پیٹ بھرے معاشرے کا المیہ

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 12 جولائی 2019

پچھلے دنوں امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں ایک قیامت خیز زلزلہ آیا ۔ زلزلے کا پہلا جھٹکا 8.6 اور دوسرا 7.3 کا تھا۔ یہ پیمائش اچھے خاصے زوردار زلزلے کو ظاہرکرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ امریکی معاشرہ سائنسی ترقی کے اعتبار سے مثالی، مالی اور اقتصادی لحاظ سے قابل رشک ہے۔ اس معاشرے کو اخلاقی اعتبار سے بھی باعث فخر ہونا چاہیے۔

زلزلہ اتنا شدید تھا کہ درجنوں بلکہ سیکڑوں کثیر المنزلہ عمارتیں اس طرح جھولتی رہیں جیسے بہار کے موسم میں درختوں کی شاخیں لچکے کھاتی ہیں۔ انتہائی متاثرہ علاقوں میں سیکڑوں عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ لوگ گھروں کو چھوڑ چھوڑ کر میدانوں اور کھلی جگہوں پر جا بیٹھے۔

سڑکوں اور شاہراہوں پر دراڑیں پڑ گئیں اور بعض دراڑیں اتنی گہری تھیں کہ ان کی مرمت فوری طور پر ممکن نہ تھی اور دشواری یہ بھی تھی کہ زلزلے کے آفٹر شاکس مسلسل آ رہے تھے اور زلزلے کے بعد تقریباً 400 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس شدت کے زلزلے کے باوجود کسی جانی نقصان کی اطلاع نہ مل سکی حالانکہ بعض شہر اور قصبے زلزلے کے باعث تقریباً تباہ ہو گئے۔ شاہراہیں بند کر دی گئیں اور لوگوں کو ڈرائیو کرنے اور آزادانہ سفرکرنے سے روک دیا گیا۔

البتہ اس معاشرے میں جہاں ہر شخص کو ہر چیز میسر ہے اور سرکار رعایا کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے مستعد رہتی ہے وہاں مالی نقصان بڑا شدید ہوا ۔

مالی نقصان یہ نہیں تھا کہ عمارتیں گر گئیں، گھر برباد ہو گئے، گاڑیاں تباہ ہو گئیں ۔ یہ تو بہرحال ہونا تھا مگر ہوا یہ کہ اس خوشحال معاشرے میں اس غیر معمولی اور تباہ کن صورتحال میں لٹیروں کا راج قائم ہو گیا۔ لوگ دکانوں اور مکانوں سے قیمتی سامان اٹھا اٹھا کر لے جاتے رہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بیشتر لٹیرے کھانے پینے کی اشیا اور شراب کی بوتلوں کے رسیا تھے اور سب سے زیادہ یہی چیزیں لوٹ مار کی زد میں آئیں۔ ہنگامی صورتحال میں سانپ اور انسان ایک ہی درخت پر پناہ لیتے ہیں مگر امریکی معاشرے میں عین ہنگامی صورتحال میں لوگ گھروں اور دکانوں سے کھانے پینے کی اشیا اور شراب بٹور رہے تھے، کیا یہ بھک منگوں کا معاشرہ تھا۔ اس سے تو ہم ہی اچھے کہ کم ازکم ایسی صورتحال میں خوف خدا سے لرزہ براندام ہو کر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی اپنی غلط حرکات سے عارضی طور پر باز آ جاتے ہیں۔

اسی معاشرے کی ایک دوسری جھلک یہ ہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلا میں بھیجے جانے والے راکٹ کے لیے جو مطلوبہ المونیم خریدا وہ وہاں کی ایک ذمے دار فرم نے فراہم کیا تھا، مگر ہوا یہ کہ دونوں راکٹ یکے بعد دیگر خلا میں داخل ہونے سے پہلے ہی پھٹ گئے صرف راکٹ ہی تباہ نہیں ہوئے بلکہ ان میں موجود نصف تحقیقی آلات بھی تباہ و برباد ہو گئے۔ اس طرح ایک طرف تو لاکھوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا دوسری طرف خلائی تحقیق کا کام رک گیا۔

اس معاملے کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ناسا کو المونیم فراہم کرنے والے ٹھیکے دار نے ناسا کو ناقص المونیم فراہم کیا اور اس کی جانچ کی جو رپورٹ دی گئی وہ بھی جعلی تھی۔ دوسری جانب خود ناسا کے ذمے داران نے اس فراہم کردہ المونیم کی مناسب جانچ پڑتال جو انھیں کرنا چاہیے تھی نہیں کی اور ٹھیکے دارکے کہے پر یقین کر لیا۔

اتنی بڑی گھپلے بازی کے بعد خیال ہوا کہ ہم کم از کم اس معاملے میں تو امریکا کے ہم پلہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس قسم کی بے ایمانیاں بھی عام ہیں اور سرکاری سطح پر اس قسم کی غفلتیں بھی۔

وہاں بھی ٹھیکے دار نے اسی معیار کی بے ایمانی کی جو ہمارے یہاں رائج ہے اور ناسا کے ذمے داران نے اسی قسم کی سہل انگاری کا مظاہرہ کیا جو ہمارا وصف سمجھا جاتا رہا تھا، مگر اب الحمدللہ امریکی اس معاملے میں ہمارے ہم مشرب و ہم مذاق ہو گئے ہیں۔

امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کو اس حرکت سے نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ اس کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایسے دو راکٹ تو ایک اوسط درجے کے سالانہ بجٹ کے برابر ہوتے ہیں۔ اس لیے امریکا کے لیے یہ اقتصادی جھٹکا معمولی نہیں اور اگر یہ جھٹکا کسی شخصی غفلت یا تکنیکی خرابی کے باعث ہوتا تو شاید گوارا کیا جا سکتا تھا مگر یہ تو بے لباس بے ایمانی کا نتیجہ تھا جس پر قابو نہ پایا گیا تو امریکی معاشرے کے زوال کو کون روک سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔