانوی تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو عدالتی عمل کے ذریعے قرار واقعی سزائیں دینا تھا تاکہ کوئی ہندوستانی شہری انگریز آقاؤں سے بغاوت کا تصور بھی نہ کرسکے۔ حریت پسندوں کو عدالتوں نے جو بھیانک سزائیں سنائیں وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ عبور دریائے شور یا کالا پانی کی سزا ہماری اسی عدلیہ کی شاہکار سزاؤں میں شمار ہوتی ہے۔ان اداروں کے علاوہ پاکستان کو جو سیاستدان ورثے میں ملے۔ ان کی اکثریت جاگیردار اشرافیہ پر مشتمل تھی اور ماضی میں انگریزوں کی وفادار رہ چکی تھی، صرف مشرقی پاکستان میں صورتحال مختلف تھی جہاں بڑا زمین دار طبقہ موجود نہیں تھا۔

یہ وہ پاکستان تھا جو قائد اعظم کو ورثے میں ملا تھا اور اس حوالے سے وہ جس قدر پریشان رہا کرتے تھے، اس کا احوال ان کے قریبی ساتھیوں کی تحریروں سے عیاں ہے۔ صحت کی خرابی نے انھیں بنیادی کام کرنے کا موقع نہ دیا اور وہ آزادی کے دو سال بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان مسلسل بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ بحران کا سبب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ورثے میں ملنے والے اداروں اور جاگیردار سیاستدانوں کی جانب سے بار بار کی مداخلتوں کے باعث بروقت آئین سازی کر کے ملک میں جمہوری عمل شروع نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے عوام کی حاکمیت اور پارلیمنٹ کی بالادستی ممکن نہ ہوسکی۔ ریاستی ادارے ماضی کی اس نو آبادیاتی سوچ کو تبدیل کرنے پر تیار نہ ہوئے جس میں عوام، جاہل اور غلام سمجھے جاتے تھے، ان کے رہنما برے اور بدعنوان اور قومی اور جمہوری حقوق کا مطالبہ غداری کے مترادف قرار دیا جاتا تھا۔ خواجہ ناظم الدین، مولوی تمیز الدین، حسین شہید سہروردی، حسن ناصر سے لے کر شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو شہید اور خان عبدالولی خان، جی ایم سید، نذیر عباسی، اکبر بگٹی، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، میاں نواز شریف سمیت ہمارا کون سا ایسا مقبول سیاسی رہنما تھا جو اقتدار پر قابض ہوجانے والی حکمران اشرافیہ کے زیرِ عتاب نہ آیا اور پھانسی ، تشدد، قتل، جلاوطنی ، معزولی اور حراست اس کا مقدر نہ ٹہرا۔

پاکستان کو ایک جدید فلاحی اورجمہوری ریاست بنانے کی ہرکوشش کو ناکام بنانے کے لیے تمام غیر جمہوری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور جمہوریت سے گریزکے لیے قائد اعظم کے لبرل اور جمہوری تشخص کو متنازعہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ ملک ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکا ہے۔ اس بات کی شکایت کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کے احترام اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے اصول کو جب تک چیلنج کیا جاتا رہے گا پاکستان کبھی بحران دربحران کی دلدل سے باہر نہیں آسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔