- لاہور میں فری وائی فائی سروس کے مقامات کو دگنا کردیا گیا
- حافظ نعیم سے محمود اچکزئی، اسد قیصر کی ملاقات، احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت
- شادی میں فائرنگ سے مہمان جاں بحق، دلہا سمیت 4 افراد گرفتار
- پی ایس ایل2025؛ پی سی بی نے آئی پی ایل سے متصادم تاریخیں تجویز کردیں
- پی ایس ایل2025 کب ہوگا؟ اگلے ایڈیشن کیلئے نئی ونڈو کی تاریخیں سامنے آگئیں
- سونے کی عالمی سطح پر قیمت میں اضافہ، مقامی مارکیٹ میں سستا ہوگیا
- قطر امریکی دباؤ پر حماس قیادت کو ملک سے بے دخل کرنے پر تیار ہوگیا، اسرائیلی میڈیا
- کراچی؛ پیپلزبس سروس میں اسمارٹ کارڈ سے ادائیگی کا نظام متعارف
- محسن نقوی کی اسٹیڈیمز کی اَپ گریڈیشن کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت
- پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، فلیٹ اور دفاتر کی تعمیر کا انکشاف
- ضبط کی جانیوالی اسمگل گاڑیوں کی کم قیمت پر نیلامی کا انکشاف
- 9 ماہ میں 6.899 ارب ڈالرکی غیرملکی معاونت موصول
- پاکستان کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں، عالمی بینک
- کینیڈا میں خالصتان رہنما ہردیپ کے قتل میں ملوث 3 بھارتی گرفتار
- سمیں بلاک کرنے میں رکاوٹ بننے والوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- پی آئی اے کی خریداری میں مقامی سرمایہ کاروں کی بھی دلچسپی
- شعبۂ صحت میں پاکستان کا اعزاز، ڈاکٹر شہزاد 100 عالمی رہنماؤں میں شامل
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ کوچنگ اسٹاف کا اعلان ہوگیا
- ایف بی آر کا وصولیوں کیلیے جامع حکمت عملی وضع کرنیکا فیصلہ
- نیویارک میں ہوٹلز کے کرایے آسمان سے باتیں کرنے لگے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
سوچوں کے سمندر میں غرق ارباز ساکت کھڑا تھا، بچپن سے لے کر آج تک اُسے اذیت پہنچانے والے سارے لمحات اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہے تھے، اُس پر کسے جانے والے سارے فقرے اُس کے دماغ پر ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔
’’اوئے دہشت گرد! چل اُٹھ میرے ڈیسک سے۔‘‘
’’ابے چل جا کر اور کہیں بیٹھ، بالکل میرے سر پر آ کر بیٹھ گیا ہے، تیرا کیا پتا تو کب دھماکا کردے۔‘‘
’’یار ارباز! میرے ابّو کے ایک چچا پچھلے دنوں فوت ہو گئے تھے، ابو بتاتے ہیں کہ کافی نیک انسان تھے، بہت دن ہو گئے ہیں اُنہیں فوت ہوئے اب تک تو ساری کاغذی کاروائی مکمل کرکے جنت میں پہنچ ہی گئے ہوں گے۔ ذرا اپنے ابّو سے کنفرم کرکے تو بتانا، میرے ابّو کافی پریشان ہیں اُن کےلیے۔‘‘
’’تمھارے ابّو کو تو جنّت کا ٹکٹ یہیں پر مل گیا تھا ناں، وہ بھی بزنس کلاس کا؟ ان سے تو پھر فرشتوں نے زیادہ سوال جواب بھی نہیں کیے ہوں گے، سیدھا ہی جنت میں بھیج دیا ہوگا؟‘‘
’’میں تو بڑا ہوکر اپنے ابّو کی طرح پائلٹ بنوں گا، تم بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ خودکش بمبار، اپنے ابّو کی طرح؟‘‘
’’معاف کرنا یار! مگر تم میرے گھر نہ آیا کرو، میرے گھر والوں کو تمھارا یہاں آنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’جیسا گندہ خون باپ کا تھا، ویسا ہی اس کا ہوگا۔ یہ بھی تو آ جا کر وہی کرے گا جو اس کے باپ نے کیا تھا، ساتھ میں ہمارے بچوں کو بھی بگاڑے گا۔‘‘
ارباز کی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کی میت گھوم رہی تھی جس کا جنازہ پڑھنے سے گاؤں والوں نے اور جنازہ پڑھانے سے مولوی صاحب نے صاف انکار کردیا تھا۔ اُس بیچاری کا تو کوئی قصور بھی نہیں تھا، اُس نے تو اُن لوگوں پر بھی تھوک دیا تھا جو شوہر کے مرنے کے بعد اُسے کچھ پیسے وظیفے کے طور پر دینے آئے تھے۔
’’صوبیدار صاحب! آپ کے اپنے دو معصوم بچے بھی تو اس کے باپ جیسے لوگوں کے ہاتھوں ہی شہید ہوئے تھے ناں؟ پھرآپ اس سانپ کو اپنے گھر کیوں لے کر آگئے ہیں؟ مرنے دیتے سڑکوں پر ہی، کسی دن ڈس لے گا یہ آپ کوبھی۔‘‘ کیسے لوگ یہ سب اُس کے سامنے ہی کہہ دیا کرتے تھے۔
’’ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آپ ہمارے بچوں کے ساتھ ایک دہشت گرد کے بچے کو پڑھانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں؟ یا تو آپ اسے اس اسکول سے نکال دیں یا پھر ہم اپنے بچوں کا ایڈمیشن کسی اور اسکول میں کروا دیں گے۔‘‘
’’تمھیں انہیں ایسا بن کر دکھانا ہے کہ یہ سب لوگ تمھارے خلاف باتیں کرنے کے بجائے صرف تمھاری باتیں کریں۔‘‘ اُس کی آنکھوں کے سامنے صوبیدار صاحب کا چہرہ تھا جو سارے زمانے کی مخالفت مول لے کر اس بے آسرا کا آسرا بنے تھے۔
پھر ایک زوردار آواز گونجی: ’’اعزازی شمشیر کےلیے کمپنی سینئر انڈر آفیسر محمد ارباز!‘‘
تلخ یادوں کا تسلسل ٹوٹا، وہ آگے بڑھا، سلیوٹ کیا، اور تالیوں کی گونج میں آرمی چیف سے اعزازی شمشیر (Sword of Honor) وصول کی۔
مہمانوں میں بیٹھے صوبیدار صاحب کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اُنہیں ارباز میں اپنے شہید بیٹوں کا عکس نظر آرہا تھا۔ اُن کی شفقت، محنت اور یقین نے ایک دہشت گرد کے بیٹے کو دہشت گرد بننے کے بجائے دہشت گردوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں کی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ اُنہوں نے دشمن کے بچے کو پڑھا کر دشمن سے اپنے بچوں کی موت کا بدلہ لے لیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔