اپنے آپ سے نفرت

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 27 جنوری 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہم سب لمحوں میں جیتے ہیں، اکثر ساری عمر یہ لمحے اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ہم پہ غالب ہی نہیں آپاتے لیکن کبھی کبھار یہ لمحے ہم سے اتنے طاقتور ہوجاتے ہیں کہ ہماری ساری زندگی کو یکسر بدل ڈالتے ہیں صرف ایک لمحہ ہم کو اتھل پتل کرکے رکھ دیتا ہے وہ لمحہ اتنے چپکے سے آتا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے وہ ایک لمحہ پہلے پہل ایک انسان کو تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ انسان دنیا کو تبدیل کر نے میں لگ جاتاہے، دنیا کی ساری تبدیلیاں اسی ایک لمحے کا کرشمہ ہیں ۔

ٹاس ایلوا ایڈیسن جسے دوست صرف ’’ ایل ‘‘ کہتے تھے۔ ایل کی والدہ نے اسے ابتدائی سبق پڑھائے جو اس نے جلد یاد کر لیے لیکن اسے گھر سے باہر کی چیزیں دیکھنے کا بڑا شوق تھا اور میلان میں اس نے ہر چیز دیکھی اور پوری چھان بین کی میلان کی خو شحالی کا اصل سبب یہ تھاکہ وہ تجارتی آبی راستوں کے مر کز میں واقع تھا لیکن ان آبی راستوں کے مقابلے میں ریل کی پٹریاں جا بجا بچھ رہی تھیں جب ڈیٹرائیٹ اور پورٹ ہیورون کے درمیان ریلوں کی آمدورفت شروع ہوگئی تو سیموئیل ایڈیسن نے میلان چھوڑ کر پورٹ ہیورون میں رہنے کافیصلہ کیا۔

بیوی سے کہا کہ ریل جلد ہی نہری کاروبار ختم کردے گی مگر بیوی اپنا خوب صورت مکان چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھی جب کہ سیموئیل کو حالات کا زیادہ صحیح اندازہ تھا۔ اس نے پورٹ ہیورون میں ایک مکان اور غلے کا کاروبار خرید لیا اور اہل وعیال کے ساتھ وہاں منتقل ہوگیا، نئے مقام پر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد ’’ایل ‘‘کو پورٹ ہیورون کے اسکول میں بھیج دیا گیا۔ اس کی عمر سات سال کی ہوچکی تھی ’’ ایل ‘‘ ایسا طالب علم ثابت نہ ہوا کہ استاد اس پر مطمئن ہوتا ،کتابوں پر اس کی توجہ بہت کم تھی ، برابر سوالات کر تا رہتا اور یہ ہی شیوہ اس نے گھر میں اختیارکر رکھا تھا ،جب استاد سبق پڑھاتا تو ’’ایل ‘‘ ہم جماعتوں سے باتیں کرتا رہتا یا گردوپیش کی ہر چیز بھول کر غوروفکر میں ڈوب جاتا ۔

ایک سہ پہر سات سالہ ’’ ایل‘‘ اسکول سے گھر آیا تو سیدھا والدہ کے پاس پہنچا اور پوچھا ’’ماں غیر طبعی کا مطلب کیا ہے‘‘ مسز ایڈیسن مسکرائی اورکہا ’’غیر طبعی اس انڈے کو کہتے ہیں جو بالکل خراب ہوجائے ۔‘‘ ’’ ایل‘‘ نے جواب میں کہا ’’ ماں یہ تو مجھے معلوم ہے لیکن غیر طبعی لڑکا کیا ہوتا ہے‘‘ ماں ! ’’اس کا مطلب ہے وہ لڑکا جو ایک حد تک خبطی ہو۔‘‘ پھر ماں نے پوچھا تم نے یہ لفظ کہاں سے سنا ’’ ایل‘‘ ایک دم سنجیدہ ہوگیا اور بولا ’’آج انسپکٹر اسکول کے معائنے کی غرض سے آیا تھا اور اس نے طلباء کے متعلق پوچھا ماں آپ جانتی ہیں کہ میری سماعت بہت اچھی ہے، استاد نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے انسپکٹر سے کہا میں غیر طبعی ہوں اور عام بچوں کی طرح نہیں ظاہر ہے اس حالت میں مجھے اسکول میں رکھنا محض وقت ضایع کرنا ہے۔‘‘

مسز ایڈیسن یہ سنتے ہی بھڑک اٹھی ’’اچھا اس نے تمہارے متعلق یہ کہا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور وہ بولی چلو میرے ساتھ‘‘ یہ کہتے ہی امریکی انقلاب کی پوتی اسکول پہنچی جاتے ہی استاد سے کہا ’’تم نے انسپکٹر سے میرے بچے کے متعلق جو کہا وہ مجھے معلوم ہو گیا خوب کان کھول کر سن لو اگر یہاں کوئی غیر طبعی ہے تو تم ہو، اگر ’’ایل‘‘ کے مقابلے میں تمہیں نصف دماغ بھی ملا ہوتا تو تم اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے‘‘ پھر زور سے اپنا ہاتھ استاد کی میز پر مارتے ہوئے بولی ’’ میرے الفاظ یاد رکھنا ایک روز دنیا میرے بچے کی نامور ی سے گو نج اٹھے گی اور تمہارا نام بھی کوئی نہ جانے گا اور بچے کویہ کہتے ساتھ لے گئی آج سے تمہیں اسکول جانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں خود تمہیں سب کچھ پڑھائوں گی ۔‘‘ چنانچہ اس نے بچے کو تعلیم دی ۔

وہ بچہ ایڈیسن آگے چل کر دنیا کا سب سے کامیاب سائنس دان بنا، جس نے 1093 ایجادات کیں ، اس نے لکھا ’’ میں جوکچھ بھی بنا ہوں ، ماں کا بتایا ہوا ہے میں نے اسی روز فیصلہ کر لیا تھا کہ میں ماں کو مایوس نہیں کروں گا اسے میرے متعلق بے حد یقین تھا اور وہ قول کی سچی تھیں ‘‘ ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ کامیابی یا ناکامی انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ذہنی رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے‘‘ کامیابی، خوشحالی، ترقی، خوشیاں کبھی بھی آپ کو راہ چلتے سٹرک پہ پڑی ہوئی نہیںملتیں ۔ بلکہ یہ سب آپ کو اپنے ارادوں سے ملتی ہیں ۔

ہیوگو نے کہا ہے ’’ لوگوں میں طاقت کی کمی نہیں ہے، ان میں ارادے کی کمی ہے ‘‘ ہم سب جس چیزکو سب سے زیادہ ضایع کررہے ہیں اور اس پرکوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں وہ ہے ہماری ذہنی طاقت کا ضیاع۔ ہر شخص میں ویسی ہی طاقت موجود ہوتی ہے جیسا وہ بننا چاہتا ہے آپ وہ ہرکام کرسکتے ہیں جو آپ کر نا چاہتے ہیں ہم71 سالوں سے منزل اور ہدف کا تعین کیے بغیر بس چلے ہی جا رہے ہیں ۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی منزل کیا ہے اس کا ہدف کیا ہے ۔ ہم اپنے سوا ہر شخص اور ہر چیز پر تنقید کرتے رہتے ہیں ، ہم سب اپنے منفی پیغام کو طاعون کی طرح پھیلاتے رہتے ہیں ، ہم دراصل ایسی بیماری میں مبتلا ہیں ، جس کا نام تجزیے کا فالج ہے۔

یاد رہے اس بیماری کا شکار لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ۔ پھر آخر میں دنیا کے سب سے افسوسناک لفظ کاش کے پجاری بن کے رہ جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی ساری برائیوں اور خرابیوں کے خالق ہم خود ہیں۔ یہ تمام برائیاں اور خرابیاں زمین پھاڑ کر باہر نہیں نکل آئی ہیں اور نہ ہی کسی نے انھیں آسمان سے ہمارے اوپر پھینک دی ہیں ۔ نہ جانے ہمیں اپنے آپ پر ترس کیوں نہیں آتا، ورنہ ہم دنیا کے لوگوں کی طرح اپنی قسمت اور نصیب کبھی کے بدل چکے ہوتے۔

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے۔ آخر وہ لمحہ ہماری زندگیوں میں کیوں نہیں آ رہا ہے کہ جس میں ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنی جہالت، غربت ، انتہاپسندی ، عدم روا داری ، عدم برداشت کا خاتمہ اپنے ہاتھوں کرنا ہے اور دنیا کا سب سے کامیاب انسان بن کے دکھانا ہے ۔یہ بات ہماری سمجھ سے تو باہر ہے اگر آپ کو سمجھ آتی ہے تو آپ ہی بتا دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔