(پاکستان ایک نظر میں) - وی آئی پی کلچر

ضمیر آفاقی  جمعرات 18 ستمبر 2014
عوام اگر اپنے ساتھ ہونے والے استحصال پر صرف آواز ہی اٹھانا شروع ہوجائیں تو اس ملک سے خاص و عام کی پہچان ختم ہوسکتی ہے۔ فوٹو فائل

عوام اگر اپنے ساتھ ہونے والے استحصال پر صرف آواز ہی اٹھانا شروع ہوجائیں تو اس ملک سے خاص و عام کی پہچان ختم ہوسکتی ہے۔ فوٹو فائل

پوری دنیا میں قانون معاشروں میں بسنے والے افراد کی سہولت اور بہتری کو مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی تصور ہی نہیں ہے یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہی بنتا اور لاگو ہوتا ہے۔ مثال کے طور ہر اگر امریکی صدر کی سیکورٹی پروٹوکول کا معاملہ ہو تو جہاں سے ان کی سواری کو گزرنی ہے ان علاقوں کے سیوریج سسٹم سے لیکر گھروں اور بلڈنگوں تک کو کھنگال لیا جاتا ہے، لیکن اس بات کاخاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سیکورٹی پروٹوکول سے عام آدمی یا شہری کی معمول کی زندگی متاثر نہ ہو۔

لیکن اس کے برعکس پاکستان میں تمام وی وی آئی پیز کے گزرنے کے وقت ایسی ہا ہا کار مچتی ہے کہ بچے اسکولوں سے اور بڑے اپنے کام کاج کی جگہ پر پہنچنے کے لئے لیٹ ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بیمار اور مضروب بروقت اسپتال نہیں پہنچ پاتے اور راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی سیکورٹی پر مامور ایجنسیاں اور سرکاری ادارے اتنے ناہل ہیں کہ وہ اس عوامی تکلیف کو دور کرنے کی کوئی کوشش آج تک نہیں کر سکے ۔

حکمرانوں کی سیکورٹی پر مامور ادارے چاہیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے کہ وی وی آئی پیز اپنی نقل و حرکت کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کریں یا ان ممالک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں جو اپنے وی وی آئی پیز کو شہری زندگی معطل کئے بغیر مکھن میں سے بال کی طرح بحفاظت نکال لے جاتی ہیں، لیکن اگر ایسا کر لیا جائے تو بادشاہ سلامت کی سواری گزرنے کا پتہ کیسے چل سکتا ہے؟۔ مجھے اس وقت اپنا آپ بہت ہی حقیر لگتا ہے جب یہ وی وی آئی پیز 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے شاں کرتی اپنی بلٹ پروف گاڑی کے کالے شیشوں سے مجھے کسی کیڑے مکوڑے کی طرح دیکھتے ہیں اور ان کی حفاظت پر مامور ان کے محافظوں سے بھری گاڑیاں کس طرح عام لوگوں کی چلتی ہوئی کاروں اور موٹر سائیکلوں کو بندوق کی نالیں لہرا لہرا کر ہوا میں مکے اور گالیاں اچھالتے ہوئے زگ زیگ راستہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں ۔

حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں کیڑے مکوڑوں کے دیے گئے ٹیکس سے اِن فرعونوں کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور اِنہیں کیڑے مکوڑوں کے ووٹ سے وی آئی پی کو بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنا نصیب ہوتا ہے۔ پھر ان وی آئی پیز کو اپنی زندگی محفوظ رکھنے کے لیے اتنے کمانڈوز اور بلٹ پروف اسکواڈ کی آخر کیا ضرورت ہے؟۔ اس بات کا جواب کسی دل جلے نے یوں دیا ہے کہ اگر حکمران عادلانہ نظام قائم کرتے اور ملک میں ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہو جاتا تو پھر شاید انہیں کسی پرٹوکول یا آہنی حصار کی ضرورت نہ رہتی ۔

مانا کہ دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے دنیا کی مملکتوں، بادشاہتوں اور جمہوری حکومتوں میں ہونے والے تمام واقعات، خبریں پل بھر میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے ہیں اس لئے جب پاکستان کے عوام دوسرے ملکوں کے سربراہان مملکت اور سرکاری اہلکاروں کو ان کی کسی غلطی کی بنا پر ملنے والی سزاوں کے بارے سنتے، پڑھتے ہیں تو ہوسکتا ہے انہیں بھی شرمندگی کا احساس ہوتا ہو کیونکہ پاکستان میں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں کہ کسی ’’بڑے‘‘ کو سزا ملے۔ ہمارے وی ای آئی پیز نے تو ہر جگہ دیر سے پہنچنے کی قسم کھا رکھی ہے، مگر گزشتہ دنوں پی کے 370 کے مسافروں نے تو کمال کر دیا جب پرواز دو گھنٹے لیٹ ہوئی اور اس کی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کا دیر سے آنا معلوم ہوئی تو مسافروں کا پارہ چڑھ گیا اور جب موصوف جہاز پر تشریف لائے تو انہیں بے عزت کر کے جہاز اسے اتار دیا گیا اور مسافروں کا یہ عمل بتاتا ہے کہ اب ماضی کی طرح زور زبرستی برداشت نہیں کی جائے گی تبدیلی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی آتی ہے۔ عوام اگر اپنے ساتھ ہونے والے استحصال پر صرف آواز ہی اٹھانا شروع ہو جائیں تو اس ملک سے خاص و عام کی پہچان ختم ہوسکتی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک میں وی آئی پی کلچر کا تصور تک نہیں ہے جبکہ پاکستان کا ایک عام سا افسر بھی اپنے آپ کو عوام سے اعلی سمجھتا ہے۔ جاگیرداری، وڈیرہ شاہی اور غیر جمہوری روئیوں نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے،عوام میں شعور کی بلندی سے ہی تمام غیر انسانی کلچر کا خاتمہ ممکن ہے جس کی شروعات ہو چکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد حکومتی اکابرین اپنے معمولات کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں گے کیونکہ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جس کا عملی ثبوت پی کے 370 ہے۔ پہلا پتھر اٹھ چکا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔