ماؤں کا عالمی دن

رضوان طاہر مبین  اتوار 11 مئ 2014
بچوں کے لیے تن تنہا جدوجہدکرنے والی ماؤں پر تنقید کیوں؟  فوٹو : فائل

بچوں کے لیے تن تنہا جدوجہدکرنے والی ماؤں پر تنقید کیوں؟ فوٹو : فائل

صاحب اولاد ہو کر بھی۔۔۔ 

’’اگر اولاد ہوتی تو آج کوئی سہارا ہوتا۔۔۔ بیٹا ہوتا تو آج ماں یوں تنہا نہ ہوتی۔۔۔ بے اولادی واقعی بڑا روگ ہے۔۔۔‘‘ ہمارے معاشرے میں عام طور پر اسی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں، مگر یہ اولڈ ہومز کے مناظر خونی رشتوں پرسوال اٹھا رہے ہیں کہ مشرقیت سے روایات تک کا بھرم ایک لمحے میں چکنا چور ہو جاتا ہے اور دیارِ غیر میں سرد ہوتے رشتے ناتوں پر لکھنے اور بولنے والے خود سے نگاہیں چرانے لگتے ہیں۔

یہاں کھوکھلے ہو کر بکھرنے والے ہر رشتے ناتے کی ایک کرب ناک داستان ہے جو یہ تلخ حقیقت سامنے لاتی ہے کہ صاحب اولاد بھی آج لاوارثوں کی طرح غیروں کے دوش پر ہیں۔ اہل مغرب تو شاید ماؤں کے دن پر ہی اولڈ ہومز کا رخ کر لیتے ہوں، مگر یہاں چھوڑ جانے والی اولاد تو مڑ کر اپنی ماں کی خیر خبر بھی نہیں لیتی۔۔۔ بیماری کی اطلاع کی جائے تو کہتے ہیں ’’ہاں، ہمیں پتا ہے، ان کی صحت اب گرتی ہی جائے گی!‘‘ لیکن موت کے بعد میت وصول کرنے کی دوڑ ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو نہ دے دینا ہماری ماں کی میت!‘‘

کسی نے ماں کی بیماری کو عذر بنایا تو کسی نے اس متاع کو اپنی ’’بہتر زندگی‘‘ اور ’’مصروفیت‘‘ میں رکاوٹ جانا۔۔۔ اور جو ماں انہیں کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی، اسے جیتے جی خود سے پرے کر دیا۔ بہتیری مائیں اس جدائی کا غم بیان کرنے سے قاصر، بس یاد ہے تو اولاد۔۔۔ اور اس کی دید کی خواہش۔۔۔ ہر ماں کے پیچھے ایک دکھ بھری کہانی ہے۔۔۔ ایسی کتنی ہی کہانیاں ہمیں کراچی میں قائم دو اولڈ ہومز ’’بنت فاطمہ اولڈ ہوم‘‘ اور ’’سہارا اولڈ ہوم‘‘ میں سننے کو ملیں۔ 70 سالہ رخسانہ (فرضی نام) بھی ایک ایسی ماں ہیں، جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔۔۔ لیکن بہ یک وقت دو بچوں کو پالنے والی ماں کے لیے ان کی اولاد کے پاس اب وقت نہیں ہے۔۔۔ وہ گزشتہ چھے ماہ سے بنت فاطمہ اولڈ ہوم میں موجود ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے ماں جیسی مقدس ہستی کے ساتھ بہت سی خصوصیات ودیعیت کی ہیں کہ وہ تنہا چھوڑ جانے والی اولاد سے متعلق کوئی شکوہ بھی نہیں کرتی۔۔۔ ان ماؤں کا یہ سمجھنا کہ وہ جلد ہی ’’اپنے گھر‘‘ چلی جائیں گی، نہایت کرب ناک ہے۔۔۔ کیوں کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہاں آگئی ہیں۔ ایک ایسی ہی شفیق خاتون نسیمہ (فرضی نام) نہایت تپاک سے ملیں۔۔۔ انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا ہے۔ دہلی اور کراچی میں 35 برس تدریس سے وابستہ رہیں۔ اکلوتی بیٹی لندن چلی گئی۔۔۔ اور بوڑھی ماں کا مقدر بنت فاطمہ اولڈ ہوم بنا۔ نسیمہ کہتی ہیں کہ میری بیٹی ڈاکٹر ہے۔۔۔ داماد بھی بیٹے کی طرح ہے۔۔۔ اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں۔۔۔ مجھے ’’نانی، نانی‘‘ کہتے ہیں۔۔۔‘‘ رخصت ہوا تو اس شفیق ماں نے دست شفقت میرے سر پر رکھا اور بتایا صدر میں میرا اپنا گھر ہے، میں جلد ہی وہاں چلی جاؤں گی!

سہارا اولڈ ہوم میں دو سال سے مقیم مسماۃ ’’ف‘‘ اپنے اکلوتے بیٹے سے ملنے کی منتظر ہیں۔۔۔ جو لندن میں مقیم ہے اور کہتا ہے جلد آرہا ہوں، مگر آتا نہیں ہے۔۔۔ انہیں بھی یہاں سے اپنے گھر لوٹنے کی امید ہے، کہتی ہیں، کہ فالج ہونے کی وجہ سے یہاں رہ رہی ہوں۔ جیسے ہی ٹھیک ہو ئی، بیٹے کے پاس لندن چلی جاؤں گی۔ بقول فہمیدہ، وہ فالج کی بنا پر بیٹے کے ساتھ نہ جا سکیں۔ بیٹے سے دو سال سے ملاقات نہیں ہوئی، صرف فون پر بات ہوتی ہے۔ اس سے ملنا چاہتی ہوں، مگر دیکھیں کہ وہ کب آتا ہے۔۔۔!

ایک اور خاتون کا سوتیلا بیٹا انہیں ٹانگ میں فریکچر ہونے کے بعد یہاں چھوڑ گیا۔۔۔ اپنے اس بیٹے کو وہ سگوں سے بڑھ کر قرار دیتی ہیں۔ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ یہاں علاج کی غرض سے رہ رہی ہیں اور جیسے ہی ٹھیک ہو جائیں گی، تو ان کا بیٹا انہیں یہاں سے گھر لے جائے گا۔ ان کا بیٹا آتا ہے تو باہر گاڑی ہی میں بیٹھا رہتا ہے۔ ’’ملنے آپ کے پاس کیوں نہیں آتا؟‘‘ اس سوال پر کہتی ہیں کہ ’’یہاں تو صرف خواتین ہیں نا، اور وہ شرمیلا بہت ہے، اس لیے اوپر نہیں آتا۔۔۔!‘‘

گرومندر کی رہایشی ایک نحیف و نزار ماں ’’ن‘‘ کی پتھرائی ہوئی آنکھیں ممتا کا روگ بیان کر تی ہیں۔۔۔ یہ کہیں کھوئی کھوئی سی رہتی ہیں، کچھ پوچھا جائے تو بمشکل جواب دے پاتی ہیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ شوہر نے طلاق دے دی اور بچوں نے بھی چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے بھائی کے ہاں رہیں۔

ایک سال قبل بھائی نے سہارا اولڈ ہوم میں چھوڑا۔۔۔ مگر انہیں وقت کا شمار یاد نہیں۔ بچوں سے ملنے کی خواہش ہے، مگر انہوں نے کبھی فون تک نہیں کیا۔۔۔ کسی ویرانے کے مانند دکھائی دینے والی اس ماں کا چہرہ بالکل سپاٹ اور کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری ہے۔ وہ کیا جانیں کہ ’’یوم ماں‘‘ کب اور کیسے ہوتا ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں اپنے بچوں کی دید کی خواہش کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ یہیں پر موجود مسماۃ’’ی‘‘ بھی 22 سالہ بیٹے کی ماں ہیں۔ کچھ نفسیاتی مسائل کی بنا پر انہیں یہاں چھوڑا گیا، لیکن اب خاصی بہتر ہیں۔ پچھلی بار کی طرح اس مدرز ڈے پر بھی وہ اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہیں، جو ان سے کبھی ملنے نہیں آیا۔

ایک طرف مختلف اولڈ ہوم میں رہایش پذیر مائیں ہیں، تو دوسری طرف اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں بوڑھی مائیں اپنے گھروں پر بھی تنہا ہیں۔ ان کی اولاد نے اگرچہ انہیں اولڈ ہوم میں داخل نہیں کرایا، لیکن عمر کے اس حصے میں انہیں اپنے ساتھ رکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔ نتیجتاً گھروں میں بھی بہت سی مائیں تنہائی کی اذیت جھیل رہی ہیں۔ عذر ان کی اولادوں کے بھی وہی ہیں جو اولڈ ہومز میں موجود ماؤں کی اولاد کے ہیں۔ زندگی کے جھمیلوں نے انہیں زندگی دینے والی شخصیت سے دور کر دیا ہے اور بدقسمتی سے گھروں میں بھی ماؤں کی تنہائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

گلدستے ملاقات کا نعم البدل نہیں

’’ماؤں کا عالمی دن‘‘ سب سے پہلے 1870ء میں انسانی حقوق کی کارکن اور شاعرہ جولیا وارڈ (julia ward) نے اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ بعد ازاں 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں اینا جیروس نامی خاتون ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ اس دن اس نے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد بھی کیا۔ جس میں اس نے اپنی ماں کے پسندیدہ پھول پیش کیے۔

اینا کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور اس وقت کے امریکی صدر نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو نہ صرف ’’مدرز ڈے‘‘ کے نام سے موسوم کیا، بلکہ اسے ہر سال قومی سطح پر منانے کا اعلان بھی کیا۔ یوں ایک بیٹی کی ماں کے لیے محبت کی طاقت نے اپنے آپ کو ملکی سطح پر منوایا۔ اس طرح ہر سال یہ دن منایا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کئی ممالک نے امریکا کی تقلید کی اور اسی دن کو ماؤں کے دن کے طور پر منانے کے لیے چن لیا، جن میں ڈنمارک، ترکی، پاکستان، آسٹریلیا، بیلجیئم اور برطانیہ وغیرہ شامل ہیں۔

مغربی معاشرے میںاس دن خصوصی طور پر ماں سے الگ رہنے والے لوگ اپنی ماؤں سے ملنے جاتے ہیں۔ انہیں تحائف پیش کرتے ہیں۔ اولڈ ہاؤس منتقل کی جانے والی ماؤں کے لیے یہ دن عید جیسا ہوتا ہے، جب ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی اولادیں انہیں پھول پیش کرتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس دن ماں کی ممتا کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دینے والا معاشرہ خود ہی ان ماؤں کو اولڈ ہاؤسز میں ڈال دیتا ہے اور اس دن کے بعد یہی مائیں اپنے مقدر کی تنہائی کے عذاب جھیل جھیل کر ایک دن یہ دنیا چھوڑ جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے اب یہ سب کچھ صرف مغربی ہی نہیں، بلکہ مشرقی معاشرے کا بھی حصہ بنتا جا رہا ہے، جب کہ ہمارے ہاں تو خاندانی نظام کی کمان گھر کے بزرگوں کے ہاتھ رہی ہے، مگر اب مشترکہ خاندانی نظام کی تباہی کے بعد اکائی خاندانی نظام میں نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ بہت سے گھرانوں میں اولاد بڑھاپے میں ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتی۔ انہیں مختلف رفاہی اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بزرگوں کو پناہ دینے یا فلاحی اداروں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ جہاں گنجائش سے زیادہ بوڑھے افراد موجود ہیں۔ خصوصا ایسی مائیں پائی جاتی ہیں، جن کی ویران آنکھوں میں اپنے بچوںکی دید کی پیاس جھلک رہی ہے۔

مغرب میں اب صورت حال یہ ہے کہ وقت کی تیز رفتاری نے تنہائی کا عذاب جھیلتی ماؤں کے لیے اس ایک دن کی امید اور آس کو بھی چھین لیا ہے۔ بذریعہ ڈاک انہیں گل دستے اور تحائف دے کر سمجھا جاتا ہے کہ ماں کا حق ادا کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ماں کے لیے اولاد کے بغیر تو دنیا جہاں کے کسی تحفے اور پھولوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، لہٰذا ان ماؤں کی یہ امید درد ناک کرب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان کی اولاد کے اس دن بھی ’’مصروف‘‘ رہنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی نئی گرل فرینڈ کی والدہ کے لیے تیاری کر رہا ہوتا ہے یا پھر اپنی ساس کے لیے یہ اہتمام کیا جا رہا ہوتا ہے، کیوں کہ وقت کی ’’تنگی‘‘ کے باعث گزشتہ یوم ماں پر وہ اپنی ساس کی قدم بوسی کو نہ جا سکا تھا، لہٰذا اس برس ماں کے بہ جائے ساس کی باری تھی!

ہمارے معاشرے میں جس طرح بزرگوں کے مقام و مرتبے میں کمی آ رہی ہے، اسی طرح ’’ماں‘‘ کے لیے جذبات سرد پڑنے لگے ہیں۔ کسی بھی فرد کی پیدایش سے لے کر اس کی ذہنی و جسمانی تربیت کے تمام مراحل میں ماں کا کردار سراپا محبت ہی محبت ہوتا ہے، لیکن وہ فرد جب خود اپنی زندگی جینے کے قابل ہوتا ہے تو کیوں اس ہستی کو بھول بیٹھتا ہے جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا؟ ہمارا ہرلمحہ اور ہر دن ماں کی عظمتوں کو سراہنے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔

اکیلی مائیں

بہت سے لوگ بد شگونیوں اور خرافات کے باعث پریشان حال خواتین کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔ بالخصوص کسی لڑکی کی شادی ختم ہو گئی ہو، شوہر کی وفات ہو گئی ہو، تو ایسی خواتین جنہیں دوسروں کے کم سے کم معاشرتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں خود سے دور کر دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر شادی، بیاہ اور اس طرح کے خوشی کے مواقع پر انہیں مدعو نہیں کیا جاتا اور اگر کسی طرح وہ موجود بھی ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ انہیں الگ تھلگ ہی رکھا جائے۔ ایسی خواتین میں ایک بہت بڑی تعداد ماؤں کی بھی ہے، جو بیوگی کے بعد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پر عزم ہوتی ہیں، لیکن سماج کے ایسے بیمار رویے انہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ مائیں اپنی ممتا کی تسکین کی خاطر سخت جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کی باتوں کی کند چھری سے ذبح بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ انہیں بعض اوقات معاشرے کی طرف سے بھی طعنوں تشنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر وہ بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت کرے تو بہ جائے اس کی حوصلہ افزائی کے، الٹا اس کے کردار پر باتیں کی جانے لگتی ہیں۔

اگر ایسی کسی اکیلی رہ جانے والی ماں کو زندگی کے ستم نے طلاق کے حادثے سے دو چار کیا ہو تو، پھر جینا اور بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ یہ مائیں اپنے آنگن کے ننھے پھولوں کی آب یاری کی خاطر، ہر روز کیسی کیسی پُرخار راہوں میں گھائل ہوئے جاتی ہیں، لیکن ہمت نہیں ہارتیں۔ معاشرہ ان کی ستایش تو کیا کرتا، الٹا انہیں اپنے گھٹیا خیالات کی زد پر رکھتا ہے۔ یہ مائیں اپنے بچوں کے لیے بہ یک وقت ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی بیش تر مائیں بیوہ یا مطلقہ ہو جانے کے بعد محض اولاد کی خاطر دوسری شادی بھی نہیں کرتیں۔

تمام عمر بچوں کو پڑھاتی لکھاتی، ان کی بہترین تربیت کر کے ان کو کام یاب انسان بناتی ہیں۔ اپنی خواہشات اور ارمانوں کو اولاد کے بہترین مستقبل پر قربان کر دیتی ہیں، لیکن لوگوں کی بدگمانیاں، تہمتیں ان کی شخصیت کو اندر سے زخمی کر دیتی ہیں۔ ہمارے مذہب میں بھی ماں کا کردار بہت بلند ہے اور ایسی خواتین سے صلۂ رحمی کا حکم ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کر کے رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال قائم کی، پھر ہم ان کے امتی ہو کر بیواؤں کو اپنی خوشی کی محفلوں میں بدشگونی اور نحوست کی علامت کیوں گرادنتے ہیں اور ایسی ماؤں کو محض بیوہ ہونے کی وجہ سے ان کی جدوجہد پر انگشت نمائی کیوں کرتے ہیں؟

اگر ہم تنہا ماؤں کی زندگی کا بغور مشاہدہ کریں، تو ان کی زندگی ایک عام ماں کی زندگی سے کئی گنا زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔ زندگی کے اس اکیلے پن میں انہیں پیشہ ورانہ مجبوریوں کا بار بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کی اس ساری جدوجہد کا محور اس کے بچے ہوتے ہیں، جن کی تعلیم وتربیت اور غذائی ضرورت کی تکمیل کے لیے وہ یہ سب کر رہی ہوتی ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے رات تک کام میں جُتی ماں، اس وقت کسی کانچ سے بھی زیادہ برے طریقے سے ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتی ہے، جب اس پر طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ صرف اپنے بچوں کی خاطر یہ سب جھیل رہی ہوتی ہیں۔

جب اکیلی مائیں اپنے بچوں کے بھنور میں پھنسے جیون کو پار لگا دیتی ہیں ، لیکن ان پر اس وقت ایک نئی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، جب اسے اولاد سے اجنبیت کا صلہ ملتا ہے۔ ہمارے اردگرد ایسے بہت سے واقعات بکھرے ہیں، جب زندگی کی کٹھنائیوں میں تن تنہا ماؤں نے دیوانوں کی طرح اپنی اولاد کو کسی مقام پر پہنچایا، لیکن بد نصیب اولاد نے ماں کے عظیم رتبے کو دیکھا اور نہ ہی اس کے اس احسان کو خاطر میں لائے۔ ایک ایسی ماں جس نے اکیلے پن کے باوجود اپنی اولاد کو زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔۔۔ لوگوں کے طعنے اور باتیں برداشت کیں اور اپنی اولاد کو کسی قابل بنا دیا۔

آج ماؤں کے اس دن کی خبر ایسی اولاد کو بھی ہوگی، جو کسی ایسی ماں کی جدوجہد سے کسی مرتبے پر پہنچے ہوں گے۔۔۔ اور کچھ ایسے ناسمجھ لوگ بھی جو ایسی ماؤں کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں۔۔۔ محض اپنی دقیانوسیت اور عادت سے مجبور ہو کر۔ انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کتنا گھٹیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج کے دن ضرورت ہے اس بات کی، کہ ہم ایسی تنہا ماؤں کو بھی یاد رکھیں۔ چاہے یہ ہمارے قرب وجوار میں ہوں، یا ہم ان کی اولاد ہوں۔ ہر دوصورتوں میں ہم اپنے رویوں کا ازسرنو جائزہ لیں اور ماں جیسی عظیم ہستی کے اس روپ کو فراموش نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔