- لاہور میں فری وائی فائی سروس کے مقامات کو دگنا کردیا گیا
- حافظ نعیم سے محمود اچکزئی، اسد قیصر کی ملاقات، احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت
- شادی میں فائرنگ سے مہمان جاں بحق، دلہا سمیت 4 افراد گرفتار
- پی ایس ایل2025؛ پی سی بی نے آئی پی ایل سے متصادم تاریخیں تجویز کردیں
- پی ایس ایل2025 کب ہوگا؟ اگلے ایڈیشن کیلئے نئی ونڈو کی تاریخیں سامنے آگئیں
- سونے کی عالمی سطح پر قیمت میں اضافہ، مقامی مارکیٹ میں سستا ہوگیا
- قطر امریکی دباؤ پر حماس قیادت کو ملک سے بے دخل کرنے پر تیار ہوگیا، اسرائیلی میڈیا
- کراچی؛ پیپلزبس سروس میں اسمارٹ کارڈ سے ادائیگی کا نظام متعارف
- محسن نقوی کی اسٹیڈیمز کی اَپ گریڈیشن کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت
- پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، فلیٹ اور دفاتر کی تعمیر کا انکشاف
- ضبط کی جانیوالی اسمگل گاڑیوں کی کم قیمت پر نیلامی کا انکشاف
- 9 ماہ میں 6.899 ارب ڈالرکی غیرملکی معاونت موصول
- پاکستان کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں، عالمی بینک
- کینیڈا میں خالصتان رہنما ہردیپ کے قتل میں ملوث 3 بھارتی گرفتار
- سمیں بلاک کرنے میں رکاوٹ بننے والوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- پی آئی اے کی خریداری میں مقامی سرمایہ کاروں کی بھی دلچسپی
- شعبۂ صحت میں پاکستان کا اعزاز، ڈاکٹر شہزاد 100 عالمی رہنماؤں میں شامل
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ کوچنگ اسٹاف کا اعلان ہوگیا
- ایف بی آر کا وصولیوں کیلیے جامع حکمت عملی وضع کرنیکا فیصلہ
- نیویارک میں ہوٹلز کے کرایے آسمان سے باتیں کرنے لگے
فلائنگ انوائسز ؛ آر ٹی اوز کے سیکڑوں نوٹسز، چھاپے، ہول سیلرز خوف زدہ
کراچی: ریجنل ٹیکس آفسز (آرٹی اوز) کراچی کی جانب سے خودکار نظام کے تحت درآمدی سرگرمیوں کے باوجود متعلقہ درآمدکنندگان سے پرانے ریکارڈ کی طلبی ایف بی آر کے آٹومیشن سسٹم پر سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ کراچی میں قائم ان لینڈ ریونیو سروس کے ماتحت ریجنل ٹیکس دفاتر کی جانب سے ایس آراو38 اے اورایس آراو38 بی کے تحت 350 سے زائد درآمدکنندگان اور تاجروں کو نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں جس کے بعد کراچی میں اجناس، کیمیکل اینڈ ڈائز سمیت دیگر اشیا کی تھوک مارکیٹوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی کے ہر آرٹی او نے 6 اہلکاروں پر مشتمل چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جو روزانہ مختلف تھوک مارکیٹوں میں تاجروں کے گوداموں پرکیری اوور اسٹاکس کی جانچ پڑتال کیلیے چھاپے مار رہی ہیں۔ بیشتر درآمدکنندگان نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ متعلقہ آرٹی او سے نوٹسز نہ ملنے کے باوجود ان کے گوداموں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ریجنل ٹیکس دفاتر نے ایس آر او 38 بی کے تحت متعلقہ درآمدکنندگان سے جولائی2011 سے جون2016 تک (اگرچہ ابھی اپریل چل رہاہے) کا سیلز ٹیکس کا پرانا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے، اس سلسلے میں انہیں صرف 1 ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔
تاجرحلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ایف بی آر کے خودکار نظام کے تحت نہ صرف درآمدات کرتے ہیں بلکہ اسی کے ذریعے سیلزٹیکس کی ادائیگیاں بھی کررہے ہیں لیکن متعلقہ ریجنل ٹیکس دفاتر کی جانب سے انفرادی طور پر ان سے سیلزٹیکس کا پرانے ریکارڈ طلب کیا جارہا ہے حالانکہ ایف بی آر کی آٹومیشن کے بعد یہ تمام ریکارڈ متعلقہ ٹیکس دفاتر میں پہلے ہی سے موجود ہے۔
آرٹی اوز کے نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ انہیں اشیا کی فروخت کے بغیر جعلی وفلائنگ انوائسز میں ملوث ہونے سے متعلق معلومات موصول ہوئی ہیں جس کی تصدیق کیلیے ضروری ہے کہ جولائی2011 سے جون 2016 تک ٹیکس ریکارڈ ودستاویزات پیش کی جائیں جس میں پرچیز انوائسز، یوٹیلٹی بلز، بل آف انٹری، سیلز انوائسز، شاپنگ بلز، اسٹاک رجسٹر، انوینٹری ریکارڈ بشمول خام مال وفنشڈ مصنوعات اور ہرشے کا انفرادی ڈیٹا، سال کا ابتدائی و اختتامی اسٹاک اوراس کی مالیت، ادائیگیوں اور وصولیوں کا پارٹی وائز لیجر، مشینری کی فہرست اور پروڈکشن اسٹیٹمنٹ بشمول اسکریپ سیلز پیش کیا جائے۔
نوٹس میں ودہولڈٹیکس ایجنٹس کے ذریعے منہا کیے گئے ٹیکس کے ثبوت اور ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے بشمول ضمیمے بھی طلب کیے گئے ہیں، اسی طرح جاری ڈیبٹ کریڈٹ نوٹس کی تفصیلات اور سالانہ آڈٹ شدہ کھاتے بھی طلب کیے گئے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔