دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

رضاالحق صدیقی  پير 12 دسمبر 2016
امریکہ اک نئی دنیا ہے جس کے پاس کوئی ماضی نہیں صرف حال ہے اور اسی حال میں جو کچھ اس کے پاس ہے امریکیوں نے اسی کو سنبھالنا ہے۔

امریکہ اک نئی دنیا ہے جس کے پاس کوئی ماضی نہیں صرف حال ہے اور اسی حال میں جو کچھ اس کے پاس ہے امریکیوں نے اسی کو سنبھالنا ہے۔

پٹامک ریور، گریٹ فالز اور راک کریک پارک

انٹرنیٹ کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے، دور دراز جگہ پر بیٹھا ہوا شخص ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ دور ہوتے ہوئے بھی اپنوں کے ساتھ ہے۔ عدیل کے فلیٹ میں بیٹھ کر انٹرنیٹ دنیا بھر میں موجود احباب کو میرے رابطے میں رکھتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے قدیر پیرزادہ نے پاکستان میں ہنزہ ویلی اور اس کے گرد و نواح کے تفریحی مقامات پر اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہوئے، ویلی دیکھتے دکھاتے ہوئے، تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کی ہیں، یقین کیجیئے، دل خوش ہوگیا۔ پاکستان واقعی دنیا میں اپنے تفریحی مقامات کے اعتبار سے جنت نظیر ہے۔

امریکہ میں ہم یہاں کی یاترا کر رہے ہیں، روز کسی نا کسی مقام کی سیرسے جی بہلا رہے ہیں۔ گریٹ فالز بھی ایک تفریحی مقام ہے جہاں دریائے پٹامک کا تیز بہتا پانی فال کی شکل میں تیزی سے گرتا بھلا لگتا ہے۔ اردگرد جنگل نما پارک جس میں بورڈ واک کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ہمارے ہاں تفریحی مقامات پر سہولتوں اور انتظامات کا فقدان ہے، مگر امریکہ میں جگہ جگہ قائم تفریحی مقامات چاہے وہ خوبصورت ہوں یا نہیں، سیاحوں کی حفاظت کے ساتھ مقامات کے تحفظ کا بھی پورا خیال کیا جاتا ہے۔ دریائے پٹامک کے اردگرد جنگل نما پارک میں دریائے پٹامک کی فالز کے قابلِ دید مقامات دیکھنے کے لئے اور وہاں تک پہنچنے کی خاطر لکڑی کی گزر گاہیں بنائی گئی ہیں، جن کے دونوں جانب حفاظتی جنگلے نصب ہیں تاکہ کوئی شخص بھی ان جنگلوں میں نہ جاسکے۔

عدیل کے مطابق گریٹ فالز کے آس پاس جتنے جنگل ہیں وہاں انسان قدم نہیں رکھ سکتا، ان کے اندر جانا منع بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اندر جانا منع اس لئے بھی ہے کہ وہ قدیمی حالت میں جوں کے توں محفوظ رہیں، وہاں سے ایک ٹہنی اٹھا کر لے جانا بھی جرم ہے۔ امریکیوں کو اپنی سرزمین سنبھالنے کا فن آتا ہے۔ وہ اسے دھرتی ماں سمجھتے ہیں اور اس کی دل و جاں سے حفاظت کرتے ہیں۔

انہیں اپنے جانوروں، پرندوں، جنگلوں، دلدلوں، ندیوں، آبشاروں اور قدیمی غاروں کو محفوظ کرنے اور سنبھالنے اورانہیں انسانوں سے بلند درجے پر فائز کرنے کا خبط ہے۔ اصل میں یہ خصوصیت یہاں آباد قدیمی باشندوں کے خون میں تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھیل کر پورے امریکیوں میں سرائیت کرگئی ہے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

جن لوگوں کے پاس قدیم تاریخ ہے وہ اپنے ماضی کو سنبھالنے میں کمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی  قوم ہڑپہ اور موئن جو داڑو کی صورت موجود ہے، جس کی باقیات عجائب گھر میں محفوظ اس خطے کی سات ہزار سال قدیم تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی بودوباش، تہذیب و تمدن، کیا کچھ نہیں ہے ان کے پاس۔ پاکستان کے بعد امریکہ میں مجھے احساس ہوا کہ یہ قوم بھی ماضی سنبھالتی ہے۔ ہمارے پاس قدیم ثقافت بھی ہے اور شاندار سرزمین بھی یعنی ہمارے پاس دونوں کے شواہد ہیں، اپنی ثقافت اور سرزمین سے عشق تبھی ہوتا ہے جب آپ ایک قوم ہوں، اپنی دھرتی کے وارث ہوں اور اس کے باسی ہونے پر فخر کریں۔ ہندوستان نے اردو کو ہندی کا نام دیا اور اسے اپنی دھرتی سے جوڑا۔ اسے ایک نیا رسم الخط دے کر اسے اپنالیا، ہم اردو کو عربی رسم الخط میں اپنانے کے باوجود اسے دھرتی سے جوڑ کر ’’پاکستانی‘‘ کا نام نہ دے سکے۔

امریکہ اک نئی دنیا ہے جس کے پاس کوئی ماضی نہیں صرف حال ہے اور اسی حال میں جو کچھ اس کے پاس ہے امریکیوں نے اسی کو سنبھالنا ہے۔ دریائے پٹامک امریکہ کی چار ریاستوں میری لینڈ، ورجینیا، مغربی ورجینیا اور واشنگٹن کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے ایک کنارے پر میری لینڈ اور واشنگٹن کی سرحد ختم ہوتی ہے تو دوسری جانب ورجینیا کی دونوں ریاستیں ہیں۔ پٹامک گریٹ فالز کے قابلِ دید مقامات میری لینڈ کی جانب سے علیٰحدہ خوبصورتی رکھتے ہیں، جبکہ ورجینیا کی جانب سے مناظر واقعی قابلِ دید ہیں لیکن ہمارے پاکستان کے بالائی سرحدی علاقوں میں بہتے دریاؤں کے فالز اپنی مثال آپ ہیں۔

پٹامک دریا 405 میل لمبائی کا حامل ہے، امریکہ میں بہنے والے دریاؤں میں یہ اکیسویں (21) نمبر پر ہے۔ دریائے پٹامک اپنے ساتھ مختلف تہذیبیں ساتھ لاتا ہے۔ مغربی ورجینیا کے بالائی بہاؤ کے علاقے میں بسنے والے کوئلہ کے کان کنوں سے لے کر زیریں شہری علاقے درالخلافہ کے رہائیشیوں کے علاوہ شمالی ورجینیا کے مچھیروں تک۔

امریکہ کی تاریخ اور ثقافت میں اہمیت کی بناء پر پٹامک کو ’قوم کے دریا‘ کا نام دیا گیا۔ امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن، اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ پٹامک کے طاس میں گزارا۔ اسی علاقے میں امریکہ نے تین سول جنگیں سن 1859ء، سن1861ء اور سن 1862ء میں لڑیں۔ سن 1862ء میں ہونے والی خانہ جنگی میں جنرل رابرٹ ای لی نے اس دریا کو عبور کیا بالکل اسی طرح جیسے سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ کے دوسری جانب صف آراء راجہ پورس سے جنگ کے لئے اس بپھرے ہوئے دریا کو عبورکیا تھا اور اسے شکست دی تھی۔

امریکہ اور پاکستان کی تاریخ و ثقافت کے بارے میں سوچتے ہوئے جنرل رابرٹ کا تصور میری نظروں کے سامنے پھرگیا کہ کس طرح اس وقت دریائے پٹامک کے پانیوں پر کھوکھلے تنوں پر تیر کر دریا عبور کیا ہوگا، میں جس جگہ کھڑا تھا وہاں بادل میرے اور دھوپ کی راہ میں حائل تھے۔ اچانک بادل چھٹ گئے۔ گرمی کے اچانک اس احساس نے محسوس کرایا کہ وہ بھی دھوپ چھاؤں کے اس کھیل سے گزرے ہوں گے۔ سامنے سے بہہ کر آتا پانی بتارہا تھا کہ معلوم تاریخ کے مطابق دریائے پٹامک کے بہتے پانی دس، بیس لاکھ سال سے ایسے ہی بہہ رہے ہوں گے۔ بالکل اُسی طرح جیسے سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ کو عبور کرتے ہوئے محسوس کیا ہوگا۔

ایک سحر تھا جو مجھ پر طاری تھا، تاریخ کے ڈوبتے، ابھرتے اوراق اس علاقے کی کہانی بیان کررہے تھے۔ پاپا یہ آپ اچانک کہاں کھو جاتے ہیں؟ ابھی پیچھے آپ گرتے گرتے بچے ہیں، پیر پر چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔ عدیل نے فکر مندانہ لہجے میں کہا۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ میں تاریخ کے کس دور میں پہنچ گیا تھا، میں نے کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ اس کی جانب دیکھا، ایک ناقابل قبول سا جواز پیش کیا اور آگے چل دیا۔

میری لینڈ سے گریٹ فالز کی جانب جاتے ہوئے پٹامک دریا سے پہلے دائیں جانب سرسبز علاقہ راک کریک پارک ہے۔ اس ہائی وے پر اس علاقے سے گزرتے ہوئے میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں ہائیکنگ کے رستے بنے ہوئے تھے، جن پر لوگ جاگنگ کر رہے تھے۔ راک کریک پارک سن 1890ء میں کانگرس کے ایک ایکٹ کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا تیسرا نیشنل پارک تھا لیکن اب اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نیشنل پارک سروس کے پاس ہے۔ امریکہ کے ایک صدر بنجمن ہیری سن نے کانگریس کے اس ایکٹ پر دستخط کئے۔ نیشنل پارک سسٹم میں شامل یہ سب سے قدیم قدرتی شہری پارک ہے جس کی تعمیر سن 1897ء میں شروع ہوئی۔ یہ پارک تقریباََ 2000 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔

راک کریک پارک دوسرے جنگل نما پارکوں کی طرح ہی ہے لیکن اسے بڑا منظم کیا ہوا ہے۔ یہاں جنگل سے ایک ٹہنی بھی اٹھا کر لے جانا جرم ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ اتنا سرسبز نظر آتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جنگل کے جنگل بیچ کھاتے ہیں اور کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ ٹمبر مافیا کی انہی حرکتوں کی وجہ پاکستان کا قدرتی حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔ بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ کم ہوتے جنگلات بھی پریشانی کا سبب بن رہے ہیں، بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ اور جنگلات کی تعداد میں کمی نے ہمیں دنیا کی ان قوموں میں شامل کردیا ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں۔

کتے تیتھوں اتے

شینن ڈوا کے ہیڈ کوارٹر شہر لیورے میں جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے، اس کی پچھلی جانب ایک وسیع وعریض لان تھا۔ ہمیں کمرے بھی اسی طرف ملے، کمروں کی چابیاں تھما کر ہوٹل کا مالک کم منیجر وہاں سے جاچکا تھا۔ ہم نے سامان کمروں میں رکھا۔ ابھی دوپہر کے تین بجے تھے۔ عدیل کہنے لگا ابھی کچھ دیر ریسٹ کرتے ہیں، پھر کچھ دیر باہر لان میں بیٹھیں گے، چائے پیئیں گے۔ آج کا دن تو یہیں لیورے شہر کی سیر کریں گے، کل صبح لیورے کیونز دیکھنے چلیں گے، سنا ہے بہت خوبصورت جگہ ہے۔

ہمارے کمرے ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ عدیل اور رابعہ ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ دونوں کمروں کے درمیان دروازہ ہونے کی سب سے زیادہ خوشی عنایہ کو تھی کہ کبھی وہ ایک کمرے میں آرہی تھی تو کبھی دوسرے میں جا رہی تھی۔ اس کے اس آنے جانے نے عدیل اور رابعہ کو ریسٹ نہیں کرنے دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے ہمارے کمرے میں جھانکا اور کہنے لگے، آئیں کچھ دیر لان میں بیٹھتے ہیں۔ ہم تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، باہر لان میں اس وقت کوئی اور نہیں تھا شاید دوسرے کمروں والے صبح ہی صبح اپنے پروگرام کے مطابق سیر اور گردونواح میں واقع تفریح گاہیں دیکھنے نکل گئے ہوں گے۔ ابھی ہم لان میں آکر بیٹھے ہی تھے کہ ہمارے کمروں سے دو کمرے چھوڑ کر جو کمرہ تھا اس میں رہائش پذیر فیملی واپس آگئی۔

تین چار افراد کی یہ فیملی گاڑی سے اتری تو ساتھ ہی ایک کتا بھی اتر کر ان کے ساتھ کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ساری فیملی اپنے کتے سمیت لان میں آگئی۔ لان میں آ کر انہوں نے کتے کی زنجیر کھول دی۔ کتے کی مالکن نے ایک گیند دور پھینکی، کتا بھاگتا ہوا گیا اور گیند کو منہ میں دبائے واپس آ گیا۔ وہ فیملی اپنے کتے کے ساتھ دور بیٹھی کھیلنے میں مصروف تھی۔ لان کے درمیان باربی کیو کے لئے ایک ہٹ بنا ہوا تھا۔ عنایہ بھاگتی ہوئی جاتی اور خیالی چائے دادا ابو اور دادی کے لئے بنا کر لاتی۔ کچھ دیر کے بعد پیالیاں واپس ہٹ کی طرف لے جاتی۔ کچھ دیر یہ آنکھ مچولی جاری رہی پھر اس کی دادی بھی اٹھ کر اس کے پاس ہٹ میں چلی گئیں۔ اتنے میں اس فیملی نے جو گیند گھمائی تو وہ سیدھی ہٹ کی جانب ہی آئی۔ کتا بھاگتا ہوا گیند کی طرف لپکا، عنایہ اور اس کی دادی سہم گئیں کہ کتا ان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔

جس وقت یہ وقوعہ ہو رہا تھا میں کمرے سے ویڈیو کیمرہ لینے گیا ہوا تھا۔ کیمرہ لے کر میں کمرے سے باہر آرہا تھا کہ اچانک مجھے عنایہ کے رونے اور اس کی دادی کی چیخ سنائی دی، میں نے لان کی جانب دیکھا تو کتا ہٹ کی جانب لپک رہا تھا۔ دادی نے عنایہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ رکھا تھا اور دونوں زور زور سے چیخ رہی تھیں۔ ان کی چیخیں سن کر کتے کی مالکن بھی کتے کے پیچھے بھاگنے لگی۔ کتا چیخیں سن کر ہٹ سے پہلے ہی رک گیا۔ اتنے میں کتے کی مالکن نے وہاں پہنچ کر کتے کے گلے میں زنجیر ڈال دی اور کہنے لگی یہ حملہ کرنے نہیں، اس بچی سے کھیلنے آرہا تھا، یہ بھی تو ابھی بچہ ہی ہے۔

وہ فیملی تو معذرت کرکے چلی گئی لیکن مجھے امریکہ کی گلی کوچوں میں گھومتے وہ تمام کتے یاد آگئے جو کسی نہ کسی گوری کے ساتھ بڑی شان سے چل رہے ہوتے تھے یا کسی نہ کسی گوری یا کالی کی گود میں براجمان اپنی معصوم سی صورت کے ساتھ دنیا دیکھ رہے ہوتے تھے۔ پاکستان میں برگر فیملیز کے علاوہ کتا پالنے کا ایسا کوئی خاص رواج نہیں ہے۔ پاکستان میں گلیوں کے آوارہ کتے خاصے خطرناک ہوتے ہیں۔ عنایہ کی دادی بلاوجہ نہیں چیخی تھیں، کتے کو لپکتے دیکھ کر انہیں عدیل کے بچپن کا وہ واقعہ یاد آ گیا تھا جب لاہور میں سمن آباد کی ڈونگی گراؤنڈ میں شارٹ کٹ کے چکر میں گراؤنڈ میں موجود آوارہ کتوں کی ایک ٹولی میں سے ایک کتا عدیل اور اس کی ماں کو دیکھ کر ان پر لپکا تھا اور ماں نے عدیل کو بچانے کے لئے اسے اپنی بانہوں میں بھرلیا تھا، اور ساتھ ساتھ حسبی اللہ کا ورد کر رہی تھیں، اس وقت بھی ایک لمحے کے لئے خوف کے عالم میں چیخ اٹھی تھیں وہ آج کی طرح۔

یہاں امریکہ میں کتا، انسانوں جیسے حقوق کا حامل ہے۔ امریکہ میں جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں وہیں کتے کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی متعدد سوسائیٹیز ہیں جو انسانوں سے زیادہ ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کی تنقید کا زیادہ تر نشانہ کوریا، چین اور ان ملکوں کے لوگ ہوتے ہیں جو ان کتوں کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنالیتے ہیں۔ ہم پاکستان میں جس محکمے میں کام کرتے تھے وہاں کوریا اور چین نے بہت منصوبے مکمل کئے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اپنے عرصہ ملازمت میں متعدد بار ہم صحافیوں کی ٹولیوں کو ان منصوبوں پر لے کرگئے۔ وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں کتوں اور سوروں کی بہتات تھی، رات کے سناٹے میں کتوں کے بھوکنے کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا لیکن جب سے ان پراجیکٹس پر غیر ملکیوں نے کام شروع کیا ہے، کتوں نے بھونکنا بند کردیا ہے اور نظر بھی نہیں آتے۔

یہ بات ہمیں واجد نے بھی بتائی تھی جو چین میں 20 سال سے زائد وقت گزار کر واپس آئے تھے کہ چین، جاپان اور کوریا میں کتے، بلی، سور بلکہ ہر چیز کا گوشت کھالیا جاتا ہے۔ یہ تو اس نے ہمیں نہیں بتایا کہ وہ یہ گوشت کس طرح کھاتے ہیں لیکن یہ ضرور بتایا تھا کہ ڈوگ پارٹی وہاں کی خاص پارٹی کہلاتی ہے اور پوڈل سوپ ان کی مرغوب غذا ہے۔

امریکہ کے کئی اسٹورز میں پالتو جانوروں کی دکانیں بھی ہوتی ہیں، جہاں چھوٹے بڑے مختلف نسلوں کے کتے بلیاں ملتی ہیں۔ پنجروں میں بند یہ جانور امریکیوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ انہی دکانوں سے ان جانوروں کی سیل بند ڈبوں میں خوراک بھی ملتی ہے۔ میں نے بہت سے اسٹورز میں جب رابعہ اور عنایہ کی دادی مختلف چیزیں دیکھ رہی ہوتی تھیں، تو ہم نے ایک بار یونہی تجسس میں ایک سرخ اور سنہری رنگ کا ڈبہ اٹھا کر دیکھا تھا۔ امریکہ میں خوراک کے ڈبوں پر اندر موجود خوراک کے پورے اجزاء لکھے ہوتے ہیں۔ یہ خوراک چاہے انسانوں کی ہو یا حیوانوں کی، میں نے ڈبے پر لکھے اجزاء پڑھے تو حیران رہ گیا۔ وہ کتوں کی خوراک اتنی توانائی بخش تھی کہ پاکستان میں اتنی توانائی والی غذا انسانوں کو بھی میسر نہیں۔

اس اسٹور سے جانوروں کے شیمپو، پٹے، زنجیریں اور برش بھی ملتے ہیں۔ سردیوں میں کتوں کو گرم رکھنے کے لئے خوبصورت رنگوں کے جیکٹ نما لباس بھی تھے وہاں، جو ان کی کمر پر ڈال کر نیچے پیٹ پر کلپ کے ساتھ باندھ دئیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کتوں کے بیوٹی سیلون، انہیں نہلانے دھلانے، شیمپو کرکے بال سنوارنے کی سہولتیں بھی دستیاب ہیں۔ اب تو کتوں کے ماہر نفسیات بھی وہاں دستیاب ہیں جو کتوں کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرتے ہیں۔

یہ سب چونچلے مراعات یافتہ کتوں کے لئے ہیں۔ ہمارے ہاں کے ڈونگی گراؤنڈ میں لوگوں پر بھونکنے اور کاٹنے کے لئے دوڑنے والے کتوں کے لئے نہیں ہیں۔ مراعات تو خیر اپنے دیس میں انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہیں، فیض احمد فیض نے نقش فریادی میں جو نظم ’’کتے‘‘ لکھی ہے شاید انہی کے لئے ہے۔

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانہ کی پھٹکار، سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کر مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

خیر بات ہو رہی تھی لیورے موٹل کے باہر کتے کے لپکنے اور اس کی مالکن کے تاویلیں پیش کرنے کی۔ یہ انہی کتوں میں سے ایک کتا تھا جن کے ماتھے پر بقول بلھے شاہ لکھ دیا گیا تھا کہ ’کتے تیتھوں اتے‘۔ جن کے خاموش ہونے پر، بات نہ کرنے پر، پاس سے گزرتی جوان مادہ کو دیکھ کر بھی دم نہ ہلانے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور ماہرِ نفسیات کو بلایا جاتا ہے۔ ہم خاموش رہے کہ وہ امریکی کتا تھا جسے وہاں بہت سارے حقوق حاصل تھے اور اپنے گھر میں تو ہر کتا شیر ہی ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔