- گورنر خیبرپختونخوا کے اپنی رہائشگاہ ’’کے پی کے ہاؤس‘‘ آنے پر پابندی
- حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
- نقل مافیا اور آپریشن راہ راست
- یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
- پی ایس ایل سے آئی پی ایل کا ٹکراؤ؛ فرنچائزز نے مخالفت کردی
- حماس سے جھڑپوں، حزب اللہ کے راکٹ حملے میں اسرائیلی فوجی سمیت 2 ہلاک، 5 زخمی
- پی ایس ایل کا مذاق؛ بھارتیوں کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی
- فلسطین کے حامی مظاہرین کا برطانیہ میں اسرائیلی ڈرون ساز فیکٹری کے باہر احتجاج
- تحریک انصاف کا 9 مئی مقدمات میں دہشت گردی کی دفعہ چیلنج کرنے کا فیصلہ
- اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی، انڈیکس 75 ہزار کی سطح عبور کرگیا
- سیکورٹی خدشات؛ اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور
- بابراعظم نے کوہلی کے ریکارڈ پر بھی قبضہ جمالیا
- کراچی میں نوجوان نے ڈاکو کو ماردیا، فائرنگ کے تبادلے میں خود بھی جاں بحق
- ایک اوور میں 25 رنز؛ بابراعظم کا ایک اور ریکارڈ
- 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں یا ہمیں فوری سزائیں سنائیں، شیخ رشید
- وزن کم کرنے والے انجیکشن قلبی صحت کے لیے مفید، تحقیق
- ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کرنے والا پلانٹ
- 83 سالہ خاتون ہاورڈ سے گریجویشن کرنے والی معمر ترین طالبہ بن گئیں
- پاکستان سے دہشتگردی کیخلاف کوششیں بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، امریکا
- پراپرٹی لیکس نئی بوتل میں پرانی شراب، ہدف آرمی چیف: فیصل واوڈا
معاشی مسائل کا حل اکنامک فریم ورک کی تشکیل نو میں پوشیدہ
اسلام آباد: ملکی ماہرین اقتصادیات اور عوام یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا موجودہ اکنامک فریم ورک ناکارہ ہوچکا ہے اور اسے نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
مختلف کاروباری انجمنیں بالخصوص چیمبر آف کامرس اور صنعتیں ان معاشی اصلاحات کا تعین کرنے کی کوشش کررہی ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہوسکیں اور جن پر مستقبل میں حکومتوں کی تبدیلی سے قطع نظر کام جاری رہ سکے۔ اس سلسلے میں وہ میثاق معیشت پر دستخط کرنے کے لیے ماہرین کی رائے معلوم کرنے کے علاوہ بڑے سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
متعدد ممالک معاشی اصلاحات کے ذریعے اپنے اقتصادی بحرانوں پر قابو پاچکے ہیں۔ پاکستان بھی یہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اقتصادی مشکل جامد برآمدات ہیں۔ عالمی برآمدات میں پاکستان کا حصہ ڈیڑھ فیصد سالانہ کی شرح سے کم ہوتا جارہا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ کم شرح خواندگی ہے۔وہ کبھی خوشحال نہیں ہوسکتی جہاں شرح خواندگی کم ہو۔
گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا محض 1.77 فیصد تھا جو عالمی اوسط کے نصف سے بھی کم ہے۔ تیسرا مسئلہ وسائل پر ایلیٹ کلاس کا قابض ہونا ہے جس کی وجہ سے عوامی وسائل کا رخ چند افراد کے مفاد کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔
یو این ڈی پی کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بااثر طبقہ 17.4 ارب ڈالر کی اقتصادی رعایتیں حاصل کررہا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ہمیں اپنے عالمی اور علاقائی تعلقات وسیع کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکسیشن اور تجارتی پالیسیوں میں اصلاحات لانی ہوں گی۔
شرح خواندگی بڑھانے کے لیے بجٹ میں تعلیم کا حصہ بڑھانا ہوگا اور فنی تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مزیدبرآں بااثر طبقے کو حاصل کردہ تمام اقتصادی مراعات ختم کرنی ہوں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔