- لاہور کے اسپتال میں ڈکیتی، ڈاکوؤں نے مریضوں اور عملے کو لوٹ لیا
- پی سی بی نے قومی ٹیم کے کوچز کا باقاعدہ اعلان کردیا
- وزیراعظم کی صدر اسلامی ترقیاتی بینک سے ملاقات، مختلف منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ
- عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے این آر او چاہتے ہیں جو انہیں نہیں ملنا، عظمی بخاری
- برطانیہ؛ بچیوں کیساتھ جنسی زیادتی پر 24 ملزمان کو 346 سال قید
- خراب پرفارمنس؛ صائم، عثمان، اعظم خان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کپتان کا بیان آگیا
- کراچی میں دیوروں کے ہاتھوں بھابھی قتل
- کراچی اور بلوچستان پولیس کو مطلوب بی ایل اے کا دہشتگرد ساتھی سمیت گرفتار
- رشتے دار کو خون دینے اسپتال آنے والا نوجوان حادثے میں جاں بحق
- امریکی جامعات میں اسرائیل مخالف مظاہرین پر پولیس کا حملہ؛ متعدد طلبا زخمی
- ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ میں مختلف ممالک کا اظہار دلچسپی
- ایف بی آر کے گریڈ 20 تا 22 کے 36 افسروں کے تقرر و تبادلے
- پی ٹی آئی مذاکرات کے بجائے ڈیل کی درخواستیں دے رہی ہے، شرجیل میمن
- ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ناکامی کی تحقیقات کیلیے کمیٹی قائم
- پی ٹی آئی فوج کے بعد حکومت سے بھی مذاکرات کریگی، فیصل واوڈا
- آئندہ 24گھنٹوں کے دوران ملک کے بالائی علاقوں میں بارشوں کا امکان
- ٹی20 ورلڈکپ؛ بازید خان نے اپنے 15 رکنی اسکواڈ کا بتادیا
- خیبر پختونخوا؛ تحصیل کونسل کے چیئرمینز کی 6خالی نشستوں پر پولنگ جاری
- غیر ملکی ماہرین کی خدمات کیلیے قوانین میں نرمی کی سمری منظور
- یوٹیوب کا اشتہارات کے متعلق نئے فیچر کی آزمائش
کینسر کی نئی ’اینٹی باڈی ویکسین‘ انسانی آزمائشوں کےلیے منظور
اوہایو: امریکی سائنسدانوں کی تیار کردہ ایک نئی کینسر ویکسین کو جانوروں میں کامیابی سے آزمانے کے بعد پہلے مرحلے کی انسانی آزمائشوں (فیز ون کلینیکل ٹرائلز) کےلیے منظور کرلیا گیا ہے۔ یہ ویکسین ایک خاص اینٹی باڈی پر مشتمل ہے۔ تفصیلات کے مطابق، یہ ویکسین کئی امریکی اداروں نے ’’اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی‘‘ کی سربراہی میں تیار کی ہے۔ جانوروں پر تجربات کے دوران اس نے امیونوتھراپی کی ایک اور دوا کے ساتھ مل کر 90 فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ریسرچ جرنل ’’اونکو امیونولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی مذکورہ تحقیق کے سینئر ماہر اور اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسداں ڈاکٹر پراوین کومیا نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کینسر ویکسین کی ایک نسبتاً نئی قسم ہے جس میں ’مونوکلونل اینٹی باڈیز‘ استعمال کرتے ہوئے جسم کے قدرتی دفاعی نظام کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ کینسر میں مبتلا خلیوں کی نشاندہی کرکے انہیں ختم کرسکے۔
سرطان (کینسر) زدہ خلیے اکثر اپنے آپ کو اس انداز سے تبدیل کرتے ہیں کہ جسم کا قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) انہیں شناخت نہیں کر پاتا اور یوں وہ پھیلنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
امیون سسٹم کے وہ خلیات جو بیماری کا باعث بننے والے خلیوں کو شناخت کرکے ہلاک کرتے ہیں، وہ اپنی سطح پر موجود ایک خاص ’’چیک پوائنٹ پروٹین‘‘ استعمال کرتے ہیں جو ’’پی ڈی ون‘‘ (PD-1) کہلاتا ہے۔ یہ پروٹین کسی بھی جسمانی خلیے کی سطح پر موجود ایک اور چیک پوائنٹ پروٹین ’’پی ڈی ایل ون‘‘ (PD-L1) کے ساتھ جڑ کر یہ پتا لگاتا ہے کہ وہ خلیہ صحت مند ہے یا پھر کسی خرابی کا شکار ہے۔
اگر وہ جسمانی خلیہ صحت مند ہوتا ہے تو پی ڈی ون چیک پوائنٹ پروٹین فوری طور پر اس سے الگ ہو کر اگلے خلیے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر اس خلیے میں کسی خرابی کا انکشاف ہو تو امیون سسٹم کا خلیہ اسے جکڑے رہتا ہے اور تیزی سے ضروری کارروائی کرتے ہوئے اس ’خراب خلیے‘ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ سرطان زدہ خلیات اسی چیک پوائنٹ پروٹین کو دھوکا دیتے ہوئے خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ بالکل صحت مند ہوں۔
نئی کینسر ویکسین، جسے ’’پی ڈی ون ویکس‘‘ (PD1-Vaxx) کا نام دیا گیا ہے، دوہرا کام کرتی ہے: ایک طرف یہ امیون سسٹم کے خلیات کو دوبارہ اس قابل بناتی ہے کہ وہ سرطان زدہ خلیوں کو شناخت کرسکیں تو دوسری جانب امیون سسٹم میں ایک وسیع تر عمومی ردِعمل بھی پیدا کرتی ہے جو کینسر میں مبتلا خلیات کے تیز رفتار خاتمے اور ’’صفائی‘‘ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس حوالے سے یوٹیوب پر ایک معلوماتی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے:
اس کے علاوہ، یہ ویکسین ایسے حیاتی کیمیائی تعاملات (پاتھ ویز) میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے جو سرطان زدہ خلیوں کی تعداد بڑھانے کی وجہ بنتے ہیں۔
دواؤں اور علاج سے متعلق مرکزی امریکی ادارے ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ نے اس ماہ کی ابتداء میں ’’پی ڈی ون ویکس‘‘ کی ابتدائی انسانی آزمائشوں کی منظور دے دی ہے جبکہ آسٹریلیا کے متعلقہ اداروں سے بھی اس بارے میں منظوری حاصل کی جاچکی ہے۔
اگر انسانی آزمائشوں میں بھی اس دوا نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں کینسر بھی کوئی لاعلاج بیماری نہیں رہے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔