پی ایس ایل، اب پاکستان سے باہر نہیں!

اکرام سہگل  جمعرات 20 ستمبر 2018

7اپریل 2018ء کو’’کہیں ہم فراموش نہ کردیں!‘‘کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا: ’’کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کے فائنل اور بعد ازاں تین انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پُرجوش تماشائیوں کی زندہ دلی سے ثابت ہوگیا کہ کراچی (اور ملک )کا امن لوٹ آیا ہے، جو اس سے پہلے داخلی تنازعات کی نذر ہوچکا تھا۔ کراچی میں کھیلوں کے شائقین کو ایسے مواقع سے محروم کردیا گیا تھا، طویل عرصے تک ان کی زندگی پر سیاسی، مذہبی اور جرائم پیشہ دہشت گردوں کے خوف کا گہرا سایہ چھایا رہا، یہی وجہ ہے کہ اہل کراچی کے لیے یہ خوف سے آزادی اور پاکستان میں کھیلوں کی واپسی کے سبب دہری خوشی کا موقع تھا۔ میچ کے آغاز سے قبل قومی ترانہ چلایا گیا اور ساؤنڈ سسٹم خراب ہوگیا تو میدان کے حاضرین نے مل کر بہ آواز بلند ترانہ پڑھا۔ کیا اسٹیج سے حب وطن کا اظہار اس سے بہتر ہوسکتا تھا؟ ‘‘۔

2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد چار برس تک پاکستان ایک بھی میچ کی میزبانی نہیں کرسکا۔ پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کا آغاز 2016میں ہوا اور اسے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت ملی، پی ایس ایل کی کامیابی 2017ء میں اس وقت ہوئی جب اس کا فائنل لاہور میں منعقد ہوا۔ اس کے بعد ورلڈ الیون کی ایک ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان  کا دورہ کیا جس نے بین الاقوامی کرکٹ کے امکانات مزید روشن کر دیے۔ اسی برس اکتوبر میں سری لنکا نے خیر سگالی کے اظہار کے لیے لاہور میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی۔

پی ایس ایل 2019ء کے مقابلوں سے متعلق خوش خبری یہ ہے کہ پی سی بی اس کی افتتاحی تقریب پاکستان میں منعقد کرنے کے لیے کوشاں ہے، بری خبر یہ ہے کہ 17مارچ کو کراچی میں ہونے والے فائنل سمیت پاکستان میں صرف آٹھ میچ ہوں گے۔ اگر پاکستان میں آٹھ میچوں کے انعقاد کے لیے سیکیورٹی فراہم کی جاسکتی ہے تو بقیہ 30میچ متحدہ عرب امارات میں کروانے کا کیا جواز ہے؟مارچ 2018میں رمیز راجہ نے دبئی اور شارجہ میں میدان بھرنے کے لیے ، پی ایس ایل میں بہتر کھلاڑیوں کو شامل کرنے سے متعلق چند نامناسب تجاویز دی تھیں۔

مارچ  2018  میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ’’کیا زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران میں مبتلا پاکستان( جب کہ  ڈالر ان دنوں میں 110سے 115اور 125تک پہنچ چکا ہے) اس بات کا متحمل ہوسکتا ہے کہ اس کے کرکٹ کے لیے تڑپتے شائقین پورے ایک ماہ تک غیر ملکی زرمبادلہ سے مالا مال دبئی کے ہوٹلوں ، ٹیکسیوں اور کھانے پر اڑا دیں۔ امارات کے میدان جمعرات اور جمعے کے میچوں  میں بھی دس فی صد سے کم ہی بھر سکے۔دس پندرہ ہزار پاکستانی اگر دبئی چلے بھی جائیں تو کیا ان میدانوں کی گنجائش کا نصف بھی بھر پائیں گے؟ کیا 34میں سے 32میچوں کے لیے پی ایس ایل کی مالی مدد کے بغیر دبئی اور شارجہ کے میدان مالیاتی بوجھ سنبھال سکیں گے۔‘‘

انڈین پریمیئر لیگ میںپاکستانی کھلاڑیوںکو شامل نہیں کیا گیا لیکن رمیز راجہ ان چند پاکستانی کمنٹیٹرز میں سے ہیں جنھیں آئی پی ایل کا حصہ بنایا جاتا ہے۔پی ایس ایل 2017کے فائنل میں سیکیورٹی اداروں اور ہمارے ان فوجیوں اور پولیس کے جوانوں کی قربانیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جن کی برسوں کی محنت کے نتیجے میں کراچی (اور پاکستان) محفوظ بنا۔ ہمیں ان ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، جن کی بدولت پی ایس ایل کا پاکستان میں انعقاد ممکن ہوا، اسی عمل کے نتیجے میں رینجرز کی کارروائیوں کے نتیجہ میں کم از کم شہری سندھ میں 2013کے انتخابات کا پُرامن انعقاد ممکن ہوا۔صدر مملکت عارف علوی کو ان کارروائیوں کا براہ راست فائدہ اس طرح ہوا کہ اگر کراچی میں قانون کا نفاذ نہ کیا جاتا تو وہ کبھی کراچی سے اس وقت اپنی جماعت کے واحد رکن قومی اسمبلی منتخب نہیں ہوپاتے۔

اکتوبر 2011 کے بعد چھ ماہ تک  اعجاز چوہدری ڈی جی رینجرز رہے اور مارچ 2012  میں ترقی کرکے لیفٹیننٹ جنرل ہوکر 5کور کے کمانڈر بننے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کا حصہ رہے۔قیام امن کے لیے اعجاز چوہدری کی شروع کی گئی کارروائیوں کو ان کے جانشین لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور شاہد بیگ مرزا نے جاری رکھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کو اس سے براہ راست فائدہ پہنچا۔ 2014میں کراچی دنیا کے تین سو شہروں میںچھٹا خطرناک ترین شہر تھا، 2016تک پچا سویں نمبر پر آگیا۔ یہ ہمارے پولیس اور رینجرز کے جوانوں کی قربانیوں ہی کا ثمر تھا۔

پی سی بی کے موجودہ چیئرمین احسان مانی اپنے شعبے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، کرکٹ سے متعلق متعدد اہم اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور وسیع تجربے رکھتے  ہیں۔ وہ 1989سے آئی سی سی میں پی سی بی کی نمایندگی کرتے آرہے ہیں، 1996اور 1999کرکٹ ورلڈ کپ اور ایشیئن کرکٹ کونسل کے لیے ’’مشاورتی کمیٹی‘‘ میں بھی پاکستان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔جون 2003میں وہ آئی سی سی کے صدر بنے اور اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا، 2006ء میں جب سبک دوش ہوئے تو ادارہ میں کئی بہتریاں لاچکے تھے۔ احسان مانی کے پاس کرکٹ سے متعلق عمومی امور اور مقامی کرکٹ کی بہتری اور کرکٹ بورڈ سے اقربا پروری کے خاتمے سے متعلق کئی ’’قلیل و طویل المیعاد‘‘ حکمت عملیاں ہیں۔

چیئرمین پی سی بی نے عندیہ دیا ہے کہ 2020ء سے پی ایس ایل کے سارے مقابلے پاکستان کے اندر منعقد کیے جائیں گے، احسان مانی کو اس کا آغاز 2019ہی سے کرنا چاہیے۔ 2018میں تین ایسے میچ پاکستان میں منعقد ہوئے جن میں برطانیہ، جنوبی افریقا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے 18 عالمی کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ جنوبی افریقا، آسٹریلیا،ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے کمنٹیٹر بھی پاکستان آئے۔ ان میچوں میں اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھر گئے۔ پی ایس ایل 2018اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت کو پیمانہ تسلیم کیا جائے تو بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اخراجات کی مد میں جو سرمایہ متحدہ عرب امارات کی نذر کیا گیا، اس کی بچت کرکے اپنے میدانوں کو بہتر بنایا جائے تو مزید غیر ملکی کھلاڑیوں کی پاکستان آمد کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی۔

نہ صرف یہ کہ پی سی بی اگر مقابلوں کا انعقاد کوئٹہ، پشاور، فیصل آباد، ملتان،اسلام آباد اور حیدرآباد وغیرہ میں کرتی ہے تو یو اے ای کی بہ نسبت اخراجات دس گنا تک کم ہوں گے، بلکہ بالواسطہ طور پر اس سے ملکی معیشت کو بھی سہارا ملے گا۔ پی سی بی اگر منافع کمانا چاہے تو بھی یہی حکمت عملی بہتر ہوگی کیوں کہ یو اے ای کے اکثر میدان تو تقریباً خالی ہی رہتے ہیں۔

پی سی بی اماراتی اسٹیڈیمز کو کرائے کی مد میں جو بھاری رقوم ادا کرتا ہے انھیں پاکستان کے اسٹیڈیم بہتر بنانے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ ہر ایک اسٹیڈیم کی بہتری کے لیے بڑے بینکوں کو مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح پی سی بی کو دو یا تین گنا مالی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، جنھیں غیر ملکی کھلاڑیوں کو بہتر پیش کش کرنے کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ اور ان بالواسطہ فوائد کا حساب کتاب ہی ممکن نہیں، میچوں کی میزبانی کرنے والے شہروں میں جو چھوٹے موٹے سیکٹروں کاروباروں کو حاصل ہوگا۔ 2018 میں پی سی بی نے پی ایس ایل سے پچاس لاکھ ڈالر کا منافع کمایا، اس میں ٹیلی وژن حقوق سے حاصل ہونے والی رقم شامل نہیں۔ اگر پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد ہو تو اس منافع کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے پاکستان کے لیے فائدے کا سودا ہوگا۔

دہائیوں دہشت گردی کے خوف کا شکار رہنے والے ملک کے عوام کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں اور ٹیموں کا کھیل دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے تو قوم کے زخموں کے لیے یہ بھی ایک مرہم ہوگا۔ کھیل کی سرگرمیاں حب الوطنی اور قومی اتحاد کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ اس ’’خفیہ ہتھیار‘‘ کا مؤثر جواب ہے جو بھارت نے پاکستان کو کھیلوں کی دنیا میں تنہا کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اب گیند احسان مانی کے کورٹ میں ہے، برائے کرم اب مزید پی ایس ایل پاکستان سے باہر نہیں!

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔