ایک یادگار عالمی کانفرنس

زاہدہ حنا  اتوار 22 اکتوبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

1857ء کا ہنگام مسلمانان ہند سے اقتدار لے گیا اور زوال ان کا مقدر ہوا۔ ایسے میں یہ سید احمد خاں تھے جنہوں نے قوم کے لیے وہ راستہ اختیار کرنے کی ٹھانی جو عمومی طور سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن مشکل یہ آن پڑی تھی کہ وہی راستہ اعتدال اور پھر اقبال کی طرف جاتا تھا۔ یہ جدید تعلیم، بہ طور خاص انگریزی تک رسائی کا معاملہ تھا جس کے بغیر مسلمان پستی سے نہیں نکل سکتے تھے اور ان کی اجاڑ بستیاں آباد نہیں ہوسکتی تھیں۔

سید احمد خاں 1817ء میں پیدا ہوئے تھے، غرض ان کی پیدائش کو 2 صدیاں مکمل ہوئیں۔ سید احمد خاں جو انگریز سے ’سر‘ کا خطاب ملنے کے بعد ’سر سید‘ کے نام سے یاد کیے گئے، انھوں نے مسلمان نوجوانوں کی جدید تعلیم کے لیے جتنے پاپڑ بیلے، جس قدر دشنام اور اتہام کے تیر کھائے، اس سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ یہ ان کی بے لوث خدمات اور مسلمانِ ہند کے لیے ان کا ویژن تھا کہ ان کے چاہنے والوں کا قبیلہ ہر دور میں پیدا ہوتا رہا اور پھر یہ طے کیا گیا کہ 2017ء کو ان کی دو صد سالہ سالگرہ کے لیے مخصوص کیا جائے۔ ان کا یہ جشن ہندوستان سے پاکستان تک ہر جگہ منایا جارہا ہے۔ اس کا آغاز ’ماہ نو‘ کے ضخیم اور شاندار نمبر سے ہوا۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا میاں محمد نواز شریف کے پیغام سے ہوئی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’پاکستان گزشتہ تقریباً 2 دہائیوں میں مذہبی شدت پسندی، فرقہ وارانہ کشیدگیوں اور سماجی عدم برداشت کے ہاتھوں بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ موجودہ منتخب حکومت نے اس تاریخی المیے سے نجات حاصل کرنے کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا، وہ سر سید کی اسی فکر یعنی مذہبی رواداری، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، تعلیم کی اہمیت اور برداشت کے سماج کی ازسرنو تشکیل کا راستہ ہے‘‘۔ میاں نواز شریف اپنے مخالفین کے مطابق مذہبی شدت پسند خیال کیے جاتے ہیں، اب ایسے میں میاں صاحب کے اس ’پیغام‘ کو کس خانے میں رکھا جائے؟

یہ بات محض تذکرۃً آگئی، ورنہ اصل گفتگو سر سید احمد خان کی اس دو سو سالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس کے چند مقالوں کے بارے میں ہے جس کا اہتمام کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو، ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد اور انجمن ترقی اردو پاکستان نے مشترکہ طور پر کیا۔

اس بین الاقوامی کانفرنس کو ’’ادب، تاریخ اور ثقافت: جنوب ایشیائی تناظر اور سر سید احمد خان‘‘ کا نام دیا گیا جس میں پاکستان، ہندوستان، مصر، امریکا، کینیڈا، ایران اور سوئیڈن سمیت کئی ملکوں کے دانشوروں اور محققوں نے شرکت کی۔ کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کی صدر نشین، ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور انجمن ترقی اردو کے صدر ذوالقرنین جمیل، اور اس کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اس یادگاری بین الاقوامی کانفرنس کو واقعی یادگار بنا دیا۔

کانفرنس کا آغاز ڈاکٹر سید جعفر احمد کے کلیدی خطبے سے ہوا جس میں انھوں نے سر سید کی روشن خیالی کے محرکات اور اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: ’’انھوں نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں سماجی، سیاسی، تعلیمی اور مذہبی موضوعات پر عام ڈگر سے ہٹ کر غور و فکر کے جونئے زاویے دریافت کیے اس نے نہ صرف خود اُن کے زمانے میں بلکہ بعد کے عشروں میں بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔‘‘

یوں تو اس کانفرنس میں جو مقالے پڑھے گئے، وہ سب ہی عمدہ تھے لیکن سابق رئیس کلیہ اور شعبۂ اردو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد نے ’’سر سید احمد خان اور تعلیم نسواں‘‘ پر بات کی۔ سر سید جو ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمان نوجوان کی جدید تعلیم کے رہبر رہنما تھے، انھوں نے عورتوں کی تعلیم سے آنکھیں  چرائیں۔ان کے رفیقوں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولوی ممتاز علی، بدرالدین طیب جی، مولوی کرامت علی اور سید امیر علی سے اس مسئلے پر سر سید کے گہرے اختلافات رہے جو خواتین کی تعلیم کے حامی تھے۔

اس بارے میں ایک زاویہ نظریہ ہے کہ مسلمان عورتوں کی تعلیم بھڑوں کا چھتہ تھی اور سر سید جو پہلے ہی لڑکوں کی تعلیم کے حوالے سے معتوب اور مقہور تھے، ایک نیا محاذ قائم کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ اس یادگاری کانفرنس میں تعلیم نسواں اور سر سید کے حوالے سے کئی مضامین پڑھے گئے جن سے اس موضوع پر بحث کے کئی زاویے سامنے آئے۔ اس کانفرنس میں پڑھے جانے والے دو پرچوں کے بارے میں بہ طور خاص گفتگو ہونی چاہیے۔ ان میں سے ایک فیصل ریحان کا ہے جو گورنمنٹ انٹر کالج برشود بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان پر سر سید احمد خان کے اثرات کی گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’’انگریزی قبضے کے بعد بلوچستان میں پیدا ہونے والی نسل کی ذہنی و فکری پرداخت پر سر سید احمد خان کے اتنے واضح مذہبی، تہذیبی اور علمی و ادبی اثرات مرتب ہوئے جن کے ذکر سے مفر نہیں۔ بلوچستان کی پہلی تعلیم یافتہ نسل یعنی یوسف عزیز مگسی، عبدالصمد خان اچکزئی، گل خان نصیر، عبدالعزیز کرد اور محمد امین کھوسہ وغیرہ کی تحریروں اور زندگی کا سرسری مطالعہ بتاتا ہے کہ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنے خطے میں سیاسی، سماجی اور علمی حوالے سے جو جدوجہد کی (مثلاً جھل کے علاقے میں اسکول کھولنا، مختلف اخبارات نکالنا اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے تنظیم سازی کرنا وغیرہ) ان پر سر سید احمد خان کی تعلیمات کے بالواسطہ اثرات ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچ سیاسی شعور کی علامت سمجھی جانے والی پہلی’ کل ہند بلوچ کانفرنس‘ کے تصور نے علی گڑھ میں ہی جنم لیا تھا۔‘‘

ہمارے یہاں اس بات کا جائزہ ذرا کم لیا جاتا ہے کہ سندھ نے علی گڑھ سے سیکڑوں میل کے فاصلے پر ہونے کے باوجود تحریک سر سید میں کس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس اہم موضوع کا جائزہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے لیا جو شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کے ڈین آف آرٹ اینڈ لینگویجز ہیں۔انھوں نے لکھا کہ:

’’سر سید کی اس تعلیمی تحریک نے خوب اثر پیدا کیا اور برصغیر کے تمام صوبوں کے مسلمانوں میں بیداری کی روح پھونک دی تھی، اس میں سندھ نہ صرف شامل تھا بلکہ عملی طور پر سر سید کی اس تعلیمی تحریک کے زیر اثر یہاں جو کاوشیں ہوئیں انھوں نے سندھ کے علم و ادب کو کئی نئے اور خوبصورت رنگ دیے۔ سر سید کی اس تعلیمی تحریک کے زیرِ اثر جس بیدار مغز اور دانش مند رہنما نے سندھ کے مسلمانوں کو جدید تعلیم اور انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا، وہ خان بہادر حسن علی آفندی تھے۔

حسن علی آفندی نے علی گڑھ میں سر سید اور ان کے رفقا سے تبادلہ خیال کیا، دارالعلوم علی گڑھ کو دیکھا اور اس کی روشنی میں اپنی اسکیم مرتب کی۔ مرحوم آفندی نے سندھ کے مسلمانوں کی پست اور بے حس و بے حرکت زندگی میں تحرک پیدا کرنے کے لیے سندھ مدرستہ الاسلام کی بنیاد رکھی۔

سندھ کے سر سید، حسن علی آفندی کے مشن کو کامیاب و کامران بنانے کی خاطر اسی انداز میں سندھ کے جن ارباب علم و دانش نے مسلسل محنت و کاوش اور پیہم جدوجہد کی، ان میں مخدوم الشعرا الحاج محمود خادم لاڑکانوی، مرزا قلیچ بیگ، میر عبدالحسین سانگی اور شمس الدین بلبل کے اسمائے گرامی ہماری قومی تاریخ میں روشن میناروں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔سر سید احمد خان نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی تو اس کے زیر اثر حسن علی آفندی نے سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کی داغ بیل ڈالی۔سر سید نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا تو سندھ میں حسن علی آفندی نے 1899ء میں ہفت روزہ اخبار ’’معاون‘‘ کراچی کا اجراء کیا اور اس کی ادارت کے فرائض شمس الدین بلبل کے سپرد کیے۔ سندھ میں مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اور معاشی زوال کا سب سے پہلے ذکر آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سولہویں اجلاس میں ہوا تھا۔‘‘

نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کی تحریکوں کا اثر کس طرح دور دور پھیلتا ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر یوسف خشک کے پرچے سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر صوفیہ خشک، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر رخسانہ صبا اور ان کے علاوہ متعدد خواتین و حضرات نے اپنی کاوشیں نئی نسل کے سامنے پیش کیں۔سر سید کو یاد کرنے کے بہانے علم دوستوں کا جمگٹھا رہا۔

یوں تو اس کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں متعدد لوگوں کا حصہ تھا لیکن یہ بہ طور خاص ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر فاطمہ حسن کا حوصلہ تھا کہ لگ بھگ 100 مندوبین کی دلداری اور خاطر داری نہایت سلیقے سے کی گئی اور شاید کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔ ایک علمی اور ادبی کانفرنس کو ابتدا سے انتہا تک کامیابی سے ہم کنار کرنا، ایک بڑی بات ہے اور کراچی میں یہ کام ہوگیا ہے جس کے لیے منتظمین قابلِ داد و ستائش ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔