بینظیر کا قتل رحمٰن ملک کی غفلت سے ہوا، مشرف، سابق وزیر داخلہ کو شامل تفتیش کرنیکا فیصلہ

آئی این پی  منگل 30 اپريل 2013
اب تک رحمن ملک سے کوئی سوال کیوں نہیں ہوا؟ جبکہ وہ ہی بینظیر کی سیکیورٹی کے ذمے دار تھے، سابق صدر کا ایف آئی اے سے استفسار فوٹو : اے ایف پی / فائل

اب تک رحمن ملک سے کوئی سوال کیوں نہیں ہوا؟ جبکہ وہ ہی بینظیر کی سیکیورٹی کے ذمے دار تھے، سابق صدر کا ایف آئی اے سے استفسار فوٹو : اے ایف پی / فائل

اسلام آ باد:  سابق صدرجنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے تفتیش کاروں کو دیے گئے اس بیان کے بعد کہ رحمن ملک نے 27 دسمبر 2007 کو روالپنڈی کے عوامی جلسے کی سیکیورٹی کی تفصیلات طے کی تھیں اور بینظیر کا قتل رحمن ملک کی غفلت سے ہوا، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کے معاملے میں رحمن ملک سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کے ذرائع نے بتایاکہ دوران تفتیش پرویز مشرف نے قتل کے معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی کی کمزوری کی وجہ سے سابق وزیراعظم قتل کردی گئیں، جس کی ذمے داری رحمان ملک پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ان کی سیکیورٹی کے انچارج تھے۔ پیپلزپارٹی کی5 سالہ حکومت میں رحمن ملک بطور وزیر داخلہ خدمات انجام دے چکے ہیں اور ایف آئی اے کا ادارہ براہ راست ان کے ماتحت کام کرتا رہا تھا جبکہ بینظیر قتل کی تفتیش کا معاملہ انھی کے سپرد تھا اور مشترکہ تفتیشی ٹیم(جے آئی ٹی)رحمن ملک کی ہی تشکیل کردہ تھی ۔

ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ یہ رحمن ملک کی ذمے داری تھی کہ وہ بے نظیر بھٹو کو قائل کرتے کہ وہ اپنی بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلیں، اس لیے کہ پولیس انھیں گاڑی کے اندر رہنے پر مجبور نہیں کرسکتی تھی۔مشترکہ تفتیشی ٹیم نے خاص طور پر سابق فوجی حکمران کے انکشافات کے بعد اس معاملے میں لازمی قانونی ضرورت کو پورا کرنے کیلیے رحمن ملک کا بیان ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مشترکہ تفتیشی ٹیم رحمن ملک کو نوٹس جاری کرے گی اور بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ مشرف نے یہ بھی دعوی ٰکیا کہ رحمن ملک پیپلزپارٹی اور اس وقت کی حکومت کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کررہے تھے اور27دسمبر 2007 کے دن لیاقت باغ میں عوامی اجتماع کے حوالے سے سیکیورٹی انتظامات پر انھوں نے پولیس کے ساتھ بات چیت کی تھی حالانکہ بے نظیر بھٹو کی سیکیورٹی کیلیے ایک ہزار371پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ سابق صدر نے سوال کیا کہ آخر رحمن ملک سے اب تک اس حوالے سے تفتیش کیوں نہیں کی گئی؟۔ قتل کے وقت ایس ایس پی ریٹائرڈ میجر امتیاز بے نظیر کے کافی قریب تھے، مزید یہ کہ وہ ان کے ساتھ بلٹ پروف گاڑی میں تھے۔

رحمن ملک کے بعد یہ میجر امتیاز کی ذمے داری تھی کہ وہ بینظیر کو عوامی اجتماع سے بخیر وخوبی سے خطاب کرنے کے بعد گاڑی سے باہر نکلنے سے روکتے۔سلمان صفدر نے کہا کہ یہ انتظامات رحمن ملک نے اسی دن ہی طے کیے تھے اور اس حوالے سے صرف وہی جانتے تھے۔ سلمان صفدر نے پوچھا کہ اس کا جواب صرف رحمن ملک ہی دے سکتے ہیں کہ سیکیورٹی کا اتنا بڑا رخنہ کیسے پیدا ہوگیا تھاکہ جس سے حملے کے لیے راستہ مل سکا؟۔ سلمان صفدر کے مطابق سابق وزیر داخلہ کو یہ بھی وضاحت کرنی چاہیے کہ جبکہ پنجاب حکومت اس معاملے کی تفتیش کیلیے پہلے ہی ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے چکی تھی تو پھر ایف آئی اے نے اس کیس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں کیوں لے لیا؟۔ پنجاب گورنمنٹ نے اس حوالے سے مطلع کیا تھا کہ 2008 کی ابتدا میں مشترکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی تھی۔

جو ڈی آئی جی مشتاق سکھیرا، ایس پی وقار چوہان اور ایس پی انوسٹی گیشن طاہر ایوب پر مشتمل تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے6اگست2009 کو یہ کیس ایف آئی اے کے اسپیشل انوسٹی گیشن گروپ کو منتقل کردیا اور ایک اور مشترکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دیدی گئی ۔ پرویز مشرف نے26اپریل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں عدالت سے گزارش کی کہ اس سے پہلے کہ ان کا جسمانی ریمانڈ لیا جائے، ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم ازسر نو تشکیل دی جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق جب رحمن ملک سے رابطہ کیا گیا تو ان کے آپریٹر نے کال اٹینڈ کی اور سوال نوٹ کرنے کے بعد کہا کہ رحمن ملک جلد ہی اپنا ردعمل دیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔