نواز شریف کو کن گناہوں کی سزا ملی؟

میاں عمران احمد  جمعـء 28 جولائی 2017
میاں صاحب نپولین تب تک نپولین تھا، جب تک عوام اُس کے ساتھ تھی۔ جس دن عوام نے اُس کے خلاف فیصلہ دے دیا تو نپولین کو اپنے ہی ملک میں سر چھپانے کی جگہ نصیب نہ ہوسکی۔

میاں صاحب نپولین تب تک نپولین تھا، جب تک عوام اُس کے ساتھ تھی۔ جس دن عوام نے اُس کے خلاف فیصلہ دے دیا تو نپولین کو اپنے ہی ملک میں سر چھپانے کی جگہ نصیب نہ ہوسکی۔

15 اگست 1769ء کو کورسیکا کے شہر جاسیو میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ بہن بھائیوں میں اِس کا نمبر چوتھا تھا اور اِس کے والد انقلابی لیڈر کے وکیل تھے۔ 1779ء میں اِس بچے نے ملٹری اسکول میں داخلہ لیا، اور 16 سال کی عمر میں گریجویشن مکمل کی، جس کے بعد فوج میں سکینڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوگیا۔ یہاں سے اِس بچے کی ایک نئی کہانی کا آغاز ہوا۔ پہلی بار خود کو نمایاں کرنے کا موقع 1793ء میں تولون کے محاذ پر ملا، جہاں اسے توپ خانے کا نگران مقرر کیا گیا۔ فوج کو فتح ہوئی اور اُس کی کامیابی کے صِلے میں اُسے بریگیڈئیر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور 1796ء میں اُسے فوج کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ اُس نے 1796ء سے 1797ء تک شاندار فتوحات حاصل کیں۔

لیکن پھر 1798ء میں وقت نے کروٹ لی اور ناکامیوں نے اُس کی دہلیز پر قدم رکھنے شروع کردیے۔ فوج کو بدترین شکست ہوئی اور اگست 1799ء میں اُس نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا لیکن اُس کی شہرت نے اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اِن دنوں عوام بادشاہ سے بیزار آچکے تھے اور حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ اُس نے موقع کو غنیمت جانا اور تحریک کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ وقت کی دیوی ایک مرتبہ پھر اُس پر مہربان ہوئی اور یہ اکتوبر 1799ء میں ملکی تاریخ کا طاقتور ترین ڈکٹیٹر بن گیا۔

1804ء میں اُس نے خود کو فرانس کا شہنشاہ قرار دے دیا۔ حکمران بنتے ہی اُس نے جنگ کا اعلان کیا اور 1806ء میں ایران، 1808ء میں سویڈن اور پورے یورپ میں اپنی فتوحات کے جھنڈے لہرا دئیے۔ 1808ء تک سوائے انگلستان کے پورے یورپ پر اِس کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی۔ یہ انقلابِ فرانس کا حامی تھا۔ جاگیردارانہ نظام اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اُس نے ایسا آئین تشکیل دیا جو 216 سال بعد بھی پوری دنیا کے لئے مشعلِ راہ ہے اور جس نے اُس دن سے لے کر آج تک شاید ہی کسی حکمران کو متاثر نہ کیا ہو۔

اُس کے بنائے آئین نے وسطی امریکہ، جنوبی امریکہ، یورپ، جنوبی ایشیاء، مصر، ایران اور وسطی ایشیاء میں ماڈرن قانون کی بنیاد رکھی۔ آپ صرف ایک مثال لے لیجئے، اور وہ مثال یہ کہ آپ نے اکثر سنا ہوگا

(suspects were presumed to be innocent until they have been declared guilty by the court)

یہ جملہ دنیا کے تمام قوانین میں شامل ہے اور ہر طبقہ اور فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ قانون بھی اِسی نے بنایا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب یہ غریب، بے سہارا، ظلم و ستم کے ستائے، سماجی ناانصافیوں، دقیانوسی روایات اور خاندانی حکمرانی سے تنگ آئے عوام کا مسیحا بن چکا تھا۔ انقلابیوں کو اِس کے وعدوں، دعوؤں اور نعروں پر یقین تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ اقتدار عوام کو منتقل کرے گا اور لوگ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں گے یوں اِن کی زندگی میں امن اور خوشحالی آئے گی اور یہ جاگیر دارانہ نظام سے آزاد ہوجائیں گے لیکن 1808ء میں اُس سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا۔ اُس نے اپنے نااہل بھائی جوزف کو اسپین کا بادشاہ بنادیا۔ بس اِس فیصلے نے عوام کے دلوں میں نفرت کا پہلا بیج بودیا۔ اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لئے اُس نے اپنے دو عیاش بھائیوں لوئس اور جیرومی کو ہالینڈ اور ویس فالیہ کا بادشاہ بنادیا۔

مسلسل اِن غلط فیصلوں کی وجہ سے عوام کی اُمیدیں ٹوٹنے لگیں اور ملک میں فسادات شروع ہوگئے۔ غلام ریاستوں کو آزادی کا موقع ملا اور ناکامیاں اِس کا مقدر بن گئیں۔ اِس دن کے بعد اِس کا کوئی بھی فیصلہ اُسے فائدہ نہ دے سکا اور وہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا غلط فیصلہ کرتا چلا گیا۔ آخر کار 1808ء میں انگلستان، 1813ء میں لیب زک کی جنگ اور 1815ء میں واٹر لوکی جنگ میں اُسے شکست ہوئی اور دنیا کے اِس عظیم سپہ سالار نے برطانیہ کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے جس کے بعد اُسے عمر قید کی سزا ہوئی اور جنوبی ایٹلانٹک کے جزیرے میں منتقل کردیا گیا۔ وہاں یہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگیا اور 5 مئی 1821ء کو ٹھیک شام 5 بج کر 49 منٹ پر دنیا کے بااختیار ترین حکمران نے آخری سانس لی اور ’دورِ نپولین‘ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔

آپ کو یقیناً اب تک اِس شخص کا نام معلوم ہوچکا ہوگا۔ جی ہاں! یہ تاریخ کے عظیم فاتح نپولین بونا پاٹ کی کہانی تھی۔ اب آپ نپولین کا دور اپنے سامنے رکھیں اور اِس کا موازنہ نواز شریف کے ساتھ کریں۔ 2013ء میں میاں محمد نواز شریف نے پورے ملک میں جلسے کئے اور اپنے خطابات میں لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے، اقتدار عوام کے ہاتھوں میں منتقل کرنے، اُنہیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے، بجلی پانی اور گیس سستی کرنے، اسپتالوں کی حالت بہتر کرنے، تعلیم کو پہلی ترجیح دینے، بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے، انتخابی نظام کو بائیو میٹرک کرنے، کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور سرِعام پھانسی دینے کا یقین دلایا تھا۔

عوام نے اِن کے وعدوں اور نعروں پر یقین کیا اور بِلا شرکتِ غیرے ملکی تاریخ کا طاقتور وزیراعظم بنا دیا، لیکن میاں صاحب آپ نے بھی وہی غلطی کی جو نپولین نے 1808ء میں کی تھی۔ آپ نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود بھی اقتدار عام آدمی کو دینے کے بجائے اپنے خاندان اور دوستوں میں تقسیم کردیا۔ آپ نے عوام کا حق اپنے بھائی، بھتیجوں، بیٹی، داماد، سمدھی سمیت خاندان کے 84 لوگوں میں بانٹ دیا۔ آپ کے اِس اقدام نے عوام کے دلوں میں نفرت کا بیج بو دیا اور اُن لوگوں کی آہیں اور دہائیاں آپ پر بھاری پڑگئیں اور آپ دنیا بھر کی دولت اور شہزادوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے باوجود بھی آج نااہل ہوگئے ہیں۔

میاں صاحب نپولین تب تک نپولین تھا، جب تک عوام اُس کے ساتھ تھی۔ جس دن عوام نے اُس کے خلاف فیصلہ دے دیا تو نپولین کو اپنے ہی ملک میں سر چھپانے کی جگہ نصیب نہ ہوسکی۔ یوں نپولین نے اپنی غلطیوں کی سزا اِس دنیا میں پائی۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر نپولین جیسا ذہین اور مقدر کا سکندر انسان خود کو اللہ کے انصاف سے نہیں بچا سکا تو آپ بھلا یہ کیسے تصور کررہے تھے کہ آپ بچ جائیں گے؟ آپ کو بھی حساب دینا ہی تھا اور اِس کا سلسلہ آج سے شروع ہوگیا ہے۔ جس خاندان کو آپ نے اقتدار بانٹا تھا آج وہ سب آپ کے خلاف فیصلہ آنے پر آپ کی جگہ لینے کے منتظر ہیں۔ آج وہ سب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، کیوںکہ پیپل کے درخت پر کبھی گلاب نہیں اُگتے اور آپ نے جو بویا ہے وہی کاٹنے جارہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔