دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

رضاالحق صدیقی  جمعـء 9 دسمبر 2016
امریکہ کا کوئی بھی علاقہ ہو، اس کے ہر شہر میں کسی نا کسی سڑک پر موسیقی کا مظاہرہ کرتے گروپس یا تنہا ڈرم، گٹار، وائلن، ٹرمپٹ بجاتا کوئی نا کوئی فرد نظر آہی جاتا ہے۔

امریکہ کا کوئی بھی علاقہ ہو، اس کے ہر شہر میں کسی نا کسی سڑک پر موسیقی کا مظاہرہ کرتے گروپس یا تنہا ڈرم، گٹار، وائلن، ٹرمپٹ بجاتا کوئی نا کوئی فرد نظر آہی جاتا ہے۔

وائلن بجاتی، سر بکھیرتی، وہ لڑکی

میری لینڈ کے اوشن سٹی کا ساحل سمندر گوروں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ شہروں کی رونقیں دیکھتے دیکھتے اچانک اوشن سٹی کے تفریحی مقام پر چند روز گزارنے کا پروگرام بنا، اچانک تو یہ ہمارے لئے تھا لیکن عدیل اور رابعہ نے ہمارے پاکستان سے آنے سے پہلے ہی ہمیں گھمانے کا پورا پروگرام مرتب کررکھا تھا، یہی نہیں عدیل نے اپنی سالانہ چھٹیوں میں سے دو ہفتے اسی سلسلے کے لئے بچا رکھے تھے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

اوشن سٹی، میری لینڈ ریاست کا ایک جزیرہ ہے اور امریکہ میں اسے مِڈ اٹلانٹک ریجن اور تعطیلات کے لئے اہم مقام گردانا جاتا ہے۔ جہاں ہر سال 80 لاکھ افراد تفریح کے لئے آتے ہیں۔ جسے ایک طویل پل نے باقی علاقوں سے جوڑا ہوا ہے۔ اوشن سٹی جس جگہ آباد ہے اسے ایک مقامی امریکی سے ایک انگریز تھامس فنوک نے حاصل کیا۔ سن 1869ء میں ایک بزنس مین اساک کوفن نے ساحلِ سمندر پر پہلے فرنٹ بیچ کاٹیج تعمیر کئے۔ یہاں سیاہ فام تو کم ہی آتے ہیں لیکن گوروں کی بہتات ہے۔ گورے یہاں یا تو ساحلِ سمندر پر اوندھے پڑے سن باتھ لے رہے ہوتے ہیں یا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ بورڈ واک کررہے ہوتے ہیں۔

ساحلِ سمندر کے ریتیلے حصے کے ساتھ ساتھ لکڑی کا میلوں لمبا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے جسے بورڈ واک کہتے ہیں، جسے 1902ء میں تعمیر کیا گیا۔ اِس پلیٹ فارم کے آگے دکانوں کی ایک لمبی قطار ہے، اس سے پیچھے ہوٹل ہیں، کھانے پینے کی، کھیلوں کے سامان کی دکانیں بھی ہیں، جن میں کیچرز لگے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت قیمتی چیزیں پڑی ہیں، کیمرے اور آئی پوڈز سے لیکر بہت اعلیٰ قسم کے اسٹفڈ ٹوائز تک سب کچھ موجود ہے۔ آپ ایک یا دو ڈالر ان مشینوں میں ڈال کر قسمت آزما سکتے ہیں۔ یہ دکانیں کیسینو سے مختلف ہیں۔ بورڈ واک کے آخری حصے میں طویل القامت فیری ویل نصب ہے جس میں ہنڈولے لگے ہوئے تھے، بچوں نے ہمیں بھی اپنے ساتھ ہنڈولے میں بٹھالیا۔ جب ویل میں ڈولتا ہوا ہنڈولا ہمیں لے کر بلندی پر پہنچا تو چاروں طرف عجیب منظر تھا، دور دور تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، ایک جانب ایک پل جس پر گاڑیاں اس جزیرے پر مسافروں کو لاتی لے جاتی کھلونا گاڑیوں کی مانند نظر آرہی تھیں۔

مجھے بلندی سے خوف آتا ہے لیکن اب جب بچوں نے ساتھ بیٹھا ہی لیا تھا تو میں ان پر اپنا خوف ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ اور ریڑھ کی ہڈی میں سرائیت کرتی خوف کی سرسراہٹ کے ساتھ میں جبر کرکے بیٹھا ہوا تھا۔ چار، پانچ چکروں کے بعد ویل رک گیا تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراتی خوف کی لہر بھی تھم گئی۔ خوف کا ایسا ہی احساس مجھے اس وقت محسوس ہوا تھا جب پاکستان میں واپڈا ایک ہی تھا اور مجھے واپڈا کی سالانہ رپورٹ کے لئے تصاویر درکار تھیں اور مجھے پاور اسٹیشنوں کی تصاویر بنوانے فوٹوگرافرز کے ساتھ کوٹ ادو اور مظفرگڑھ میں فوٹوگرافی کرانی تھی۔

پاور ہاؤس کی 100 فٹ اونچی چمنی کی فلمبندی کے لئے ایک کرین مہیا کی گئی جس کے ساتھ پنڈولم کی طرح ایک پلیٹ فارم جھول رہا تھا۔ ایسا پلیٹ فارم جس کی کوئی دیوار نہ تھی، اللہ بخشے مسعود ذوالفقار کو، وہ پلیٹ فارم پر چڑھا، کرین آپریٹر نے پلیٹ فارم کو اوپر اٹھانا شروع کیا۔ ابھی پلیٹ فارم پندرہ، بیس فٹ ہی اوپر گیا تھا کہ مسعود ذوالفقار نے اوپر سے کچھ کہا، میں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اس نے بھی ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ کرین کو نیچے کروائیں، میں سمجھا اسے ڈر لگ رہا ہے، کرین نیچے آئی تو مسعود ذوالفقار نے مجھے کہا، سر آپ بھی ساتھ آئیں، میں تصاویر اکیلا بنالوں لیکن رضی صاحب کی ڈانٹ سے آپ ہی بچا سکتے ہیں کہ تصاویر آپ کی دی گئی ہدایت پر بنائی گئی ہیں۔ مجبوراََ مجھے اس کے ساتھ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا پڑا۔ ویل کے ہنڈولے میں خوف کی یہ کیفیت تو نا تھی لیکن اس سے اتر کر میں نے بچوں سے کہا کہ ایسے کسی اور کھیل میں مجھے حصہ نہیں لینا، بس تم ہی بیٹھنا۔ اپنی فطری کمزوری سے انسان زندگی میں دو بار سے زیادہ کیا کھیلے؟

امریکہ کا کوئی بھی علاقہ ہو، اس کے ہر شہر میں کسی نا کسی سڑک پر موسیقی کا مظاہرہ کرتے گروپس یا تنہا ڈرم، گٹار، وائلن، ٹرمپٹ بجاتا کوئی نا کوئی فرد نظر آہی جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ گروپ جسے، بچے بینڈ کہتے ہیں کی چیختی چنگھاڑتی انگلش موسیقی مجھے کبھی پسند نہیں رہی۔ بچے پاکستان میں بھی اپنی دیسی موسیقی کے ساتھ اسے بھی سنتے ہیں لیکن میرے من کو یہ کبھی نہیں بھائی۔ ویسے بھی انگریزی کے حوالے سے میرا ہاتھ ہمیشہ ہولا رہا ہے، موسیقی کی چونکہ کوئی زبان نہیں ہوتی، ناں اردو اور ناں انگریزی اس لئے دھیمے سر بکھیرتی موسیقی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ موسیقی اگر کھلی فضا میں ہو تو سننے کا یہ تجربہ روح کی بالیدگی کا باعث ہوتی ہے، جس طرح صحرا میں دور سے ابھرتی ڈوبتی کسی چرواہے کی صدا۔

اوشن سٹی کے اس بورڈ واک پر سیر کرتے کرتے وائلن کی دھیمی سی، مدھر سی، ابھرتی ہوئی آواز مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ ساحلِ سمندر کے کنارے کھلی فضاء میں وائلن کی اس آواز میں سمندر کی لہروں کا شور بھی شامل تھا۔ بورڈ پر واک کرتے آپس میں باتیں کرتے افراد کی باتوں کا شور بھی تھا، اس معاشرہ میں اظہارِ محبت کے طور پر سرِعام بوسہ لینے کی دھیمی سی آواز بھی اس کھلی فضا میں سنی جانے والی وائلن کی آواز میں ہم آھنگ ہو کر زندگی سے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔

ہم دھیرے دھیرے قدموں سے چل رہے تھے اور آہتہ آہستہ وائلن کی آواز بلند ہوکر دوسری آوازوں کو دبا رہی تھی پھر یوں ہوا کہ ایک موڑ پر وائلن نواز سامنے آگیا۔ یہ وائلن بجاتی ایک لڑکی تھی، اپنی دھن میں مگن وائلن کے تاروں سے دل کو موہ لینے والی موسیقی تخلیق کررہی تھی، آنکھیں بند کئے، سر کو جھکائے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں اتنی مگن تھی کہ شاید اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ ایک خلقت نصف دائرے کی شکل میں اس کے فن سے نہ صرف محظوظ ہورہی تھی بلکہ اس پر سِکوں اور ڈالروں کی بارش کر رہی تھی۔

امریکہ میں یہ کھیل تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ آگے ایک اور لڑکی اپنے لچکیلے، تھرکتے بدن کے گرد روشنی سے جگمگ کرتا رنگ گھمانے کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ وائلن بجاتی تنہا لڑکی تو اردگرد سے بے پرواہ تھی اور لوگ اس کے فن پر بھی سِکوں اور ڈالروں کی بارش کررہے تھے لیکن رِنگ گھماتی لڑکی کے سامنے پڑے ہیٹ میں ابھی چند ہی سکے نظر آرہے تھے شاید اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ لچکنا، تھرکنا ان کے معمولات اور ماحول کا حصہ ہے اور وہ اپنے روز مرہ کے محاورے میں اس کھیل تماشے کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ یہ چند سِکے بھی اس کے بدن کے گرد گھومتے روشنی کے جگمگاتے رِنگ کی بدولت تھے۔ اس لڑکی کے منہ پر مسکراہٹ سجی تھی لیکن اُس کے چہرے پر آتے جاتے رنگ بتا رہے تھے کہ وہ خاصی مایوس ہے۔ ہم تھوڑی دیر وہاں رُکے، اُس کی نظر چند لمحوں کے لئے ہم پر رُکی اور پھر وہ دوسری جانب دیکھتے ہوئے تھرکنے لگی۔ عدیل نے ایک سِکہ عنایہ کو دیا کہ جاؤ اس ہیٹ میں ڈال آؤ، عنایہ کچھ جھجکی، پھر آگے بڑھی اور ہیٹ میں سِکہ ڈال دیا۔

رات کی تاریکی گہری ہوتی جارہی تھی لیکن روشنی سے منور بورڈ واک پر بھیڑ بڑھنے لگی تھی، سمندر کی سفید ریت پر دوپہر کو جسموں پر سن بلاک لوشن کا بھرپور اسپرے کئے اوندھے پڑے سن باتھ لیتے گورے بھی اپنے ہوٹلوں میں شاور لے کر اب بورڈ واک پر آ گئے تھے۔ یہاں کھانے کی بہت سی دکانیں تھیں لیکن یہاں ہمارے لئے کھانے کو کچھ نہیں تھا کیونکہ یہاں کچھ بھی حلال نہ تھا۔ ہاں آلو کے فرائز تھے یا پاپ کورنز۔ ہم نے پہلے فرائز لئے جو عنایہ بھی کھا سکتی تھی پھر پاپ کارنز لئے اور چلتے چلتے کھانے لگے۔

کیچ اینڈ وِن (Catch and Win) والی بہت سی دکانیں تھیں، وہاں کیچرز میں بیش قیمت چیزوں کو دیکھ کر میں کئی بار ان کے نزدیک گیا لیکن پھر واپس بچوں کے پاس آگیا۔ وہاں کھڑے ہوکر مجھے لاہور میں گلبرگ کا سٹی 2000 یاد آگیا جہاں عدیل کی ضد پر اکثر جانا ہوتا تھا۔ عدیل جی بھر کر رائیڈز کے مزے لیتا اور میں وہاں نصب کیچرز سے کھیلتا تھا اور ہر بار کوئی نا کوئی کھلونا نکال کر عدیل کی خوشی دوبالا کر دیتا تھا۔ اب جب میں چوتھی بار اس دکان پر جاکر کھڑا ہوا تو عدیل بھی میرے پاس آگیا اور کہنے لگا، بچپن میں تو آپ بڑے ایکسپرٹ تھے کھلونے نکالنے میں، یہاں بھی کوشش کرکے دیکھ لیں عنایہ خوش ہوجائے گی۔ میں نے پچیس (25) سال بعد کوشش کی لیکن کھلونا کیچر سے اس وقت گرگیا جب اس کے ڈراپ بکس میں گرنے کی منزل دوگام رہ گئی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔