ممکنہ فیصلوں میں ایک۔۔۔۔

ذوالفقار احمد چیمہ  پير 10 جولائی 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

فیصلہ کیا آئیگا؟ ہر شخص کے چہرے اور زبان پر یہی سوال ہے، مگر باخبر حلقے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم کو نااہل کیا گیا تو مسلم لیگ (ن)امریکی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آئین کے آرٹیکلز 62/63 کے تحت عمران خان کو بھی نااہل کرا دے گی۔ اس لیے پی ٹی آئی کے لیڈروں سے گزارش ہے کہ وہ مطلوبہ فیصلہ لینے کی خواہش میں اتنا دور تک نہ جائیںاور احتیاط اور ہوش و خرد کا دامن نہ چھوڑیں ۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد وہ بھی حسرت و یاس کے ساتھ ٹی وی چینلوں پر پروین شاکر کا یہ شعر پڑھتے ہوئے نظر آئیں کہ

ممکنہ فیصلوں میں ایک، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی’’ اُس‘‘ نے کمال کردیا

یاد رہے کہ ’’اُس‘‘ نے ہمیشہ اپنی مرضی کی ہے، اور کبھی کسی دوسرے سیاستدان کی خواہشات کی تکمیل نہیں کی۔

فیصلہ کیا آئیگا؟ کیا پوری قوم حمایت اور مخالفت میں بٹ چکی ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے جیالوں اور متوالوں کی بات اور ہے، وہ اپنے اپنے گروہ اور سیاسی قبیلے کے اندھے مقلّد (Blind Followers) ہوتے ہیں اُنکی آنکھیں،کان اور ذہن بند ہوتے ہیں، اُنکے دل ودماغ پر تعصّب کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے اُن پر دلیل کارگر نہیں ہوتی، وہ نہ دلیل سنتے ہیں نہ ثبوت دیکھتے ہیں، اس لیے میں ان سے مخاطب نہیں ہوں۔

لیکن اس ملک میں ایسے درد مند حضرات کی بھی کمی نہیں جو صرف ملک کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں، جنکی وابستگی اور وفاداری صرف اور صرف ملک کے ساتھ ہے، پچھلے ایک مہینے میں ایسے بہت سے حضرات سے ملاقات ہوئی، حال ہی میں تین صاحبانِ عقل ودانش سے ملنے کا اتفاق ہواجن میں سے دو بڑے اہم ملکوں میں سفیر رہ چکے ہیں اور ایک کئی اہم اداروں کے سربراہ ممکنہ فیصلے پر بات ہوئی تو تینوں کا کہنا تھا کہ موجودہ بین الاقوامی اور علاقائی صورتِ حال پاکستان کے لیے بے حد تشویشناک ہے، نئے امریکی صدر کا مسلمانوں سے بغض اور بھارت کی طرف غیر معمولی جھکاؤ ہمارے لیے نقصان دہ  ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکا اور اسرائیل کے حالیہ دوروں میں بھارتی وزیرِاعظم سب سے زیادہ زور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں میں انھیں اپنا ہمنوا بنانے میں لگاتا رہا ہے، مشرقِ وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، اِدھر پاکستان کے ہمسائیوں میں ایک بھی خیرخواہ نہیں رہا، بھارت اور افغانستان اعلانیہ دشمنی پر تلے ہوئے ہیں، ان حالات میں جب کہ پاکستان میں سیاسی استحکام اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے ، وزیرِاعظم کو ہٹانے سے ملک عدمِ استحکام کا شکار ہوگا جو پاکستان کے لیے بالکل مناسب نہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے دو ریٹائرڈ جج صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ راقم نے پوچھا،’’قانونی طور پر وزیرِاعظم کے خلاف کیس مضبوط ہے یا کمزور؟‘‘ دونوں نے کہا کہ وزیرِاعظم کے خلاف کیس رشوت لینے کا نہیں ہے، کسی پراجیکٹ سے کک بیک لینے کا الزام بھی نہیں ہے، اگر رشوت یا کمیشن کا الزام ہوتا تو نااہلی بنتی تھی، مگر اسوقت کیس یہ ہے کہ ستائیس سال پہلے لندن میں جو فلیٹ خریدے گئے تھے اُسکا پیسہ کہاں سے آیا تھا اور وہ لندن کیسے بھیجا گیا تھا؟ فلیٹوں کے قانونی مالکان یعنی وزیرِاعظم کے بیٹوں نے موقّف اختیار کیا ہے کہ ہم نے پیسے پاکستان سے نہیں منگوائے ہمارے ایک دوست قطر کے شہزادے نے ہمیں دیے تھے۔

فرض کیا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ فلیٹوں کے لیے پیسہ قانونی طریقے سے نہیں گیا تو اس پر فلیٹوں کے مالکان کو سزا یا جرمانہ تو کیا جاسکتاہے ان کے والد کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے؟۔ ٹی وی پر آنے والے سیاسی لیڈر قیاس اور گمان اور مفروضوں پر سزا دلانے کے مطالبے کرتے ہیں مگر قیاس اور مفروضے پنچایت یا جرگے میں تو چل سکتے ہیں، عدالت میں نہیں، عدالت میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

ایک محترم جج صاحب کا کہنا تھا کہ ’’گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے الفاظ جج صاحبان کو زیب نہیں دیتے، ان سے گریز کرنا چاہیے تھا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے بارے میں ابہام ہے۔ اگریہ تفتیشی ٹیم ہے تو پھر اس پر جرح ہوگی، اگر یہ Fact finding commissionہے تو اس میں فوج کا کوئی افسر شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک سیاسی نوعیّت کا کیس ہے لہٰذا اس میں فوج کے نمائندوں کی شمولیّت سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خدشہ تھا (جسطرح کہ ہورہی ہیں) اسمیں آئی بی کو نظر انداز کرکے آرمی کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شامل کرنا اور پھر کچھ لوگوں کو خود شامل کرانا مناسب نہیں تھا لہٰذا جے آئی ٹی کی کمپوزیشن سے ہی اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، انصاف ہونا بھی چاہیے اور ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔

اگر سپریم کورٹ 62/63کی تلوار سے ستائیس سال پرانے کیس میں ایک منتخب وزیرِاعظم کا سر اتارتی ہے تو دوسرے لیڈروں کو بھی 62/63کی روشنی میں پرکھنا پڑے گا اورزیادہ تر نااہل ہوجائیں گے۔ اپوزیشن کی بڑی پارٹی کا سربراہ تو اخلاقی جرم میں امریکی عدالت کے ایک فیصلے کی روشنی میں فوراً نااہل قرار پائیگا۔ چونکہ اس کیس کے ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام پر بھی اثر پڑیگااس لیے انصاف اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ الزام الیہان کو موجودہ بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا جائے جو فل بنچ سنے۔

جب سوال کیا گیا کہ ’’کیا وزیرِاعظم کو ہٹانے کا فیصلہ Controversial سمجھا جائیگا؟‘‘ تو کہا گیا’’کسی اور سیاستدان کا احتساب نہ ہو اور صرف وزیرِاعظم کو نااہل کیا جائے تو پھر یہ فیصلہ یقینی طور پر متنازعہ سمجھا جائیگا امید ہے کہ سپریم کورٹ اپنے متنازعہ فیصلوں میں اضافہ نہیں کریگی جب کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدالت ِعظمیٰ کے ذمّے ابھی پچھلے بہت سے قرض اتارنے والے باقی ہیں۔

قانون کی درسگاہوں میں ابھی تک یہی بتایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ جب آئین پر شبخون مارا گیا، عدلیہ آئین کی پاسداری کرنے میں ناکام رہی، پانچ مرتبہ آئین توڑا گیا، سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف میں سے کسی کو بھی ملک کے سب سے سنگین جرم کرنے پر سزا نہ دی جاسکی‘‘۔

مشاہد حسین سیّد عالمی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے محّبِ وطن دانشور ہیں وہ حکومتی پارٹی کی ایک مخالف جماعت کی طرف سے سینیٹر ہیں، ان کے والد محترم (جو قائدؒ کے سپاہی رہے تھے)کی وفات پر افسوس کے لیے گیا تو وہاں بھی کچھ لوگوں نے وہی سوال کیا “فیصلہ کیا ہوگا؟‘‘ انھوں نے علاقائی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد دوٹوک انداز میں کہا کہ’’ ان حالات میں پاکستان کے منتخب وزیرِاعظم کو ہٹادینا ایٹم بم گرانے کے مترادف ہوگا اور کوئی ادارہ ایسا کام نہیں کریگا جسکا ملک متحمّل نہیں ہوسکتا‘‘۔

دو ریٹائرڈ وائس چانسلر صاحبان سے ملاقات ہوئی ان میں سے ایک ماہرِ معاشیات بھی ہیں ان کا کہنا تھا’’آج کے دور میں معاشی استحکام کی بنیاد ہی سیاسی استحکام ہے، وزیرِاعظم کے ہٹنے سے ملک عدمِ استحکام کا شکار ہوگا۔ اس نوعیّت کی افواہوں سے ہی بیرونی سرمایہ کار خوفزدہ ہوگیا ہے، اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی ہے، روپے کی قدر گرگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایک سیٹ رکھنے والے سیاسی لیڈر تو چور دروازوں کے آس پاس گھات لگاکر بیٹھے رہتے ہیں کہ جونہی اقتدار کا کوئی چورداروازہ کھلے تو وہ چھلانگ مار کر اندر داخل ہوں مگر عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو جمہوریّت کمزور کرنے والے کسی پلان کا حصّہ نہیں بننا چاہیے”۔

قارئین کو بتاتا چلوں کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے میرے ساتھ کام کیا ہے بلاشبہ وہ ایک ایماندار اور باکردار افسر ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں ایک اور نیک نام باکردار ڈی آئی جی احسان صادق کے ہاں افطاری پر جانا ہوا، وہاں پانچ ایسے سینئر پولیس افسران جمع تھے جو سب واجد ضیاء کے ساتھ موٹروے پولیس میں کام کرچکے تھے۔ وہاں بھی جے آئی ٹی پر بات ہوئی، سب کی متفقہ رائے تھی کہ ’’بلاشبہ واجد ضیاء بہت دیانتدار افسر ہیں مگر لگتا ہے ان کی شرافت اور نرم مزاجی کے باعث جے آئی ٹی کو کچھ اور لوگوں نے ٹیک اوور کرلیا ہے۔ کس کو بلانا ہے اور کس پر کیا اعتراض کرنا ہے لگتا ہے یہ سب فیصلے ٹیم کا سربراہ نہیں کوئی اور کررہاہے‘‘۔

افطاری کے تمام شرکاء کا کہنا تھا کہ ایک پروفیشنل پولیس آفیسر کی حیثیّت سے واجد ضیاء سمجھتے تھے کہ پرائم منسٹر کا کزن جے آئی ٹی میں آنے سے پہلے مشورے کے لیے پرائم منسٹر سے ضرور ملے ملے گا۔ رحمان ملک بھی زرداری صاحب سے ملکر آئے تھے، جسطرح اُن پر کوئی اعتراض نہیں بنتا تھا اسی طرح پی ایم کے کزن پر پی ایم ہاؤس جانے کا اعتراض بے جا اور مضحکہ خیز تھا۔ ٹاک شوز کے مخالفانہ تجزیوں پر اعتراض بھی بلاجواز تھا۔

یہ دونوں اعتراض واجد ضیاء کے مزاج اور شخصیّت کے مطابق نہیں ہیں۔ نیز خفیہ کارروائی کے کئی سوال میڈیا کو لیک کرنامحّلِ نظر ہے۔ انھی چیزوں کی وجہ سے جے آئی ٹی متنازعہ بنی ہے۔ اس کی حیثیّت ایک Fact finding commission کی ہے، اگر حقائق تلاش کرنا ہی اس کے فرائض میں ہے تو ایک فریق کے اہم ترین گواہ کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

پروفیشنل پولیس افسرکو تو حقائق کی جستجو میں جہاں بھی جانا پڑے وہ جاتے ہیں، وہ انا کا مسئلہ کبھی نہیں بناتے۔ لہٰذا قطر کے شہزادہ حماد بن جاسم کا بیان لینے کے لیے ٹیم کے ممبران کو لازماً دوحہ جانا چاہیے، جب کہ شہزادے نے بیان دینے سے بھی انکار نہیں کیااور ٹیم کو اپنی رہائشگاہ پر آنے کی دعوت دے رہا ہے۔

ماضی میں کئی اہم کیسوں میں پاکستان سے ٹیمیں بیرونِ ممالک جاتی رہی ہیں اس لیے واجد ضیاء کو دوحہ جاکر بیان لینے پر اصرار کرنا چاہیے اس کے لیے سپریم کورٹ سے کچھ اور مہلت مانگنی پڑے توبھی مانگنی چاہیے۔ دو مہینے میں سے ہفتے اور اتوار کی چھٹیاں نکال دیں تو ابھی دو مہینے پورے نہیں ہوئے، دو ماہ کوئی الہامی مدّت نہیں ہے اتنے اہم کیس کی مدّت میں توسیع بھی ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔