دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

رضاالحق صدیقی  پير 24 اکتوبر 2016
امریکا میں عید کی نماز پر پکنک کا سماء تھا جہاں مرد، خواتین، بچے سبھی موجود تھے۔ زیادہ تر لوگ مغربی لباس میں تھے لیکن کچھ فیملیز پاکستان کے قومی لباس میں بھی تھیں جن میں ہم بھی شامل تھے۔

امریکا میں عید کی نماز پر پکنک کا سماء تھا جہاں مرد، خواتین، بچے سبھی موجود تھے۔ زیادہ تر لوگ مغربی لباس میں تھے لیکن کچھ فیملیز پاکستان کے قومی لباس میں بھی تھیں جن میں ہم بھی شامل تھے۔

اجنبی شہر میں عید

 

پاکستان سے ہم 22 روزے گزار کر چلے تھے۔ باقی روزے یہاں بچوں کے ساتھ رکھے لیکن یہ روزے بڑے پھیکے پھیکے تھے، ناں اذان کی آواز، ناں نزدیک کوئی مسجد، بس فون پر سیٹ کی ہوئی واشنگٹن کے وقتِ سحر و افطار پر ابھرنے والی اذان سحری اور افطاری کے اوقات کا پتہ دیتی تھی۔ سچ مانیں اپنا پاکستان بہت یاد آیا، یوں ایک ہفتہ اسی حالت میں گزرا اور پھر عید کا دن آپہنچا۔

پاکستان میں تو عید بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے لیکن یہاں وہ نظارے کہاں۔ چاند رات کو دو آپشن تھے ایک تو یہ کہ چاند رات میلے میں چلے جاتے، جہاں کھانے پینے کے اسٹال لگے ہوتے اور پاکستان یا ہندوستان کا کوئی تھکا ہوا گلوکار آپ کو بوریت کی انتہا کو پہنچا دیتا۔ دوسرا آپشن عدیل نے ہمارے سامنے رکھا کہ چلیں واشگٹن ڈی سی چلتے ہیں جہاں امریکہ کے کچھ مقامات دیکھ لیں گے، ہمیں چاند رات میلے میں تو کوئی دلچسپی نہیں تھی سو فیصلہ یہ طے پایا کہ واشنگٹن کی سیر کی جائے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

واشنگٹن ڈی سی میں عدیل نے مونومنٹ کے نزدیک پارکنگ ایریا تلاش کرکے گاڑی پارک کی۔ امریکہ کا کوئی بھی شہر ہو پارکنگ تلاش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ سڑک سے مونومنٹ تک خاصی چڑھائی ہے۔ وہاں پہنچ کر عدیل نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ امریکہ کے پہلے صدر کی ’سمادی‘ ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ یہاں دفن ہے؟ اس نے بتایا کہ نہیں دفن تو وہ کسی قبرستان میں ہی ہوگا یہاں صرف اس کا دیوقامت مجسمہ رکھا ہوا ہے، یہ اس کی یادگار ہے۔ موونومنٹ سے چاروں جانب ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر یادگاریں ہیں۔ ابراہم لنکن میموریل کے بالمقابل یو ایس کیپٹل ہے جسے عموماََ وائٹ ہاؤس سمجھا جاتا ہے لیکن یہ امریکی حکومت کے قانون ساز ادارے کانگریس کی اسمبلی ہے۔ یہ عمارت 215 سال پرانی ہے۔ اس عمارت کی تعمیر 1793 میں شروع ہوئی اورسن 1800 میں اسے استعمال کے لئے کھول دیا گیا۔

اسے روسل سینٹ آفس بلڈنگ بھی کہا جاتا ہے۔ سن 1800ء میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو اس وقت اس عمارت کے اوپر نظر آنے والا گنبد تعمیر نہیں ہوا تھا، بعد میں اس کے توسیعی منصوبے کے تحت اس میں ایک بڑے گنبد کا اضافہ کیا گیا، اس عمارت کو نیو کلاسیکل اسٹائل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس عمارت کے اگرچہ دو فرنٹ ہیں لیکن اس کا مشرقی فرنٹ ہی وفود کے استقبال کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ عمارت گزشتہ 2 سو سال میں کئی بار تباہ ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مرمت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی کچھ کام ہورہا تھا جس کے لئے اس کے گنبد کے ارد گرد اسٹیل کے مچان اور سہارے لگائے گئے ہیں۔ سن 2014ء سے شروع ہونے والا یہ کام سن 2017ء کے اوائل میں مکمل ہوسکے گا۔

عدیل کو یہاں آئے چار سے پانچ سال ہوگئے ہیں اس لئے اسے اب یہاں کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ جب وہ یہ سب کچھ مجھے بتاچکا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اگر یہ وائٹ ہاؤس نہیں ہے تو وائٹ ہاؤس کہاں ہے؟ مونومنٹ پر کھڑے کھڑے اس نے کہا کہ دو اطراف کا تو میں نے آپ کو بتا دیا اب وہ تیسری جانب دیکھیے وہ رہا وائٹ ہاؤس۔ درختوں کی اوٹ سے ایک سادہ سی عمارت اپنی ہلکی سی جھلک دکھا رہی تھی اور چوتھی طرف امریکہ کے تیسرے صدر جیفرسن کی سمادی نظر آرہی تھی۔ مجھے وائٹ ہاؤس دیکھنے کا شوق تھا لیکن رات کافی ہوگئی تھی اور اگلے روز عید تھی اس لئے ہم نے واپسی کی راہ لی۔

گھر پہنچ کر ہمارا چائے کا مطالبہ زور پکڑگیا اس لئے خواتین آتے ہی کچن میں چلی گئیں، اور عدیل بتانے لگا کہ یہاں عید کی نماز کے 3 ٹائم ہیں۔ ایک صبح سات بجے، دوسرا ساڑھے دس بجے اور تیسرا ساڑھے گیارہ بجے۔ اب ایسا ہے پاپا کہ آفس سے آنے کے بعد ابھی ہم واشنگٹن کا چکر لگا کر آئے ہیں، اور میں بہت تھک گیا ہوں سات بجے والی نماز کے لئے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا جو میرے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے ساڑھے دس بجے والی جماعت میں نماز ادا کرلیں گے۔ ٹھیک ہے، کہاں ہوتی ہے نماز؟ مسجد کدھر ہے یہاں؟ مسجد تو نہیں ہے، مسلم کیمونٹی کوئی ہال کرایہ پر لے لیتی ہے اور وہاں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہاں سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ورجینیا میں مسلم کیمونٹی والوں نے عید کی نماز کا انتظام کیا ہے، اور بھی ایک دو جگہ ہے لیکن ہم وہیں پڑھیں گے۔

میری لینڈ، واشنگٹن اور ورجینیا، راولپنڈی اسلام آباد کی مانند جڑواں ریاستیں ہیں۔ عدیل میری لینڈ کے شہر سلور اسپرنگ میں واشنگٹن کے سرحدی علاقے میں رہتا ہے۔ وہاں سے پہلے واشگٹن میں داخل ہوتے ہیں اسے کراس کرتے ہوئے ورجینیا پہنچ جاتے ہیں اور انٹراسٹیٹ ہائی وے نمبر 495 ان اسٹیٹس کو ملانے والی شاہراہ ہے۔ عید کے روز ہم تقریباََ ساڑے نو بجے گھر سے نکلے اور اس ہال میں پہنچ گئے جہاں نماز کا اہتمام تھا۔ وہاں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جس سے لگ رہا تھا کہ واقعی عید ہے، ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ لوگ پکنک منانے کے انداز میں وہاں آئے ہوئے تھے۔ مرد، خواتین، بچے سبھی وہاں تھے۔ زیادہ تر لوگ مغربی لباس میں ہی تھے لیکن بہت سی فیملیز پاکستان کے قومی لباس میں بھی تھیں جن میں ہم بھی شامل تھے۔ آٹھ دس دن کے بعد شلوار قمیض میں امریکہ میں پھرنا اچھا لگ رہا تھا۔

ہال کے اگلے حصے میں مردوں کا انتظام تھا، درمیان میں ایسے افراد کے لئے جو بیٹھ کر نماز ادا نہیں کرسکتے، کرسیوں کا انتظام تھا۔ پیچھے خواتین نماز کے لئے موجود تھیں۔ سب کچھ اپنی جگہ تھا لیکن عید کی نماز پڑھنے کا مزا اپنے پاکستان میں ہی آتا ہے یا ہمیں پاکستان میں ادا کی جانے والی نماز کا انداز پسند ہے۔ یہاں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے خطبے کے بجائے مسلم کیمونٹی کے لئے کام کرنے والے خواتین و حضرات کے تعارف کا ایک سلسلہ ہوا، جو صفوں کے سامنے قطار میں کھڑے تھے، پھر مختلف اعلانات کئے گئے اور باجماعت نماز ادا کر دی گئی۔

پاکستان سے امریکہ آبسنے والی اداکارہ ’ریما‘ بھی خواتین والے حصے میں موجود تھیں۔ جب ہم نماز کے بعد وہیں ایک حلال ریستوران میں لنچ کرنے جا رہے تھے تو ہماری بہو نے ہمیں بتایا کہ بڑی سادہ سی لیکن اچھی لگ رہی تھیں ریما۔ کھانے کے بعد سیلفیوں کا ایک دور چلا، یہ سیلفی کلچر نجانے ہم میں کہاں سے آن ٹپکا ہے لیکن جو بھی اچھا ہے، یادگار ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔