دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

رضاالحق صدیقی  جمعرات 13 اکتوبر 2016
ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھائی تو سامنے ہی ڈاؤن ٹاون لکھا نظر آ رہا تھا۔

ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھائی تو سامنے ہی ڈاؤن ٹاون لکھا نظر آ رہا تھا۔

ڈان ٹاون

وہ ہفتے کی کِھلی کِھلی سی شام تھی جب ایئرپورٹ سے عدیل کے ٹوئن ٹاور میں واقع فلیٹ میں پہنچے۔ ٹائم ساڑھے 5 بج چکے تھے۔ گھر پہنچتے ہی رابعہ نے کہا بھی کہ ابو آپ تھک گئے ہوں گے تھوڑا آرام کرلیں لیکن وہاں وہ تھی جو ہمہ وقت چہچہاتی رہتی ہے۔ وہ کوئی اور نہیں، چھوٹی سی ننھی سی، عدیل اور رابعہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ابو (دادا) اور دادی کے دل کا چین عنایہ۔

عدیل کے فلیٹ پر اس ننھی گڑیا کی فقط موجودگی وہاں زندگی کی روح پھونک دیتی ہے۔ دادا ابو اور دادی کے آنے پر تنہائی کا شکار اس ننھی چڑیا کی چہچہاہٹ قابلِ دید تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کرے، آج عدیل کا فلیٹ نئی بہار پیش کر رہا تھا۔ اس کی محبت نے ہماری طویل مسافت کی تھکن چند لمحوں میں بھلادی تھی۔ اگرچہ آنکھوں میں بھری نیند کچھ اور کہہ رہی تھی مگر دل کچھ اور، سو ہم نے بھی دل کا ساتھ دیا اور رات تک جاگنے کا فیصلہ کیا۔

عدیل کا فلیٹ سنگل بیڈ روم اپارٹمنٹ ہے جس میں ایک جوڑے کی رہائش کی ہر چیز موجود تھی، رابعہ نے بڑے پیار سے اسے سنوارا ہوا ہے۔ لاؤنج کے ساتھ ہی بیڈ روم تھا جس کا باتھ روم ساتھ ہی لیکن کمرے سے باہر تھا۔ بیڈ روم میں ایک خاصی بڑی وارڈروب تھی۔ لاؤنج کے ساتھ دیوار کے اندر کی طرف اسٹیپ ان وارڈ روب تھی اسے اسٹور بھی کہا جاسکتا ہے۔ کمرے میں ایک اور الماری تھی جسے بچوں نے ہمارے آنے سے پہلے ہی خالی کردیا تھا۔ لاؤنج میں ایک صوفہ کم بیڈ موجود تھا۔ ہم نے بچوں پر زور دیا کہ ہم اس پر سوئیں گے وہ اپنے بیڈ روم میں ہی سوئیں لیکن وہ نا مانے اور ہمارا سامان کمرے میں پہلے سے خالی کردہ الماری میں رکھ دیا۔

ساتویں منزل پر واقع فلیٹ کی دیوار گیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔ میں نے نظر اٹھائی تو سامنے ہی ڈاؤن ٹاون لکھا نظر آ رہا تھا۔ امریکہ میں ہر شخص اس اصطلاح کو استعمال کرتا ہے جس سے میرے جیسا نیا جانے والا کنفیوز ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہی نہیں برطانیہ میں بھی یہ اصطلاح عام ہے۔ اس کا ذکر سب سے پہلے میں نے سعید ماموں سے سنا، سعید ماموں ہماری بیگم کے ماموں ہیں جو جوانی میں برطانیہ چلے گئے تھے۔ کسٹم پولیس میں ملازمت سے پہلے لندن میں رہتے تھے، ریٹائر ہوئے تو لندن کے ڈاؤن ٹاؤن میں رہنے لگے۔ اس سے میرا اندازہ تھا کہ شہر سے ملحقہ علاقے کو ڈاؤن ٹاون کہتے ہیں لیکن امریکہ میں یہ اصطلاح صرف سمت کا تعین کرنے کے لئے ہی مستعمل نہیں بلکہ شہر کے مرکز کو بھی ڈاؤن ٹاؤن کہا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ای بروک لی اور اس کے بھائی بلیئر لی اول نے لی ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی جس کی بناء پر سلور اسپرنگ ڈاؤن ٹاؤن کی ترقی کا آغاز ہوا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں سلور اسپرنگ میں ترقی کے ثمرات نمایاں ہونے شروع ہوئے اور یہاں سٹی پیلس کے نزدیک نئے بلاک تکمیل پذیر ہوئے۔ ایک نیا آوٹ ڈور شاپنگ پلازہ جسے ڈاؤن ٹاؤن سلور اسپرنگ کا نام دیا گیا کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ سن 2002ء میں سلور اسپرنگ ڈاؤن ٹاؤن کی 160 سالہ تاریخی سالگرہ منائی گئی۔ سلور اسپرنگ کی تاریخ پربلئیر لی، جالودہ اور بری خاندانوں کے بڑے اثرات ہیں۔ سیاسی تاریخ میں فرینکس پرسٹون بلیئر کی بڑی اہمیت ہے جس نے انیسویں صدی میں جدید امریکن ری پبلیکن پارٹی کی تنظیم میں بڑی مدد کی اور اس کے نواسے فرینکس پرسٹون بلیئر لی کو امریکہ کی تاریخ کا پہلا مقبول ترین منتخب سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دس بارہ سال پہلے یعنی سن 2003ء تک سلور اسپرنگ ایک بہت چھوٹا سا شہر تھا پھر اسی سال جب ڈسکوری چینل نے اپنے ہیڈ کوارٹرز کی تعمیر مکمل کی اور بیتھسڈا (Bethesda) سے اسے یہاں منتقل کیا، تو اُس کے چار ہزار ملازمین کو بسانے کے لئے رہائش گاہوں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی یوں یہ شہر پھیلتا چلا گیا۔

عدیل کے فلیٹ کی دیوار گیر کھڑکی سے باہر کا منظر بہت حسین لگ رہا تھا۔ سامنے ہی ڈاؤن ٹاؤن آؤٹ ڈور شاپنگ پلازہ نظر آ رہا تھا۔ عدیل میرے ساتھ کھڑا ہاتھ کے اشارے سے بتا رہا تھا کہ پاپا وہ سامنے سڑک کے اس پار جو سفید سی بلڈنگ نظر آ رہی ہے وہ دنیا کے مشہور و معروف چینل ڈسکوری کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس کے دائیں جانب والی بلڈنگ میں میرا دفتر ہے، میرے اس فلیٹ سے چند منٹ کی دوری پر۔ ابھی میں اس خوبصورت منظرنامے میں گم تھا کہ کچن سے رابعہ گرم گرم چائے کی ٹرے اٹھائے لاؤنج میں آگئی۔ ماں کو چائے لاتے دیکھ کر میری ننھی سی گڑیا زورسے بولی،

’’ابو ٹی ٹائم‘‘۔

میں نے بیرونی کھڑکی سے توجہ ہٹائی، تھوڑا سا جھک کر ننھی گڑیا عنایہ کو گود میں اٹھا کر ڈائننگ ٹیبل کی طرف ہولیا۔ رات کا کھانا آٹھ بجے کھا لیا گیا۔ رابعہ اور عدیل بہت ساری باتیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن میری لاڈلی چاہ رہی تھی کہ ہم بس اس سے باتیں کئے جائیں۔ 10 بجنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ 10 بجتے ہی رابعہ، عنایہ کو سلانے لے گئی۔ عدیل بتانے لگا کہ ہم نے بڑی مشکل سے اسے ٹھیک 10 بجے سونے کا عادی بنایا ہے۔ تھوڑی دیر بعد رابعہ پھر لاؤنج میں آگئی۔ جس کمرے میں ہمیں لیٹنا تھا وہیں عنایہ کا بیڈ بھی لگا ہوا تھا، کمرے سے عنایہ کے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے اسے جواب دینا چاہا لیکن عدیل نے کہا ابھی تھوڑی دیر میں سوجائے گی اور وہی ہوا عنایہ کی آواز آنا بند ہوگئی۔

ہم دیر تک باتیں کرتے رہے، پھر رابعہ نے کہا! آپ بہت تھک گئے ہوں گے، جیٹ لاگ بھی ہوتا ہے۔ کوشش کریں سونے کی۔

ارے نہیں بیٹا تم لوگوں سے مل کر بالکل تازہ دم ہیں ہم دونوں، میں نے جواب دیا۔

اور ہاں کمرے میں عنایہ کا بیڈ آپ کے ساتھ ہے، اب آپ ہی سنبھالئے اپنی لاڈلی کو، رابعہ نے کمرے سے جاتے ہوئے کہا۔

تم بے فکر ہوکر جاؤ، میں نے بستر میں گھستے ہوئے کہا۔

پتہ ہی نہیں لگا کب میری آنکھ لگی اور پھر اس طرح سویا کہ ناں تو عنایہ کے صبح سویرے رونے اور اٹھ  کر اپنی ماں کے پاس جانے کا پتہ چلا اور ناں ہی کھڑکی سے آتی تیز روشنی نے مجھے ڈسٹرب کیا۔ میری جب آنکھ کھلی تو دن کے ساڑھے 11 بج رہے تھے اور عدیل و رابعہ ناشتے کی میز پر میرے منتظر تھے کیونکہ آج اتوار تھا اور عدیل کی چھٹی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔